صحيح مسلم
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- طہارت کے احکام و مسائل
18. باب النَّهْيِ عَنْ الاِسْتِنْجَاءِ بِالْيَمِينِ:
باب: دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 615
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا الثَّقَفِيُّ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى أَنْ يَتَنَفَّسَ فِي الإِنَاءِ، وَأَنْ يَمَسَّ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ، وَأَنْ يَسْتَطِيبَ بِيَمِينِهِ ".
ایوب نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے، انہو ننے (اپنے والد) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاکہ کوئی برتن میں سانس لے یا اپنی شرم گاہ کو اپنا دائیاں ہاتھ لگائے یا اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے: کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، کہ کوئی برتن میں سانس لے، یا یہ کہ اپنے ذکر کو اپنا دایاں ہاتھ لگائے، یا یہ کہ اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 83  
´دائیں ہاتھ سے اپنے عضو کو پیشاب کرتے ہوئے نہ چھوئے اور نہ پکڑے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا يمسن احدكم ذكره بيمينه وهو يبول،‏‏‏‏ ولا يتمسح من الخلاء بيمينه،‏‏‏‏ ولا يتنفس فى الإناء . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم میں سے کوئی بھی پیشاب کرتے وقت دائیں ہاتھ سے اپنے عضو مخصوص کو ہرگز نہ چھوئے اور قضائے حاجت کے بعد سیدھے ہاتھ سے استنجاء بھی نہ کرے۔ نیز پانی پیتے وقت اس میں سانس بھی نہ لے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 83]

لغوی تشریح:
«لَا یَمَسَّنَّ» «مَسّ» سے نہی کا صیغہ ہے اور نون ثقیلہ تاکید کے لیے ہے۔
«وَلَا یَتَمَسَّحُ» یعنی استنجا نہ کرے۔
«تَمَسُّح» کے معنی ہیں: ہاتھ کو پھیرنا اور ملنا تاکہ بہنے والی گندگی دور ہو جائے، یا ناپاک چیز سے لتھڑی ہوئی شے کو ہاتھ سے صاف کرنا۔

فوائد و مسائل:
اس حدیث میں تین مسئلے بیان کیے گئے ہیں:
➊ ایک یہ کہ اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے عضو مخصوص کو پیشاب کرتے ہوئے نہ چھوئے اور نہ پکڑے۔ دوسرا یہ کہ اس ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔ ایسا کرنا حرام بھی ہے اور سوء ادب اور کم ظرفی بھی۔ اور تیسرا یہ کہ کوئی مشروب وغیرہ پیتے وقت برتن میں سانس نہ لے۔
➋ برتن میں سانس لینا اس لیے ممنوع ہے کہ سانس کے ذریعے سے خارج ہونے والے جراثیم پیے جانے والے مشروب وغیرہ میں شامل ہو کر معدے میں داخل ہوں گے۔ یہ جراثیم طبی تحقیق کی رو سے صحت کے لیے نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔
➌ جس حدیث میں سانس لینے کا ذکر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پینے والا ایک ہی سانس میں غٹ غٹ نہ چڑھا جائے بلکہ تین دفعہ پیے اور سانس باہر نکالے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 83   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 153  
´داہنے ہاتھ سے طہارت کرنے کی ممانعت `
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ، وَإِذَا أَتَى الْخَلَاءَ فَلَا يَمَسَّ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ، وَلَا يَتَمَسَّحْ بِيَمِينِهِ . . .»
. . . عبداللہ بن ابی قتادہ سے، وہ اپنے باپ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلاء میں جائے تو اپنی شرمگاہ کو داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ النَّهْيِ عَنْ الاِسْتِنْجَاءِ بِالْيَمِينِ: 153]

تخريج الحديث:
[151۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 18 باب النهي عن الاستنجاء باليمين 153، مسلم 267، ابن ماجه 310]
لغوی توضیح:
«لَا يَتَنَفَّسْ» سانس نہ لے۔
«لَا يَتَمَسَّحْ» استنجاء نہ کرے۔ معلوم ہوا کہ دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا جائز نہیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 151   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 47  
´داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پئیے تو اپنے برتن میں سانس نہ لے، اور جب قضائے حاجت کے لیے آئے تو اپنے داہنے ہاتھ سے ذکر (عضو تناسل) نہ چھوئے، اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 47]
47۔ اردو حاشیہ:
➊ برتن میں سانس لینے سے مراد یہ ہے کہ پیتے پیتے سانس لے، یہ ممنوع ہے۔ شاید یہ ممانعت اس لیے ہو کہ اس صورت میں ناک سے سانس کے ساتھ غلاظت خارج ہونے کا احتمال ہوتا ہے کہ جس سے مشروب آلودہ ہو جائے گا، نیز سانس کے ساتھ پھیپھڑے کے فاسد مادوں کی آمیزش ہوتی ہے وہ بھی پانی میں شامل ہو جائیں گے، نیز اس میں جانوروں سے مشابہت ہے، وہ پیتے پیتے سانس لیتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سانس لینے کے لیے برتن کو منہ سے الگ کیا جائے۔
➋ چونکہ دایاں ہاتھ کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔ اور عقل سلیم بھی اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ کھانے اور استنجے کے لیے ایک ہی ہاتھ کا استعمال نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 47   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1889  
´پیتے وقت برتن میں سانس لینے کی کراہت کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ چھوڑے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأشربة/حدیث: 1889]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث بظاہر انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے معارض ہے (أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَنَفَّسُ فِي الْإِنَاءِ ثَلَاثًا) یعنی نبی اکرم ﷺ برتن سے پانی تین سانس میں پیتے تھے،
ابوقتادہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی برتن سے پانی پیتے وقت برتن کو منہ سے ہٹائے بغیر برتن میں سانس لیتا ہے تو یہ مکروہ ہے،
اور انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ برتن سے پانی تین سانس میں پیتے تھے،
اور سانس لیتے وقت برتن کو منہ سے جدا رکھتے تھے،
اس توجیہ سے دونوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1889   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 615  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
پانی پیتے وقت سانس برتن کے اندر نہیں لینا چاہیے،
بلکہ برتن کو منہ سے دور کرلینا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 615