مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے منقول روایات

حدیث نمبر 689
حدیث نمبر: 689
689 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْمَاعِيلَ الشَّيْبَانِيَّ، يَقُولُ: بِعْتُ مَا فِي رُءُوسِ نَخْلِي بِمِائَةِ وَسَقٍ تَمْرٍ، إِنْ زَادَ فَلَهُمْ، وَإِنْ نَقَصَ فَعَلَيْهِمْ، فَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: «نَهَي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ إِلَّا أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا»
689- اسماعیل شیبانی بیان کرتے ہیں:میں نے کھجور کے درختوں پر لگے ہوئے پھل کو ایک سو وسق کھجور وں کے عوض میں فروخت کردیا،(اس شرط پر کہ اگر درخت پر لگا ہو ا پھل) زیادہ ہوا تو ان لوگوں کو مل جائے گا اگر کم ہوا تو اس کا نقصان بھی ان کو ہوگا۔ میں نے اس بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا،تو انہوں نے بتایا:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا میں اس کی اجازت دی ہے۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2173، 2184، 2188، 2192، 2380، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1534، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5001، 5004، 5005، 5009، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4546، 4550، 4551، 4552، 4553، 4554، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3362، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1300، 1302، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2600، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2268، 2269، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10758، 10759، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4576 برقم: 4629»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:689  
689- اسماعیل شیبانی بیان کرتے ہیں:میں نے کھجور کے درختوں پر لگے ہوئے پھل کو ایک سو وسق کھجور وں کے عوض میں فروخت کردیا،(اس شرط پر کہ اگر درخت پر لگا ہو ا پھل) زیادہ ہوا تو ان لوگوں کو مل جائے گا اگر کم ہوا تو اس کا نقصان بھی ان کو ہوگا۔ میں نے اس بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا،تو انہوں نے بتایا:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا میں اس کی اجازت دی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:689]
فائدہ:
اس حدیث سے بیع عرایا کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ عرایا، جمع ہے عری کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کھجور میں پکنے کے وقت اس کے کھانے میں رغبت رکھے، لیکن اپنے فقر کی وجہ سے کھانے کی طاقت نہ رکھتا ہو، تاہم اس کے پاس خشک کھجوریں ہیں، چنانچہ وہ پانچ وسق خشک کھجوروں کے بدلے درخت پر لگی کھجوروں کا اندازہ کر کے خرید لے۔ چونکہ عرایا جو کہ اصل میں حرام تھا لیکن ضرورت کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا گیا، اس لیے ضرورت کی مقدار پر اکتفاء کرنا چاہیے، اس لیے کہ صرف پانچ وسق یا اس سے کم میں جائز ہے۔ اس لیے کہ تر کھجور میں لذت کے طور پر کھانا اس مقدار میں کافی ہو جاتا ہے۔ بیع عرایا کی مقدار ہے کہ یہ پانچ وسق کی مقدار سے کم ہوں، یا پھر پانچ وسق ہوں۔ (صحیح البخاری، صحیح مسلم)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 689