مسند الحميدي
جَامِعُ أَبِي هُرَيْرَةَ -- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول مجموعۂ روایات

حدیث نمبر 1094
حدیث نمبر: 1095
1095 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الْمُنْفِقِ وَالْبَخِيلِ كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُنَّتَانِ أَوْ جُبَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ مِنْ لَدُنْ ثُدِّيهِمَا إِلَي تَرَاقِيهِمَا، فَإِذَا أَرَادَ الْمُنْفِقُ أَنْ يُنْفِقَ اتَّسَعَتْ عَلَيْهِ الدِّرْعُ، أَوْ مَرَّتْ حَتَّي تَجِنَّ بَنَانَهُ، وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ، وَإِذَا أَرَادَ الْبَخِيلُ أَنْ يُنْفِقَ قَلَصَتْ عَلَيْهِ الدِّرْعُ، وَلَزِمَتْ كُلُّ حَلَقَةٍ مَوْضِعَهَا، حَتَّي يَأْخُذَ بِتَرْقُوتِهِ، أَوْ قَالَ: بِرَقَبَتِهِ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَأَشْهَدُ لَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بِيَدِهِ هَكَذَا، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ إِلَي حَلَقَةٍ فَهُوَ يُوَسِّعُهَا وَلَا تَتَّسِعُ، مَرَّتَيْنِ،
1095- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: خرچ کرنے والے اور بخیل شخص کی مثال دو ایسے آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے لوہے کی بنی ہوئی دو زرہیں پہنی ہوئی ہوں۔ (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) دو جبے پہنے ہوئے ہوں۔ جوان کے سینے سے لے کر گردن تک ہوں۔ جب خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کی گرہ کشادہ ہوجاتی ہے (یانیچے ہوجاتی ہے)۔ یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے پوروں کو چھپا لیتی ہے اور اس کے قدموں کے نشان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ (یعنی زمین پر گرجاتی ہے) اور جب کنجوس شخص خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تواس کی زرہ اس کے لیے تنگ ہوجاتی ہے اس کا ہر حلقہ جڑ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس شخص کی گردن کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں یہ گواہی دے کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دست مبارک کو اس طرح اشارہ کرتے ہوئے دیکھا۔
پھر سفیان نے اپنے ہاتھ کے ذریعے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا کہ وہ شخص اسے کھولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کھلتی نہیں ہے۔ ایسا انہوں نے دومرتبہ کیا۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1402، 1403، 1443، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 987، 1021، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2252، 2253، 2254، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3253، 3254، 3258، 3261، 3313، 3332، 4671، 4672، 4675، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1439، 1470، 1471، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2441، 2447، 2481، 2546، 2547، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1658، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1636، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1786، 2788، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7323، 7325، 7380، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5873، 7453، 7601، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2640، 2641، 6014، 6319»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1095  
1095- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: خرچ کرنے والے اور بخیل شخص کی مثال دو ایسے آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے لوہے کی بنی ہوئی دو زرہیں پہنی ہوئی ہوں۔ (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) دو جبے پہنے ہوئے ہوں۔ جوان کے سینے سے لے کر گردن تک ہوں۔ جب خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کی گرہ کشادہ ہوجاتی ہے (یانیچے ہوجاتی ہے)۔ یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے پوروں کو چھپا لیتی ہے اور اس کے قدموں کے نشان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ (یعنی زمین پر گرجاتی ہے) اور جب کنجوس شخص خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تواس کی زرہ اس کے لیے تنگ ہوجاتی ہے اس کا ہر حلقہ ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1095]
فائدہ:
اس حدیث میں سخی اور کنجوس کی مثال دے کر سمجھایا گیا ہے کہ جب بھی خرچ کرتا ہے تو اس کا سینہ کھل جاتا ہے، اور ایمان سے اس کا دل تازہ ہو جاتا ہے لیکن کنجوس جس وقت خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل تنگ ہو جاتا ہے، وہ وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے، اور اس کے دل و دماغ پر سناٹا چھا جاتا ہے کیونکہ اس کی زندگی کا مقصد ہی پیسہ جمع کرنا ہوتا ہے، اس کو آخرت کی فکر نہیں ہوتی، اس کے دل و دماغ میں قرآن و حدیث سے کہیں زیادہ مال دولت سے محبت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ مال خرچ نہیں کرتا، کنجوس کے مقابلے میں حقیقی مومن جب مال خرچ کرتا ہے تو اس کو خوشی محسوس ہوتی ہے، دل تر و تازہ ہو جاتا ہے، اور وہ اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے کہ اے اللہ! تو نے میرے پیسے اچھی جگہ پر لگائے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے انسان سے خوش ہو جاتے ہیں اور رہا کنجوس تو اس کے پیسے سے نہ وہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ اس کی اولاد، اور نہ دین کے کام آتے ہیں، بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے، اور اس کی جمع شدہ پونچی پانی کی طرح بہہ جاتی ہے، اور پھر وہ یہ سب کچھ گوارا کر لیتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1094