مسند الحميدي
بَابٌ جَامِعٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ -- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول متفرق روایات

حدیث نمبر 1149
حدیث نمبر: 1150
1150 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا عَدْوَي، وَلَا طَيْرَةَ، جَرِبَ بَعِيرٌ فَأَجْرَبَ مِائَةً، وَمَنْ أَعْدَي الْأَوَّلَ»
1150- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: عدویٰ، تیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے ایک اونٹ خارش کا شکار ہوتا ہے اور وہ ایک سواونٹوں کو خارش کا شکار کردیتا ہے لیکن پہلے کو بیماری کاشکار کس نے کیا؟


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5717، 5754، 5755، 5757، 5770، 5771، 5773، 5774، 5775، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2220، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5826، 6114، 6115، 6116، والنسائي فى «الكبريٰ» برقم: 7547، 7548، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3911، 3912، 3913، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2143، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3536، 3541، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14347، 14348، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4283، 7733، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5182، 6112، 6297، 6508، 6632»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1150  
1150- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: عدویٰ، تیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے ایک اونٹ خارش کا شکار ہوتا ہے اور وہ ایک سواونٹوں کو خارش کا شکار کردیتا ہے لیکن پہلے کو بیماری کاشکار کس نے کیا؟ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1150]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کوئی پیاری متعدی نہیں ہے، اور یہی بات حق ہے، ڈاکٹر حضرات کا لوگوں کو ڈرا نا کہ جراثیم ہوتے ہیں، وہ آگے پھیل جاتے ہیں، یہی بیماری آ گے چلی جائے گی، اس لیے اپنے مریض سے دور رہیں۔ یہ سب یاوہ گوئی ہے، کسی بیماری میں سے منتقل ہونے کی طاقت ہی نہیں ہے، جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا، تو بیماری کیسے آگے منتقل ہو سکتی ہے، بلکہ یہ بات بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ جب جسم کے ایک حصے میں درد اور تکلیف ہے، وہ دوسرے عضو میں نہیں جاسکتی (مثلا اگر شہادت والی انگلی میں درد ہے تو در دانگو ٹھے میں نہیں جاتی۔۔۔۔) تو کیسے ممکن ہے کہ بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جائے، دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے
نیز اس حدیث میں غلط طریقے سے فال نکالنے کی مذمت بیان کی گئی ہے، زمانہ جاہلیت میں بعض لوگ کام کرنے سے پہلے پرندہ اڑاتے، پھر اچھی یا بری فال لے کر کام کرتے یا نہ کرتے۔ یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ قرآن و حدیث زمانہ جاہلیت کی جہالتوں کا زبردست رد کرتا ہے لیکن افسوس کہ امت مسلمہ کی اکثریت جاہلوں کی جہالت پرعمل کرتی نظر آتی ہے، کوئی کبوتر سے فال نکلوا رہا ہے، تو کوئی اپنے ہاتھ کی لکیروں سے قسمت معلوم کر رہا ہے، یہ سب زمانہ جاہلیت کے کام ہیں، انھی کاموں سے شریعت منع کرتی ہے لیکن افسوس کے بعض مسلمان انھی جاہلانہ کاموں کو بڑے فخر سے کرتے ہیں، اور قرآن و حدیث کی کچھ پروا نہیں کرتے۔
نیز اس حدیث میں اونٹوں کی مثال سے ثابت ہوا کہ سائل یا مخاطب کو وہی مثال دینی چاہیے جس کو وہ اچھی طرح سمجھ سکیں، اور اس مثال کا انہی لوگوں کے ساتھ تعلق بھی ہو، کسانوں کو سائنسدانوں کی مثال شاید سمجھ میں نہ آئے، فافهم۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1148