مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 1216
حدیث نمبر: 1217
1217 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَقَاطَعُوا وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ» فَقِيلَ لِسُفْيَانَ فِيهِ: «وَلَا تَنَاجَشُوا؟» ، قَالَ: لَا
1217- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: آپس میں قطع رحمی نہ کرو، آپس میں ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، اللہ کے بندے اور بھائی، بھائی بن کر رہو، کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے، وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ لاتعلق رہے۔
سفیان نامی راوی سے دریافت کیا گیا: اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں آپس میں مصنوعی بولی نہ لگاؤ، تو انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6065، 6076، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2559، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5660، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4910، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1935، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14891، 21123، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12256، 12888، 13253، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3261، 3549، 3550، 3551»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1217  
1217- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: آپس میں قطع رحمی نہ کرو، آپس میں ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، اللہ کے بندے اور بھائی، بھائی بن کر رہو، کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے، وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ لاتعلق رہے۔‏‏‏‏ سفیان نامی راوی سے دریافت کیا گیا: اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں آپس میں مصنوعی بولی نہ لگاؤ، تو انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1217]
فائدہ:
اس حدیث میں بعض چیزوں سے منع کیا گیا ہے، اور ان کا تعلق حقوق العباد سے ہے، حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی پر نعمت دیکھ کر یہ کہنا یا سوچنا کہ اس سے نعمت چھن جائے، اور مجھے مل جائے اور یہ حرام ہے، اور جس روایت میں آتا ہے کہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے، وہ روایت سخت ضعیف ہے۔ [سنن ابن ماجه: 4210 اس كي سند ميں عيسي بن ابي عيسي متروك هے نيز ديكهيے الضعيفه: 1901]
نیز اس حدیث میں تین دن سے زیادہ کسی کو نہ بلانے کی مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں پر ایک اہم نکتہ یاد رہے کہ اس سے مراد ہے کہ جو دو لوگ آپس میں لڑ پڑیں، ان کی آپس میں ملاقات ہو جائے اور وہ ایک دوسرے کو نہ بلائیں، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ دو لوگ آپس میں لڑ پڑیں اور ان کی ملاقات ہی نہ ہوئی ہو، یہ مراد نہیں ہے، اس طرح خواہ دس دن گزر جائیں نیز یہ بھی یاد رہے کہ اللہ کی رضا کی خاطر کسی سے ناراض ہو جانا اور وہ ناراضگی پوری زندگی رکھ لینا جب تک دوسرا دین کی طرف نہ آئے یہ درست ہے، کیونکہ یہ ناراضگی اللہ کے لیے ہے، اور دوسرے انسان کی بھلائی کی خاطر ہے، بلکہ یہ ناراضگی باعث اجر ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1215