مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 1253
حدیث نمبر: 1254
1254 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ الْقُرْدُوسِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَمَي الْجَمْرَةَ، وَنَحَرَ نُسُكَهُ، نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ، فَحَلَقَهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِقَّهُ الْأَيْسَرَ، فَحَلَقَهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ أَبَا طَلْحَةَ وَأَمَرَهُ أَنْ يُقَسِّمَهُ بَيْنَ النَّاسِ»
1254- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جمرہ کی رمی کرلی اور قربانی کا جانور ذبح کرلیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا دایاں حصہ سر مونڈنے والے کی طرف بڑھایا اور اس نے اسے مونڈ دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بایاں حصہ اس کی طرف بڑھایا تواس نے اسے بھی مونڈ دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے موئے مبارک سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو دئیے اور انہیں یہ ہدایت کی، وہ انہیں لوگوں کے درمیان تقسیم کردیں۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 171، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1305،وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2928، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1371، 3879، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1749، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4087، 4102، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1981، 1982، والترمذي فى «جامعه» برقم: 912، 912 م، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 90، 4299، 4300، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12275، 12678، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2827»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1254  
1254- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جمرہ کی رمی کرلی اور قربانی کا جانور ذبح کرلیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا دایاں حصہ سر مونڈنے والے کی طرف بڑھایا اور اس نے اسے مونڈ دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بایاں حصہ اس کی طرف بڑھایا تواس نے اسے بھی مونڈ دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے موئے مبارک سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو دئیے اور انہیں یہ ہدایت کی، وہ انہیں لوگوں کے درمیان تقسیم کردیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1254]
فائدہ:
مسلمان زندہ ہو یا مردہ، اس کے بال پاک ہیں، اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
امام محمد بن سیرین نے عبیدہ سے کہا: کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک ہیں، جو ہمیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں کی طرف سے پہنچے ہیں، تو عبیدہ نے یہ سن کر فرمایا:
´´لان تكون عندي شعرة منه احب الى من الدنيا وما``
میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال (بھی) ہوتا تو یہ مجھے دنیا اور اس کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتا۔ [صحيح البخاري: 170]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالوں کو منڈوایا تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو لیا تھا۔ [صحيح البخاري: 171]
ان دونوں حدیثوں پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے: بـاب الـماء الذى يغسل به شعر الانسان باب اس پانی کے بارے میں جس کے ساتھ انسان کے بالوں کو دھویا جا تا ہے۔ (کتاب الوضوء، باب: 33)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی توجیہ بیان کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:
´´ان الشـعـر طـاهر والالما حفظوه ولا تمنى عبيدة ان يكون عنده شعرة واحدة مـنـه واذ كـان طـاهـرا فـالماء الذي يغسل به طاهر``
بال پاک ہیں، وگرنہ (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) ان کی حفاظت نہ کرتے، اور عبیدہ (تابعی) تمنا نہ کرتے کہ ان کے پاس بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا ایک بال ہوتا، جب بال پاک ہیں تو اس پانی میں جس میں ان کو دھویا گیا ہو، وہ بھی پاک ہے [فتـح البـاري:363/1]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: جمہور علماء بھی بالوں کو پاک سمجھتے ہیں، اور یہی ہمارے نزدیک صحیح ہے۔ (فتـح الـبـاری 1 / 364)
ام المؤمنین سیدنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے، جسے انہوں نے ایک چھوٹے پیالے میں رکھا ہوا تھا، یہ بال مہندی کی وجہ سے سرخ تھے، جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا وہ بیمار ہو جاتا تو وہ اپنا پانی کا برتن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتا، (آپ اس پانی کے برتن میں بال ڈبو دیتیں)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے (بشرطیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کہیں سے مل جائیں) [بـخـاري: 5896 وفتح الباري:353/10]
یاد رہے کہ بعض شہروں میں بعض بالوں کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جاتی ہے، جو کہ ثابت نہیں ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1252