صحيح مسلم
كِتَاب الْحَيْضِ -- حیض کے احکام و مسائل
10. باب الْقَدْرِ الْمُسْتَحَبِّ مِنَ الْمَاءِ فِي غُسْلِ الْجَنَابَةِ وَغُسْلِ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ فِي حَالَةٍ وَاحِدَةٍ وَغُسْلِ أَحَدِهِمَا بِفَضْلِ الآخَرِ:
باب: غسل جنابت کے لیے پانی کی مستحب مقدار، اور شوہر اور بیوی کا ایک برتن سے پانی لے کر ایک حالت میں غسل کرنا، اور ایک کا دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنا۔
حدیث نمبر: 739
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ . ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ، عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ ، عَنْ سَفِينَةَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ، وَيَتَطَهَّرُ بِالْمُدِّ "، وَفِي حَدِيثِ ابْنِ حُجْرٍ، أَوَ قَالَ: وَيُطَهِّرُهُ الْمُدُّ، وقَالَ: وَقَدْ كَانَ كَبِرَ، وَمَا كُنْتُ أَثِقُ بِحَدِيثِهِ.
ابو بکر بن ابی شیبہ اورعلی بن حجر نے اسماعیل بن علیہ سے، انہوں نے ابو ریحانہ سے، انہوں نےحضرت سفینہؓ سے (ابو بکر نےکہا:) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی (حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نےکہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع پانی سے غسل فرماتے اور ایک مد پانی سے وضو فرمالیتے۔ (علی) ابن حجر کی روایت میں ہے کہ یا (ابو ریحانہ نے ایک مد سے وضو فرما لیتے تھے کے بجائے) ایک مدپانی سے آپ کا وضو ہو جاتاتھا کہا۔ ابو ریحانہ نے کہا: سفینہ رضی اللہ عنہ عمر رسیدہ ہو گئے تھے، اس لیے مجھے ان کی حدیث پر اعتماد و وثوق نہیں ہے۔
حضرت سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع پانی سے غسل فرماتے اور ایک مد سے وضو فرما لیتے۔ ابن حجر رحمتہ اللہ نے کہا،وَيَتَطَهَّرُ بِالْمُدِّ کہا یا وَيُطَهِّرُهُ الْمُدُّ، کہا، ابو ریحانہ نے کہا، سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ عمر رسیدہ ہو گئے تھے، اس لیے مجھے ان کی حدیث پر اعتماد و وثوق نہیں ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث267  
´وضو اور غسل جنابت کے پانی کی مقدار کا بیان۔`
سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو فرماتے تھے، اور ایک صاع پانی سے غسل ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 267]
اردو حاشہ:
(1)
صاع پیمائش کا ایک پیمانہ ہے جس کی مقدار 5 رطل اور تہائی رطل ہے۔
کلو گرام کے حساب سے اس کی مقدار دوکلو سو گرام اور بعض کے نزدیک ڈھائی کلو ہے۔ (مد)
صاع کے چوتھائی کو کہتے ہیں اس کی مقدار پانچ سو پچیس گرام ہے۔
مائعات کے لیے صاع تقریباً دو لیٹر سے کچھ زائد اور مد اس سے چوتھائی سمجھا جاسکتا ہے۔

(2)
۔
غسل اور وضو کے لیے یہ مقدار ذکر کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ اس سے کم یا زیادہ پانی استعمال کرنا جائز نہیں۔
مقصد محض ایک اندازہ بیان کرنا ہے۔
تاکہ بلاوجہ بہت پانی ضائع نہ کیا جائےبلکہ تھوڑے پانی کو اس طریقے سے استعمال کیا جائےکہ پوری طرح صفائی حاصل ہوجائے، البتہ صدقہ فطر وغیرہ میں صاع سے کم مقدار میں غلہ ادا کرنا درست نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 267   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 56  
´ایک مد پانی سے وضو کرنے کا بیان۔`
سفینہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 56]
اردو حاشہ:
1؎:
مد ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے اور صاع چار مد کا ہوتا ہے جو موجودہ زمانہ کے وزن کے حساب سے ڈھائی کلو کے قریب ہوتا ہے۔

2؎:
مسلم میں ایک فرق پانی سے نبی اکرم ﷺ کے غسل کرنے کی روایت بھی آئی ہے،
فرق ایک برتن ہوتا تھا جس میں لگ بھگ سات کیلو پانی آتا تھا،
ایک روایت میں تو یہ بھی مذکور ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور نبی اکرم ﷺ دونوں ایک فرق پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے،
یہ سب آدمی کے مختلف حالات اور مختلف آدمیوں کے جسموں پر منحصر ہے،
ایک ہی آدمی جاڑا اور گرمی،
یا بدن کی زیادہ یا کم گندگی کے سبب کم و بیش پانی استعمال کرتا ہے،
نیز بعض آدمیوں کے بدن موٹے اور لمبے چوڑے ہوتے ہیں اور بعض آدمیوں کے ناٹے اور دبلے پتلے ہوتے ہیں،
اس حساب سے پانی کی ضرورت پڑتی ہے،
بہر حال ضرورت سے زیادہ خواہ مخواہ پانی نہ بہائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 56   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 739  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے آخری حدیث دوسری حدیثوں کے موافق مطابق ہونے کی بنا پر پیش کی ہے،
اگرچہ راوی نے اس پر انفرادی حیثیت سے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ابو ریحانہ کے سفینہ صحابی پر بڑھاپے کی وجہ سے اعتماد نہ کرنے کو درست نہیں سمجھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 739