صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
138. بَابُ لاَ يَكُفُّ ثَوْبَهُ فِي الصَّلاَةِ:
باب: اس بیان میں کہ نماز میں کپڑا نہ سمیٹنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 816
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةٍ لَا أَكُفُّ شَعَرًا وَلَا ثَوْبًا".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح نے، عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے طاؤس سے، انہوں نے ابن عباس سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے سات ہڈیوں پر اس طرح سجدہ کا حکم ہوا ہے کہ نہ بال سمیٹوں اور نہ کپڑے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 234  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «أمرت أن أسجد على سبعة أعظم: على الجبهة - وأشار بيده إلى أنفه - واليدين والركبتين وأطراف القدمين» . متفق عليه. . . .»
. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے سات ہڈیوں (اعضاء) پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اپنے دست مبارک سے اشارہ کر کے فرمایا پیشانی و ناک پر اور دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں اور دونوں قدموں پر۔ (بخاری و مسلم) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 234]

لغوی تشریح:
«أُمِرْتُ» صیغہ مجہول ہے۔ حکم صادر فرمانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
«أَعْظُمٍ» ظا پر ضمہ ہے، «عَظْمٌ» کی جمع ہے۔ اور ناک کی جانب اشارہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیشانی اصل ہے اور ناک اس کے تابع ہے۔ حدیث مذکور اس پر دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ بالا سات اعضاء پر اکٹھے سجدہ کرنا واجب ہے، اس لیے کہ امر وجوب کے لیے آتا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں مل کر ایک عضو ہے۔ اگر انہیں الگ الگ عضو شمار کیا جائے تو یہ آٹھ اعضاء بن جاتے ہیں، اس لیے ان دونوں کو ایک ہی عضو شمار کیا جانا چاہیے۔ امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہم اللہ تینوں امام اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردان رشید: امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ بھی اس کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص صرف پیشانی یا صرف ناک زمین پر رکھ کر سجدہ کرے تو یہ سجدہ ناتمام متصور ہو گا بلکہ اسے سجدہ ہی شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں الگ الگ عضو ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک عضو اگر زمین پر رکھا گیا تو سجدہ ہو جائے گا اور کسی قسم کا کوئی نقص نہیں رہے گا۔ لیکن ایک تو یہ اکثریت کے خلاف ہے کیونکہ تین امام اور دو مزید حنفی امام ایک طرف اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تنہا ایک طرف۔ پھر یہ مذکورہ بالا حدیث کے بھی خلاف ہے، اس لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کمزور ہے۔
➋ مصنف ابن ابی شیبہ میں سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ سے مرسلاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے نمازی کے پاس سے ہوا جس کی ناک زمین پر نہیں لگ رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی کی پیشانی اور ناک زمین پر نہ لگے اس کی تو نماز ہی نہیں ہوتی۔ [المصنف لابن ابي شيبه: 2356، رقم: 2695] یعنی ناک اور پیشانی دونوں کا حالت سجدہ میں زمین پر لگنا ضروری ہے۔ خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ سجدہ ساتوں اعضاء پر کیا جانا چاہیے ورنہ سجدہ صحیح نہیں ہو گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 234   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 889  
´اعضائے سجود کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حماد بن زید کی روایت میں ہے: تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ کہ آپ نہ بال سمیٹیں اور نہ کپڑا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 889]
889۔ اردو حاشیہ:
سجدے میں اپنے سر یا داڑھی کے بالوں کو مٹی سے بچاتے ہوئے سمیٹنا درست نہیں اور ایسے ہی کپڑوں کو بھی نہیں سمیٹنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 889   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1094  
´کتنے اعضاء پر سجدہ کرے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ سات اعضاء ۱؎ پر سجدہ کریں، اور اپنے بال اور کپڑے نہ سمیٹیں ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1094]
1094۔ اردو حاشیہ:
➊ سات اعضاء، یعنی دو ہاتھ، دو گھٹنے، دو پاؤں اور چہرہ، یعنی پیشانی (ناک سمیت) یہ سب اعضاء زمین پر لگنے چاہئیں۔ تھوڑی دیر کے لیے کوئی عضو کسی وجہ سے اٹھ جائے تو الگ بات ہے۔ مجموعی طور پر سجدہ ان سات اعضاء کے ساتھ ہونا چاہیے۔
➋ سجدے میں جاتے وقت بال یا کپڑوں کو مٹی سے بچانے کے لیے اکٹھا نہیں کرنے چاہئیں بلکہ انہیں زمین پر لگنے دیں۔ اس سے عاجزی پیدا ہو گی، تکبر کی نفی ہو گی، نیز وہ بھی سجدہ کرتے ہیں، اکٹھا کرنے سے ان کا سجدہ نہیں ہو گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1094   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1097  
´ناک پر سجدہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات اعضاء: پیشانی اور ناک، دونوں ہتھیلی، دونوں گھٹنے، اور دونوں پیر پر سجدہ کروں، اور بال اور کپڑے نہ سمیٹوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1097]
1097۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں ماتھا اور ناک ایک عضو شمار کیے گئے ہیں۔ گویا دونوں مل کر ایک عضو بنتے ہیں کیونکہ دونوں ایک عضو، یعنی چہرے کے اجزا ہیں، لہٰذا دونوں کو زمین پر لگنا چاہیے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک دونوں میں سے کسی ایک کا لگنا کافی ہے کیونکہ کوئی عضو بھی مکمل تو لگ نہیں سکتا، کچھ حصہ ہی لگتا ہے۔ جب یہ دونوں ایک عضو ہیں تو پھر ان دونوں میں سے کسی ایک کا کچھ حصہ لگنا کافی ہے مگر احادیث اس موقف کی تائید نہیں کرتیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ دونوں کو لگنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1097   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث883  
´نماز میں سجدے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 883]
اردو حاشہ:
سات ہڈیوں سے مراد جسم کےسات اعضاء ہیں جن کی وضاحت اگلی حدیث میں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 883   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 816  
816. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور دوران نماز میں اپنے بالوں کو نہ سمیٹوں اور نہ کپڑوں ہی کو اکٹھا کروں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:816]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ نماز پورے انہماک اور استغراق کے ساتھ پڑھی جائے۔
سر کے بال اگر اتنے بڑے ہیں کہ سجدہ کے وقت زمین پر پڑجائیں یا نماز پڑھتے وقت کپڑے گرد آلود ہو جائیں تو کپڑے اور بالوں کو گرد وغبار سے بچانے کے لیے سمیٹنا نہ چاہیے کہ یہ نماز میں خشوع اور استغراق کے خلاف ہے۔
اور نماز کی اصل روح خشوع حضوع ہی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ﴾ یعنی مومن وہ ہیں جو خشوع کے ساتھ دل لگا کر نماز پڑھتے ہیں۔
دوسری آیت ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾ کا بھی یہی تقاضا ہے یعنی نمازوں کی حفاظت کرو خاص طور پر درمیان والی نمازکی اور اللہ کے لیے فرمانبردار بندے بن کر کھڑے ہو جاؤ۔
یہاں بھی قنوت سے خشوع وخضوع ہی مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 816   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:816  
816. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور دوران نماز میں اپنے بالوں کو نہ سمیٹوں اور نہ کپڑوں ہی کو اکٹھا کروں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:816]
حدیث حاشیہ:
(1)
علامہ عینی ؒ نے داودی کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے نزدیک دوران نماز میں بالوں کو اکٹھا کرنا اور کپڑوں کو سمیٹنا، پھر اسی حالت میں نماز پڑھنا منع ہے۔
اگر کوئی نماز سے پہلے بالوں کو اکٹھا کرے اور کپڑوں کو سمیٹ لے اور پھر نماز پڑھے تو ممانعت نہیں جبکہ جمہور محدثین کا موقف ہے کہ اس حالت میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، خواہ یہ عمل نماز سے پہلے کرے یا دوران نماز میں سر انجام دے۔
(عمدة القاري: 557/4)
بعض شارحین نے امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے کف شعر کے عنوان کو مطلق رکھا ہے اور کف ثیاب کو نماز کے ساتھ مقید کیا ہے۔
اس سے انہوں نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ امام بخاری ؒ نے کپڑوں کے متعلق داودی کے موقف کو اختیار کیا ہے، حالانکہ امام بخاری ؒ کی باریک بینی اور دقت نظری کے پیش نظر یہ موقف درست نہیں یہ ان کا تفنن اور اسلوب بیان ہے۔
اس سے داودی کی موافقت کا اندازہ لگانا سخن سازی اور کور ذوقی ہے۔
(2)
واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کو پانچ مختلف طرق سے بیان کیا ہے اور ہر ایک طریق پر ایک نیا عنوان قائم کیا ہے۔
ایسے فقیہ اور مجتہد سے یہ بعید ہے کہ وہ ظاہر بین داودی کی موافقت کر کے حرفیت پسندی کا ثبوت دیں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 816