Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
140. بَابُ الْمُكْثِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ:
باب: دونوں سجدوں کے بیچ میں ٹھہرنا۔
حدیث نمبر: 819
قَالَ: فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: لَوْ رَجَعْتُمْ إِلَى أَهْلِيكُمْ صَلُّوا صَلَاةَ كَذَا، فِي حِينِ كَذَا صَلُّوا صَلَاةَ كَذَا، فِي حِينِ كَذَا فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ".
(پھر نماز سکھلانے کے بعد مالک بن حویرث نے بیان کیا کہ) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ٹھہرے رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (بہتر ہے) تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ دیکھو یہ نماز فلاں وقت اور یہ نماز فلاں وقت پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص تم میں سے اذان دے اور جو تم میں بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 819 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 819  
حدیث حاشیہ:
مراد جلسہ استراحت ہے جو پہلی اور تیسری رکعت کے خاتمہ پر سجدہ سے اٹھتے ہوئے تھوڑی دیر بیٹھ لینے کو کہتے ہیں۔
بعض نسخوں میں یہ عبارت ثم سجد ثم رفع رأسه ھنیة ایک ہی بار ہے چنانچہ نسخہ قسطلانی ؒ میں بھی یہ عبارت ایک ہی بار ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے اگر دوبارہ ہو پھر بھی مطلب یہی ہوگا کہ دوسرا سجدہ کرکے ذرا بیٹھ گئے جلسہ استراحت کیا پھر کھڑے ہوئے یہ جلسہ استراحت مستحب ہے اور حدیث ہٰذا سے ثابت ہے شارحین لکھتے ہیں:
بذلك أخذ الإمام الشافعي وطائفة من أھل الحدیث وذھبوا إلی سنیة جلسة الاستراحة۔
یعنی اس حدیث کی بنا پر امام شافعی اور جماعت اہل حدیث نے جلسہ استراحت کو سنت تسلیم کیا ہے۔
کچھ ائمہ اس کے قائل نہیں ہیں بعض صحابہ سے بھی اس کا ترک منقول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جلسہ فرض وواجب نہیں ہے مگر اس کے سنت اور مستحب ہونے سے انکار بھی صحیح نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 819   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:819  
حدیث حاشیہ:
دو سجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھنے کو قعدہ کہا جاتا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اسے ثابت کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور احادیث و آثار کو پیش کیا ہے، چنانچہ حدیث میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی صراحت موجود ہے۔
اس قعدہ کی کیفیت حضرت ابو حمید ساعدی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو اپنا بایاں پاؤں موڑتے، پھر اس پر بیٹھ جاتے اور سیدھے ہوتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے ٹھکانے پر آ جاتی پھر دوسرا سجدہ کرتے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 730)
رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ بیٹھتے وقت اپنا دایاں پاؤں کھڑا کر لیتے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 828)
اور کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ اپنے قدموں اور ہڈیوں پر بیٹھتے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1198(536)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 819   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 155  
´نماز کے لیے اذان کہنا`
«. . . وعن مالك بن الحويرث رضي الله عنه قال: قال لنا النبي صلى الله عليه وآله وسلم: إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم احدكم . . .»
. . . سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ارشاد فرمایا جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی آدمی تمہیں بلانے کے لیے اذان کہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 155]
راوئ حدیث:
(سیدنا مالک بن حویرث لیثی رضی اللہ عنہ) حویرث کی حا پر ضمہ، واؤ پر فتحہ، یا ساکن اور راء مکسور ہے۔ ان کی کنیت ابوسلمان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حصول تعلیم دین کے لیے آئے تھے اور بیس روز تک آپ کے پاس قیام کیا۔ جب واپس جانے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستے میں جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور جو تم میں سے عمر میں بڑا ہو وہ جماعت کرائے۔ اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ مسافروں کو بھی اذان اور جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کو برتری اور فضیلت حاصل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 155   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 259  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے تم نے پڑھتے دیکھا ہے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 259»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب الأذان للمسافرين إذا كانوا جماعة، حديث:631.»
تشریح:
اس حدیث کے مخاطب براہ راست تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں لیکن عمومی حکم میں امت مسلمہ کا ہر فرد اس کا مخاطب ہے۔
امیر یمانی نے کہا: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں آپ نے جو افعال جس طرح ادا فرمائے بعینہ اسی طرح ادا کرنا واجب ہیں‘ البتہ جس کا کسی دوسری دلیل سے غیر واجب ہونا ثابت ہو جائے تو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہوگا۔
(سبل السلام)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 259   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 628  
´سفر میں ایک ہی شخص اذان دے`
«. . . عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِي، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا رَأَى شَوْقَنَا إِلَى أَهَالِينَا، قَالَ:" ارْجِعُوا فَكُونُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَصَلُّوا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ . . .»
. . . مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم (بنی لیث) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا کہ اب تم جا سکتے ہو۔ وہاں جا کر اپنی قوم کو دین سکھاؤ اور (سفر میں) نماز پڑھتے رہنا۔ جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 628]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں وضاحت فرمائی کہ سفر میں ایک اذان کہنی چاہئے اور دلیل میں حدیث پیش فرمائی کہ جب تم گھر کی طرف لوٹو ان کو اسلام کے احکام سکھاؤ نماز پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے۔۔۔۔
تطبیق کی صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ سفر میں بھی اذان کہنی چاہئے کیوں کہ وہ لوگ ابھی بالفعل سفر میں تھے اور لازم ہوا اذان دینا بھی کیوں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه مطابقة للترجمة مع ان ظاهره يخالفها لقوله، فكونوا فيهم و علموهم فاذا سيدنا فظاهره ان ذالك بعد وضوء لهم الى اهلهم و تعليمهم، لكن المصنف اشار الى الرواية الاتية فى الباب الذى بعد هذا فان فيها اذا انتما خرجتما فاذنا» [فتح الباري ج2، ص141]
ظاہر میں ترجمۃ الباب اس قول کے مخالف نظر آتا ہے کہ گھر والوں کو دین سکھاؤ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو اذان کہو لیکن حقیقت میں (مخالفت نہیں ہے کیوں کہ) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری روایت کی طرف اشارہ فرمایا جو اس کے بعد والے باب میں مرقوم ہے کہ جب تم دونوں سفر کو نکلو تو اذان دیا کرو پھر اقامت کہا: کرو۔
لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ باب میں جو سفر کا ذکر فرمایا ہے مصنف کا اشارہ دوسری حدیث کی طرف ہے جس میں واضح طور پر یہ حکم ہے کہ سفر میں بھی آپ کو اذان دینی چاہئے۔

◈ ابن الملقن اور ابن المنیر رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ:
حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ان کے احوال کی وجہ سے کہ جب آپ اپنے گھر کو لوٹیں (تو اذان دیں نماز کے لئے) نہ کہ سفر میں۔۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کلام قاصر نہیں ہے اس پر بلکہ یہ عام ہے ان کے لئے کہ جب سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے (سفر میں) یعنی مؤذن کے اذان کا حکم اس وقت سے ہی ہو گیا جب صحابہ نے سفر کا قصد فرمایا۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ ديكهئے: [التوضيح، ج6، ص378، المتواري، ص94]

فائدہ نمبر 1:
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک کئی مؤذن رکھنے جائز ہیں لیکن مناسبت یہ ہے کہ سب ایک بار اذان نہ دیں بلکہ ایک بعد دوسرا اذان دے اور اگر مسجد بڑی ہو تو جائز ہے کہ ہر طرف میں ایک ایک مؤذن اذان دے خواہ ایک ہی وقت میں ہوں اسی طرح اگر شہر بڑا ہو اور اس کے کنارے دور دور ہوں تو ہر طرف ایک ایک مؤذن ایک وقت میں اگر اذان دے تو وہ بھی جائز ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب علم اور فضیلت میں سب برابر ہوں تو بڑی عمر والا امام بنے اور اذان میں بڑے چھوٹے کا کچھ لحاظ نہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امامت اذان سے افضل ہے۔ «والله اعلم بالصواب» [فيض الباري از علامه ابوالحسن سيالكوٹي ج3، ص736]

فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت دی تو آپ نے ان کے گھر والوں کو بھی نماز کی تعلیم دینے کا حکم دیا اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہوتا تو لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فرق کے بارے میں آگاہی فرما دیتے مگر حدیث میں نماز کا طریقہ عام ہے۔ لہٰذا مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الاراء کتاب تاریخ صغیر میں فرماتے ہیں! «كانت ام الدرداء تجلس فى صلاتها جلسة الرجل وكانت فقيهة .» [تاريخ الصغير ص96]
یعنی ام درداء جو فقیہ تھیں نماز میں مردوں کی طرح بیٹھا کرتی تھیں، ہماری معلومات کے مطابق عورتوں کی نماز کو تین جگہوں پر مردوں کی نماز سے مختلف کیا جاتا ہے۔
➊ رفع الیدین میں مرد کانوں تک اور عورت کاندھے تک ہاتھ اٹھائیں۔
➋ عورت سینے پر اور مرد ناف پر ہاتھ باندھے۔
➌ عورت سجدے میں پیٹ رانوں سے چمٹا لے جب کہ مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں۔
ان تینوں مسائل اور تخصیص کی احناف کے پاس کوئی صریح اور غیر مجروح روایت کے طور پر موجود نہیں ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احناف کہتے ہیں کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور عورتیں کندھوں تک عورت اور مرد کی نماز میں فرق کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص222]

◈ امام شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔ اسی طرح مقدار رفع میں بھی فرق کرنے کی کوئی صریح دلیل منقول نہیں ہے جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور خواتین کندھوں تک۔ حنفیہ کے پاس اس طرق کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ [نيل الاوطار شرح منتقي الاخبار ج2، ص198]
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالیشان پر بھی غور کیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«صلوا كما رايتموني اصلي» [صحيح البخاري: 631]
نماز اسی طرح سے پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو

مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کرنے والی روایت کا مختصر سا جائزہ:
«عن ابن عمر مرفوعاً اذا جلست المراة فى الصلاة . . . . . . . .» [بيهقي 2/223]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو دائیں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ (کرے) تو اہنا پیٹ اپنی رانوں سے ملائے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں اے (فرشتو) گواہ ہو جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔
↰ اس کی سند میں راوی محمد بن القاسم البلحی کا ذکر حالت معلوم نہیں ہے تفصیل کے لئے لسان المیزان لابن حجر رحمہ اللہ [ت 7997] اس روایت کا دوسرا راوی عبید بن محمد اسرفی ہے اس کے حالات نا معلوم ہیں۔
لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [السنن الكبري، 2/ 222]
➋ دوسری پیش کی جانے والی تصویر کا حال: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں خواتین کس طرح پڑھا کرتی تھی (نماز) تو انہوں نے فرمایا: پہلے چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں۔ [جامع المسانيد 1؍400]

جامع المسانید محمود الخوارزمی کی کتاب ہے اس کی سند میں کئی راویوں کے حالات نامعلوم ہیں۔ مثلاً:
➊ ابراھیم بن مہدی اس کو محدثین نے جھوٹا کہا ہے۔
➋ زر بن نجح البصری کے حالات نہیں ملے۔
➌ علی بن محمد البزار کے حالات نہیں مل سکے۔
➍ قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے۔
◈ امام دار قطنی فرماتے ہیں:
«و كان يكذب» [التقريب: 257، ديكهئے سوالات الحاكم للدار قطني: 252]
اور وہ جھوٹ بولتا تھا
لہٰذا یہ روایت مردود ہے استدلال کے قابل نہیں ان روایات کے علاوہ اور بھی روایات ہیں مگر کوئی بھی کلام سے خالی نہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 178   

  ابوسعيد سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 631  
´نماز کیسے پڑھی جائے`
«. . . وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نماز پڑھنا جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آ جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/بَابُ الأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَكَذَلِكَ بِعَرَفَةَ وَجَمْعٍ:: 631]
تشریح:
◈ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (691-751ھ) فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کی عبادت کا صرف وہی طریقہ ہے، جو اس نے اپنے رسولوں کی زبانی بیان کر دیا۔ عبادت بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کا حق وہی ہو سکتا ہے، جو اس نے خود مقرر کیا ہو، اس پر وہ راضی بھی ہو اور اس کا طریقہ بھی اس نے خود بیان کیا ہو۔ [اعلام الموقعين عن رب العالمين: 1/ 344]
↰ معلوم ہوا کہ عبادت کی قبولیت تب ہو گی، جب اسے سنت طریقے سے سرانجام دیا جائے۔ سنت کا علم صرف صحیح حدیث کے ذریعے ہوتا ہے۔ جہالت اور عناد کی بنا پر صحیح احادیث کو چھوڑ کر ضعیف روایات کے ذریعے عبادات کے طریقے مقرر کرنا جائز نہیں۔
↰ چونکہ نماز بھی ایک عبادت، بلکہ ایسا ستون ہے، جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے، لہٰذا اس کی ادائیگی میں بھی سنت طریقے کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 64   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 635  
´سفر میں دو شخص ہوں تو ان کے اذان کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچا زاد بھائی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (دوسری بار انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک ساتھی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم دونوں سفر کرو تو دونوں اذان کہو ۱؎ اور دونوں اقامت کہو، اور جو تم دونوں میں بڑا ہو وہ امامت کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 635]
635 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر مسافر ایسی جگہ ہے جہاں اذان نہیں ہوتی یا سنائی نہیں دیتی تو اسے اذان کہہ کر نماز پڑھنی چاہیے۔ ایک سے زائد ہوں تو نماز باجماعت کرائیں، البتہ اگر اذان ہوتی ہے یا سنائی دیتی ہے تو پھر اذان دینا کوئی ضروری نہیں۔ «أذانُ الحيِّ يكفينا»
➋ اذان تو کوئی شخص بھی کہہ سکتا ہے چھوٹا ہو یا بڑا، عالم ہو یا عامی، مگر جماعت کے لیے مناسب یہ ہے کہ افضل ہو، علم میں یا عمر میں یا مرتبے میں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کے لیے بڑے کی قید لگائی جب کہ اذان کے لیے صرف یہ فرمایا کہ اذان کہو، یعنی تم میں اذان و اقامت ہونی چاہیے، کوئی ایک کہہ دے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 635   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 636  
´حضر میں دوسرے کی اذان پر آدمی کے اکتفاء کرنے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے، ہم نے آپ کے پاس بیس روز قیام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحیم (بہت مہربان) اور نرم دل تھے، آپ نے سمجھا کہ ہم اپنے گھر والوں کے مشتاق ہوں گے، تو آپ نے ہم سے پوچھا: ہم اپنے گھروں میں کن کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ ہم نے آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا: تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ، (اور) ان کے پاس رہو، اور (جو کچھ سیکھا ہے اسے) ان لوگوں کو بھی سیکھاؤ، اور جب نماز کا وقت آ پہنچے تو انہیں حکم دو کہ تم میں سے کوئی ایک اذان کہے، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 636]
636 ۔ اردو حاشیہ:
➊ سابقہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: تم اذان کہو۔ اس سے غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ شاید سب اذان کہیں۔ یہ روایت وضاحت کرتی ہے کہ صرف ایک آدمی اذان کہے، دوسرے لوگ اسی کی اذان پر اکتفا کریں۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔
➋ احکام دین کا علم حاصل کرنا چاہیے اگرچہ اس کے لیے دور دراز کا سفر بھی کرنا پڑے۔
➌ دین سے ناواقف آدمی کو تعلیم دینا عالم پر فرض ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 636   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 670  
´ہر ایک کا اپنے لیے الگ الگ اقامت کہنے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میرے ایک ساتھی سے فرمایا: جب نماز کا وقت آ جائے تو تم دونوں اذان دو، پھر دونوں اقامت کہو، پھر تم دونوں میں سے کوئی ایک امامت کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 670]
670 ۔ اردو حاشیہ: ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ تم سب اذان کہو اور سب اقامت کہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی ایک شخص اذان اور اقامت کہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 635، 636) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف اسفار میں صرف ایک ہی اذان کہلوائی ہے، نیز سفر اور حضر کا فرق بھی معتبر نہیں، حکم ایک ہی ہے، لہٰذا اس حدیث سے امام نسائی رحمہ اللہ کا ہر آدمی کے لیے اقامت کی مشروعیت کا استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 670   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 782  
´امامت کے لیے عمردراز شخص کو آگے بڑھانے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچازاد بھائی (اور کبھی انہوں) نے کہا: میں اور میرے ایک ساتھی، دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم دونوں سفر کرو تو تم دونوں اذان اور اقامت کہو، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 782]
782 ۔ اردو حاشیہ: بڑی عمر والا امامت اس وقت کرائے گا جب سب علم میں برابر ہوں۔ یہ دونوں اکٹھے مسلمان ہوئے، اکٹھے آئے اور اکٹھے آپ کے پاس رہے، لہٰذا علم میں برابر تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 782   

    الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 6008  
´تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز کی ہئیت ایک جیسی ہے`
«. . . صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّيهُ . . .»
. . . اور بتاؤ اور تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/ بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالْبَهَائِمِ:/ ح: 6008]
------------------
مرد اور عورت کی نماز میں فرق
------------------
سوال: حنفی حضرات مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں فرق روا رکھتے ہیں۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی جو کیفیت وہئیت بیان فرمائی ہے اسے ادا کرنے میں مرد و زن برابر ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ اُصَلِّيْ» [بخاري، كتاب الأذان: باب رحمة الناس والبهائم 6008، أحمد 52/5، إرواء الغليل 213]
تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز کی ہئیت ایک جیسی ہے، سب کے لیے تکبیر تحریمہ، قیام، ہاتھوں کا باندھنا، دعائے استفتاح کا پڑھنا، سورۂ فاتحہ، آمین، اس کے بعد کوئی اور سورت، پھر رفع الیدین، رکوع، قیام ثانی، رفع الیدین، سجدہ، جلسہ استراحت، قعدہ اولیٰ، تشہد، تحریک اصابع، قعدہ اخیرہ، تورک، درود اور اس کے بعد دعا، سلام اور ہر مقام پر پڑھی جانے والی مخصوص دعائیں سب ایک جیسی ہی ہیں۔
عام طور پر حنفی علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک، مرد حالت قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں اور عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں، یہ فرق کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں۔
چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وَاعْلَمْ اَنَّ هٰذِهِ السُّنَّةَ تَشْتَرِكُ فِيْهَا الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَلَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي الْفَرْقِ بَيْنَهُمَا فِيْهَا وَكَذَالَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي الْفَرْقِ بَيْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ فِيْ مِقْدَارِ الرَّفْعِ رُوِيَ عَنِ الْحَنَفِيَّةِ اَنَّ الرَّجُلَ يَرْفَعُ اِلَي الْاُذُنَيْنِ وَالْمَرْأَةُ اِلَي الْمَنْكِبَيْنِ لِاَنَّهُ اَسْتَرُ لَهَاوَلَا دَلِيْلَ عَلٰي ذٰلِكَ كَمَاعَرَفْتَ» [نيل الأوطار 198/2]
اور جان لیجیے کہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جو ان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو اور نہ کوئی ایسی حدیث ہی وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقدار کے فرق پر دلالت کرتی ہو۔ احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس کے لیے زیادہ ساتر ہے، لیکن اس کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔
شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي التَّفْرِقَهِ فِي الرَّفْعِ بَيْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ» [فتح الباري 222/2، عون المعبود 263/1]
مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کے لئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں۔
➋ مردوں اور عورتوں کو حالت قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سینے پر باندھیں۔ خاص طور پر عورتوں کے لیے علیحدہ حکم دینا کہ صرف وہی سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں، اس کے متعلق حنفیوں کے پاس کوئی صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں۔
علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں:
«فاعلم ان مذهب الامام ابي حنيفة ان الرجل يضع اليدين فى الصلاة تحت السرة و المرأة تضعهما علي الصدر ولم يرو عنه ولا عن اصحابه شيء خلاف ذٰلك» [تحفة الأحوذي 213/1]
پس جان لو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینہ پر، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی اور قول مروی نہیں۔
محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وضعهما علي الصدر الذى ثبت فى السنة وخلافه اما ضعيف او لا اصل له» [صفة صلاة النبى ص/ 88]
اور سینے پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یاپھر بے اصل ہے۔
➌ حالت سجدہ میں مردوں کا اپنی رانوں کو پیٹ سے دور رکھنا اور عورتوں کا سمٹ کر سجدہ کرنا، یہ حنفی علماء کے نزدیک ایک مرسل حدیث کی بنیاد پر ہے، جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورتوں کا حکم اس بارے میں مردوں جیسا نہیں۔
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مُرْسَلٌ لَا حُجَّةَ فِيْهِ رَوَاهُ اَبُوْ دَاؤُدَ فِي الْمَرَاسِيْلِ» [صفة صلاة النبى ص/89]
یہ روایت مرسل ہے، جو قابل حجت نہیں۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اسے مراسیل میں یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے۔
لیکن یہ روایت منقطع ہے اور اس کی سند میں موجود ایک راوی سالم محدثین کے نزدیک متروک ہے۔
علامہ ابن الترکمانی حنفی نے اس روایت کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔ [الجوهر النقي على السنن الكبري للبيهقي 2/ 223]
اس کے متعلق حنفی علماء ایک اور روایت پیش کرتے ہیں، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے، اس طرح کہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردے کا موجب ہو۔ [بيهقي فى السنن الكبريٰ 222/2، 223]
اس روایت کے متعلق خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے صراحت کر دی ہے کہ اس جیسی ضعیف روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک اثر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے:
«اِنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ نِسَاءَهُ يَتَرَبَّعْنَ فِي الصَّلَاةِ» [مسائل أحمد لابنه عبدالله ص/71]
وہ اپنی عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ نماز میں چار زانوں بیٹھیں۔
لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن عمر العمری راوی ضعیف ہے۔ [تقريب التهذيب 182]
پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کر نے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر اس طریقے کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشاد مروی ہیں، چند ایک یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
«لَايَنْبَسِطْ اَحَدُكُمْ ذِرَعَيْهِ اِنْبِسَاطَ الْكَلْبِ» [بخاري، كتاب الأذان: باب لايفترش زراعيه فى السجود 822]
تم میں سے کوئی بھی حالتِ سجدہ میں اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔
«اِعْتَدِلُوْا فِي السُّجُودِ، وَلَا يَفْتَرِشُ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ» [أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب صفة السجود 897]
سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔
غرض نماز کے اندر ایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو جانوروں کی طرح کے ہوں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑی کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرح افتراش یا کتے کی طرح اقعاء یا کوے کی طرح ٹھونگے مارنا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دم کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع ہیں۔ [زاد المعاد1/ 116]
پس ثابت ہوا کہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے:
«إِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا» [بخاري، كتاب الأذان: باب سنة الجلوس فى التشهد 828]
جب آپ سجدہ کرتے تو اہنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ اپنے پہلوؤں سے ہی ملاتے تھے۔
قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وارد ہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیت نماز کا ‬ فرق مروی نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت سے جملہ امہات المؤمنین، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوتا تھا۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بسند صحیح ام درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے:
«انهاكانت تجلس فى صلاتها جلسة الرجل و كانت فقيهة» [التاريخ الصغير للبخاري 90]
وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے:
اس طرح نماز پڑھو، جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ [بخاري: 6008]
اس حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں۔
پانچویں یہ کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحاب کرام، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور صلحائے امت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعوٰی کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کیا ہے۔ بلکہ امام ابوحنیفہ کے استاد امام ابراہیم نخعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے: «تَفْعَلُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَفْعَلُ الرَّجُلُ» [ابن أبى شيبة 2/75/1]
نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے۔
جن علماء نے عورتوں کا نماز میں تکبیر کے لیے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا، قیام میں سینے پر ہاتھ باندھنا اور سجدے میں زمین کے ساتھ چپک جانا موجب ستر بیان کیا ہے وہ دراصل قیاس فاسد کی بنا پر ہے، کیونکہ جب اس کے متعلق قرآن و سنت خاموش ہیں تو کسی عالم کو یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کر کے ازخود دین میں اضافہ کرے؟ البتہ نماز کی کیفیت و ہئیت کے علاوہ چند چیزیں مرد و عورت کی نماز میں مختلف ہیں:
➊ عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سر پر اوڑھنی لیں اور اپنے پاؤں بھی ڈھانپیں۔ اس کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ حدیث نبوی ہے:
«لَا يَقْبَلُ اللهُ صَلَاةَ الْحَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ» [ابن ماجه، كتاب الطهارة: باب إذاحاضت الجارة لم تصل إلابخمار 655، أبوداؤد 641، أحمد 150/6]
اللہ تعالیٰ کسی بھی بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔
لیکن مردوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھیں جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے:
«مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ» [بخاري، كتاب اللباس: باب ما أسفل من الكعبين فهو فى النار 5787]
تہ بند کاجو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ آگ میں ہے۔
➋ عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو ان کے ساتھ پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو جائے، مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو۔
امام ابوبکر ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے مصنف میں اور امام حاکم رحمہ اللہ نے سیدنا عطا رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے:
«عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا اَنَّهَا كَانَتْ تَؤُمُّ النِّسَاءَ فَتَقُوْمُ مَعَهُنَّ فِي الصَّفِّ» [دارقطني 404/1]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔
اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں آتا ہے:
«انها امت النساء فقامت و سطهن» مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: [عون المعبود2/ 212]
انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔
➌ امام جب نماز میں بھول جائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں آتا ہے:
«التَّسْبِيْحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيْقُ لِلنِّسَاءِ» [بخاري، كتاب العمل فى الصلاة: بَابُ التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ 1203]
مردوں کے لیے سبحان اللہ اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے۔
➍ مرد کو نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں لیکن عورت کو حالت حیض میں فوت شدہ نماز کی قضا نہیں ہوتی جیسا کہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
➎ اسی طرح عورتوں کی سب سے آخری صف ان کی پہلی صف سے بہتر ہوتی ہے اور مردوں کی پہلی صف ان کی آخری صف سے بہتر ہوتی ہے۔ [مسلم، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف وإقامتها وفضل الأول فالأول 440]
یہ تمام مسائل اپنی جگہ درست ہیں مگر قرآن و سنت سے ثابت شدہ فرق کو غیر ثابت شدہ کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ تفریقات علمائے احناف کی خود ساختہ ہیں جن کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں۔
   احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 196   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث979  
´کون شخص امامت کا زیادہ حقدار ہے؟`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، جب ہم واپس ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جب نماز کا وقت ہو جائے تو اذان و اقامت کہو، اور تم میں جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 979]
اردو حاشہ:
فوائد مسائل:

(1)
سفر میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔

(2)
دو آدمی بھی جماعت سے فرض نماز ادا کرسکتے ہیں۔

(3)
اذان یا اقامت کوئی بھی آدمی کہہ سکتا ہے خواہ بڑی عمروالا ہویا کم عمر۔

(4)
امامت کا زیادہ مستحق قرآن زیادہ جاننے والا ہے۔
لیکن چونکہ یہ دونوں صحابی اکھٹے ہی آئے تھے۔
لہذا قرآن کے علم میں دونوں برابر تھے۔
اس لئے رسول اللہﷺ نے عمر کا لحاظ فرمایا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 979   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1535  
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ہم عمر نوجوان، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم آپ ﷺ کے پاس بیس دن ٹھہرے، رسول اللہ ﷺ بہت مہربان اور نرم دل تھے تو آپﷺ نے خیال کیا کہ ہم اپنے گھر والوں کو چاہنے لگے ہیں، یعنی ہم گھر جانا چاہتے ہیں تو آپﷺ نے ہم سے پوچھا، ہم کن گھر والوں کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ تو ہم نے آپﷺ کو بتا دیا، آپﷺ نے فرمایا: اپنے خاندان کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں میں ٹھہرو، انہیں تعلیم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1535]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ تقریباً ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حصول تعلیم کے لیے حاضر ہوئے تھے اور سب نے برابر تعلیم حاصل کی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ ترجیح عمر میں بزرگی کو قراردیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1535   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1538  
حضرت مالک بن حویرث ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرا دوست نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئےتو جب ہم نے آپ ﷺ کے ہاں سے واپس جانے کا ارادہ کیا، آپﷺ نے ہمیں فرمایا: جب نماز کا وقت ہوجائے تو اذان کا انتظام کرنا، پھر اقامت کہنا اور جو تم میں سے بڑا ہے وہ امامت کرائے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1538]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سفر میں بھی اذان اور جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے موذن کے لیے بہتر اور افضل ہونا شرط نہیں ہے امامت کا حقدار افضل اور بہتر ہی ہے آتے وقت سب ساتھی اکٹھے آتے جاتے وقت سب سے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو الوداع کہنے والے یہ دونوں ساتھی تھے اس لیے آپﷺ نے ان کو خصوصی ہدایات دیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1538   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 628  
628. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں اپنی قوم کے چند آدمیوں کے ہمراہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے آپ کے ہاں بیس راتیں قیام کیا۔ آپ انتہائی مہربان اور نرم دل تھے۔ جب آپ نے محسوس فرمایا کہ ہمارا اشتیاق اہل خانہ کی طرف ہے تو فرمایا: اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھا کرو۔ اذان کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دے، پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:628]
حدیث حاشیہ:
آداب سفرمیں سے ہے کہ امیر سفر کے ساتھ ساتھ امام ومؤذن کا بھی تقرر کر لیا جائے۔
تاکہ سفرمیں نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاسکے۔
حدیث نبوی کا یہی منشا ہے اور یہی مقصد باب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 628   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 630  
630. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: دو آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم سفر پر روانہ ہو جاؤ تو دوران سفر میں آذان دو اور تکبیر کہو، پھر تم میں سے جو عمر میں بڑا ہو، وہ امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:630]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ کہ سفرمیں نماز باجماعت سے غافل نہ ہونا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 630   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 631  
631. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم چند ایک ہم عمر نوجوان ساتھی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا۔ آپ انتہائی نرم دل اور بڑے مہربان تھے۔ جب آپ نے خیال کیا کہ ہمیں اپنے گھر والوں کا شوق بےچین کر رہا ہے تو آپ نے ہم سے ان کی احوال پرسی فرمائی جنہیں ہم اپنے پیچھے چھوڑے آئے تھے۔ ہم نے آپ کو ان کے حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: واپس اپنے اہل خانہ کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں کے پاس رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور انہیں اچھی باتوں کی تلقین کرو۔ آپ ﷺ نے مزید باتیں بیان فرمائیں جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان کہہ دے، البتہ تم میں سے عمر کے اعتبار سے بڑا جماعت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:631]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ حالت سفرمیں اگرچند مسلمان یکجا ہوں توان کو نماز اذان اور جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہئیے۔
ان نوجوانوں کو آپ نے بہت سی نصائح کے ساتھ آخرمیں یہ تاکید فرمائی کہ جیسے تم نے مجھ کونماز پڑھتے دیکھا ہے۔
عین اسی طرح میری سنت کے مطابق نماز پڑھنا۔
معلوم ہوا کہ نماز کا ہر ہر رکن فرض واجب مستحب سب رسول ﷺ کے بتلائے ہوئے طریقہ پرادا ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ نماز صحیح نہ ہوگی۔
اس معیار پر دیکھا جائے توآج کتنے نمازی ملیں گے جوبحالت قیام ورکوع وسجدہ و قومہ سنت رسول کوملحوظ رکھتے ہیں۔
سچ ہے:
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 631   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 658  
658. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور تکبیر کہے پھر تم میں سے بڑی عمر والا امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:658]
حدیث حاشیہ:
اس سے پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ دوشخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔
انھیں دواصحاب کو آپ نے یہ ہدایت فرمائی تھی۔
اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ اگرصرف دو آدمی ہوں تو بھی نماز کے لیے جماعت کرنی چاہئیے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
المُرَاد بقوله أذنا أَي من أحب مِنْكُمَا أَن يُؤذن فليؤذن وَذَلِكَ لِاسْتِوَائِهِمَا فِي الْفضل وَلَا يعْتَبر فِي الْأَذَان السن بِخِلَاف الْإِمَامَة۔
(فتح الباری)
حافظ ابن حجر لفظ آذنا کی تفسیر کرتے ہیں کہ تم میں سے جو چاہے اذان دے یہ اس لیے کہ وہ دونوں فضیلت میں برابر تھے اور اذان میں عمر کا اعتبار نہیں۔
بخلاف امامت کے کہ اس میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 658   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 685  
685. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم چند ایک نوجوان تھے۔ ہم تقریبا بیس راتیں رسول اللہ ﷺ کے ہاں مقیم رہے۔ آپ انتہائی مہربان اور رحم دل تھے۔ آپ نے (ہماری غریب الوطنی کو محسوس کیا اور) فرمایا: جب تم اپنے وطن کو لوٹ کر جاؤ تو انہیں دین کی تعلیم سے آراستہ کرنا۔ انہیں تلقین کرنا کہ فلاں فلاں نماز، فلاں فلاں وقت میں ادا کریں۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:685]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
حدیث میں اکبرہم سے عمر میں بڑا مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 685   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2848  
2848. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب میں نبی ﷺ کے پاس سے واپس (اپنے گھر) آنے لگا تو آپ ﷺ نے مجھے اور میرے ایک ساتھی سے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی بوقت ضرورت اذان دے سکتا ہے اور اقامت کہہ سکتا ہے لیکن امامت وہی کرائے جو تم میں بڑا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2848]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الصلوٰۃ میں گزر چکی ہے یہاں حضرت امام بخاری ؒ اس کو اس لئے لائے کہ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اکیلا سفر کرنے والا شیطان ہے اور دو شخص سفر کرنے والے دو شیطان ہیں اور تین شخص جماعت۔
اس حدیث کی رو سے بعضوں نے دو شخصوں کا سفر مکروہ رکھا ہے‘ امام بخاریؒ نے اسی حدیث سے اس کا جواز نکالا معلوم ہوا کہ ضرورت سے دو آدمی بھی سفر کرسکتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2848   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6008  
6008. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ہم نوجوان اور ہم عمر تھے ہم نے آپ کے ہاں بیس دن تک قیام کیا۔ پھر آپ کو خیال آیا کہ ہمیں اپنے اہل خانہ یاد آرہے ہیں تو آپ نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے اہل وعیال میں چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ کو پورا حال سنا دیا۔ آپ انہتائی نرم دل اور بڑے مہربان تھی آپ نے فرمایا: اب تم اپنے گھروں کو واپس چلے جاو اور انہیں دن کی تعلیم دو پھر اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرو نیز نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی اذان کہے پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6008]
حدیث حاشیہ:
بڑا بشرطیکہ علم وعمل میں بھی بڑا ہو ورنہ کوئی چھوٹا اگر سب سے بڑا عالم ہے تو وہی امامت کا حق دار ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6008   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7246  
7246. سیدنا مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان ہم عمر تھے۔ ہم آپ کی خدمت میں بیس دن ٹھہرے رہے۔ رسول اللہ ﷺ بڑے رحم دل تھے۔ جب آپ نے سمجھا کہ ہمارا گھر جانے کا شوق ہے تو آپ نے ہم سے پوچھا کہ ہم اپنے پیچھے کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں تو ہم نے آپ کو بتایا۔ آپ نےفر مایا: اب تم اپنے گھروں کو چلے جاؤ اور ان کے ساتھ رہو۔ انہیں اسلام سکھاؤ اور دین کی باتیں بتاؤ۔ آپ نے بہت سی باتیں بتائیں جن میں سے مجھے کچھ یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ نے فرمایا: اور جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھو، جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7246]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آپ نے فرمایا تم میں سے ایک شخص اذان دے تو معلوم ہوا کہ ایک شخص کے اذان دینے پر لوگوں کو عمل کرنا اور نماز پڑھ لینا درست ہے۔
آخر یہ بھی تو خبر واحد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7246   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:628  
628. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں اپنی قوم کے چند آدمیوں کے ہمراہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے آپ کے ہاں بیس راتیں قیام کیا۔ آپ انتہائی مہربان اور نرم دل تھے۔ جب آپ نے محسوس فرمایا کہ ہمارا اشتیاق اہل خانہ کی طرف ہے تو فرمایا: اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھا کرو۔ اذان کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی اذان دے، پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:628]
حدیث حاشیہ:
مصنف عبدالرزاق میں سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں صبح کی دو اذانیں کہا کرتے تھے۔
گویا ان کے نزدیک سفروحضر کی کوئی تفریق نہ تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر میں اذان میں تکرار نہیں ہونی چاہیے، لیکن حدیث کے ظاہری سیاق میں سفر وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں۔
امام بخاری ؒ نے گویا ایک دوسری روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں سفر کی وضاحت ہے۔
اس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے، سفر کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔
آپ نے ان سے فرمایا:
جب تم سفر پر روانہ ہوجاؤ تو دوران سفر میں اذان دو، پھر تکبیر کہو، اس کے بعد تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کے فرائض سر انجام دے۔
(صحیح البخاری، الاذان، حدیث: 630)
لیکن اس دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر میں دونوں حضرات کو اذان کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ان الفاظ کی وضاحت فرمائی ہے کہ تم دونوں میں سے جو اذان دینا چاہے وہ اذان دے۔
(فتح الباري: 145/2-
146)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 628   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:630  
630. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: دو آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم سفر پر روانہ ہو جاؤ تو دوران سفر میں آذان دو اور تکبیر کہو، پھر تم میں سے جو عمر میں بڑا ہو، وہ امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:630]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں واضح طور پر حکم ہے کہ دوران سفر میں اذان دی جائے، تکبیر بھی کہی جائے اور پھر باجماعت نماز ادا کی جائے۔
اس میں امیر کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں، لیکن اس حدیث کے ظاہری سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اذان دیں اور دونوں تکبیر کہیں۔
بعض اسلاف نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ دوران سفر میں دونوں کو بیک وقت اذان دینی چاہیے، لیکن ان کا موقوف مرجوح ہے۔
ان الفاظ کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی اذان دے اور دوسرا تکبیر کہہ دے۔
جیسا کہ حدیث: 631 سے معلوم ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ طبرانی کی روایت میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ جب تو اپنے ساتھی کے ہمراہ سفر کرے تو تجھے اذان دینی ہے اور تکبیر بھی کہنی ہے، پھر جو تم میں عمر کے اعتبار سے بڑا ہے وہ جماعت کرائے۔
(فتح الباري: 147/2)
اس حدیث میں کچھ ابہام اور اجمال ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے وضاحت اور تفصیل کے لیے درج ذیل ایک دوسری روایت کو بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 630   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:631  
631. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم چند ایک ہم عمر نوجوان ساتھی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا۔ آپ انتہائی نرم دل اور بڑے مہربان تھے۔ جب آپ نے خیال کیا کہ ہمیں اپنے گھر والوں کا شوق بےچین کر رہا ہے تو آپ نے ہم سے ان کی احوال پرسی فرمائی جنہیں ہم اپنے پیچھے چھوڑے آئے تھے۔ ہم نے آپ کو ان کے حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: واپس اپنے اہل خانہ کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں کے پاس رہو۔ انہیں دین کی تعلیم دو اور انہیں اچھی باتوں کی تلقین کرو۔ آپ ﷺ نے مزید باتیں بیان فرمائیں جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان کہہ دے، البتہ تم میں سے عمر کے اعتبار سے بڑا جماعت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:631]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث سابق میں ابہام تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو آدمی آئے۔
اس حدیث میں ان کی تعیین ہے کہ وہ حضرت مالک بن حویرث ؓ اور ان کے ساتھی تھے بلکہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
حضرت مالک بن حویرث ؓ خود فرماتےہیں کہ خود میں اور میرا ایک ساتھی رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس ہوئے۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 2848)
البتہ حدیث کی کسی روایت میں اس ساتھی کا نام ذکر نہیں ہوا۔
(فتح الباري: 147/2)
نیز پہلی حدیث میں کچھ اجمال تھا کہ تم دونوں اذان کہو۔
اس روایت میں تفصیل ہے کہ تم میں سے کوئی ایک اذان دے اور دوسرا تکبیر کہے، یعنی بیک وقت دونوں نے اذان نہیں دینی بلکہ کوئی ایک اذان کہے۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ دوران سفر میں اذان دی جائے اور تکبیر بھی کہی جائے، پھر جماعت کرائی جائے، خواہ سفر میں امیر ہو یا نہ ہو۔
(2)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت مالک بن حویرث اور ان کے رفقاء کو نماز کے متعلق ایک خاص ہدایت فرمائی ہے کہ جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھا کرو۔
نماز کے متعلق مذکورہ امر نبوی وجوب کےلیے ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے۔
اس امر نبوی میں وہ تمام اعمال آجاتے ہیں جو تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک بجالائے جاتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی ہرہر ادا کو بجالانا ضروری ہے، البتہ اس کے استحباب یا جواز کی کوئی دلیل مل جائے تو وجوب کے بجائے استحباب اور جواز پر محمول کیا جاسکتا ہے۔
لیکن دلیل کے بغیر اعمال نماز کے متعلق استحباب و جواز کی تقسیم درست نہیں۔
عام طور پر رفع الیدین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے کرنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم منقول نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک رفع الیدین کرنے کا حکم اس امر نبوی کے تحت ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔
اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
إن شاء الله.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 631   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:658  
658. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور تکبیر کہے پھر تم میں سے بڑی عمر والا امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:658]
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ عنوان حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ایک حدیث ہے جسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 972)
امام بخاری ؒ کا یہ اصول ہے کہ اگر کوئی حدیث باعتبار لفظ ان کی شرط کے مطابق نہ ہو لیکن باعتبار معنی وہ صحیح ہو تو دیگر روایات سے اس کی تائید کرتے ہیں۔
آپ نے اسی اصول کے پیش نظر سنن ابن ماجہ کی حدیث کو عنوان قرار دیا ہے اور اپنی پیش کردہ روایت سے اس کے مضمون کو ثابت کیا ہے کہ جماعت کا اطلاق اگرچہ کم از کم تین پر ہوتا ہے مگر نماز میں دو پر بھی جماعت کا اطلاق ہوسکتا ہے، یعنی اگر دو آدمی باجماعت نماز ادا کریں تو بھی انھیں پوری جماعت کا ثواب ملے گا۔
(2)
امام بخاری کےاستدلال پر اعتراض کیا گیا ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ کے ہمراہ تو ان کے دیگر ساتھی بھی تھے۔
روایت میں صرف دو کا ذکر تصرف رواۃ معلوم ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ دو مختلف واقعات ہیں:
ایک دفعہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ آئے تھے اور دوسری دفعہ وہ اپنے ساتھی کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جماعت کم از کم امام اور ماموم(مقتدی)
پر مشتمل ہوتی ہے، خواہ ماموم آدمی یا بچہ یا عورت ہو۔
(فتح الباري: 185/2) (3)
علم کے اعتبار سے وہ دونوں برابر تھے، اس لیے اذان اور تکبیر کے متعلق بلا تفریق کسی ایک کو یہ فریضہ سرانجام دینے کا حکم دیا لیکن امامت میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے کیونکہ اگر نمازی علم وفضل میں برابر ہوں تو جماعت کے لیے بڑی عمر والے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 658   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:685  
685. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم چند ایک نوجوان تھے۔ ہم تقریبا بیس راتیں رسول اللہ ﷺ کے ہاں مقیم رہے۔ آپ انتہائی مہربان اور رحم دل تھے۔ آپ نے (ہماری غریب الوطنی کو محسوس کیا اور) فرمایا: جب تم اپنے وطن کو لوٹ کر جاؤ تو انہیں دین کی تعلیم سے آراستہ کرنا۔ انہیں تلقین کرنا کہ فلاں فلاں نماز، فلاں فلاں وقت میں ادا کریں۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:685]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے مذکورہ بالا عنوان قائم کر کے حدیث کی تشریح کی ہے، یعنی حدیث میں جو بڑی عمر والے کو امامت کے لیے آگے بڑھانے کی بات ہے وہ اس وقت ہے کہ جب لوگ قراءت قرآن اور علم وفضل میں مساوی ہوں، بصورت دیگر بڑی عمر والے کی تقدیم نہ ہوگی، چنانچہ حدیث بالا میں جن اصحاب کا ذکر ہے وہ جہاں علم وفضل میں برابر تھے وہاں قراءت میں بھی یکساں مقام رکھتے تھے۔
جیسا کہ حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ ہم سب ان دنوں علمی لحاظ سے یکساں درجہ رکھتے تھے۔
بعض روایات میں ہے کہ راوئ حدیث خالد نے حضرت ابو قلابہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بڑی عمر والے کو امام بنانے کی تلقین کی ہے اندریں حالات قراءت کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟ حضرت ابو قلابہ نے فرمایا:
قراءت میں وہ سب برابر تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں تعلیم دی کہ بڑی عمر والا امامت کے فرائض سرانجام دے۔
(فتح الباري: 221/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 685   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2848  
2848. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب میں نبی ﷺ کے پاس سے واپس (اپنے گھر) آنے لگا تو آپ ﷺ نے مجھے اور میرے ایک ساتھی سے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی بوقت ضرورت اذان دے سکتا ہے اور اقامت کہہ سکتا ہے لیکن امامت وہی کرائے جو تم میں بڑا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2848]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے امام بخاری ؒنے دوآدمیوں کے سفرکرنے کو جائز ثابت کیا ہے۔
جس حدیث میں اس کی ممانعت ہے وہ محض ارشاد پرمحمول ہے۔
دوآدمیوں کا سفرکرنا حرام نہیں بلکہ بوقت ضرورت ایسا کیا جاسکتاہے۔
جس حدیث میں اکیلے سفرکرنے کی ممانعت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اکیلا سفر کرنے والا نافرمان ہے۔
اس پر شیطان حملہ آورہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ عنوان میں اثنین سے مراد دوشخص ہیں۔
سوموار کا دن مراد نہیں جیساکہ بعض شارحین سے ایسا منقول ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2848   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6008  
6008. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ہم نوجوان اور ہم عمر تھے ہم نے آپ کے ہاں بیس دن تک قیام کیا۔ پھر آپ کو خیال آیا کہ ہمیں اپنے اہل خانہ یاد آرہے ہیں تو آپ نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے اہل وعیال میں چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ کو پورا حال سنا دیا۔ آپ انہتائی نرم دل اور بڑے مہربان تھی آپ نے فرمایا: اب تم اپنے گھروں کو واپس چلے جاو اور انہیں دن کی تعلیم دو پھر اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرو نیز نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی اذان کہے پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6008]
حدیث حاشیہ:
(1)
چونکہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اکٹھے رہے تھے، اس لیے علم کے اعتبار سے سب سے برابر تھے،ایسے حالات میں نماز کی جماعت کے لیے عمر کے اعتبار سے بڑے کا انتخاب کیا جائے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت بیان ہوئی ہے کہ آپ بہت نرم دل اور مہربان تھے،آپ کو حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں پر ترس آیااور انھیں اپنے گھر چلے جانے کی ازخود ہدایت فرمائی۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
\"تم مومن نہیں بن سکتے حتی کہ ایک دوسرے پر رحم کرو۔
\"صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:
اللہ کے رسول! ہم تو سب ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
\"تمھارا ایک دوسرے پر رحم کرنا مقصود نہیں بلکہ تمہاری شفقت ومہربانی کا فیضان تمام لوگوں کے لیے ہونا چاہیے۔
\"(مجمع الزوائد: 8/340، حدیث: 13671، وفتح الباری: 10/539) w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6008   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7246  
7246. سیدنا مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان ہم عمر تھے۔ ہم آپ کی خدمت میں بیس دن ٹھہرے رہے۔ رسول اللہ ﷺ بڑے رحم دل تھے۔ جب آپ نے سمجھا کہ ہمارا گھر جانے کا شوق ہے تو آپ نے ہم سے پوچھا کہ ہم اپنے پیچھے کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں تو ہم نے آپ کو بتایا۔ آپ نےفر مایا: اب تم اپنے گھروں کو چلے جاؤ اور ان کے ساتھ رہو۔ انہیں اسلام سکھاؤ اور دین کی باتیں بتاؤ۔ آپ نے بہت سی باتیں بتائیں جن میں سے مجھے کچھ یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں، نیز آپ نے فرمایا: اور جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھو، جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7246]
حدیث حاشیہ:

حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی وفد کی صورت میں غزوہ تبوک سے پہلے حاضر خدمت ہوئے اورغزوہ تبوک رجب نو (9)
ہجری میں ہوا تھا۔
یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تقریباً بیس دن رہے۔
ان کی واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دیں۔
چونکہ یہ حضرات قرآءت میں برابر تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے جماعت وہ کرائے جو عمر میں بڑا ہو۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث 631)
البتہ اذان دینے کے متعلق کوئی پابندی نہیں اسے کوئی پابندی نہیں اسے کوئی بھی دے سکتا ہے۔

ایک آدمی کی اذان پر نماز پڑھنا درست ہے۔
یہ خبر واحد کے قابل حجت ہونے کی دلیل ہے کیونکہ ایک آدمی کی اذان پر نماز پڑھنا اور روزہ افطار کرنا اگر صحیح ہے تو اس کی بیان کردہ روایت کیوں قابل قبول نہیں؟
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7246   

  الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 628  
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم (بنی لیث) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا... [صحيح بخاري ح: 628]
فوائد:
➊ بعض لوگوں نے یہ بدعت ایجاد کر لی تھی کہ ایک سے زیادہ مؤذن کورس کی شکل میں اذان کہتے تھے، یعنی ہر کلمہ دو یا زیادہ مؤزن اکٹھے کہتے، تاکہ آواز زیادہ اونچی ہو اور دور تک جائے۔ بعض نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوا تھا کہ مسجد کے چاروں کونوں کے میناروں پر ایک ایک مؤذن کھڑا ہوتا، پہلے اذان کا ایک کلمہ ایک مؤذن کہتا، پھر وہی کلمہ دوسرا پھر تیسرا پھر چوتھا کہتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ طریقے بدعت ہیں، ایک جگہ صرف ایک ہی مؤذن کو اذان کہنی چاہیے۔ واضح رہے کہ یہ طریقے اس وقت اختیار کیے گئے تھے جب لاؤڈ سپیکر ایجاد نہیں ہوا تھا، اب لاؤڈ سپیکر کی ایجاد نے مسئلہ ہی حل کر دیا ہے، زیادہ مؤذنوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
➋ باب میں سفر کا ذکر ہے جب کہ یہاں حدیث میں سفر کا ذکر نہیں، در اصل امام صاحب اشارہ کر رہے ہیں کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہی کی ایک روایت میں سفر کا ذکر بھی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ دونوں سفر کا ارادہ رکھتے تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: «إِذَا أَنْتُمَا خَرَجْتُمَا، فَأَذْنَا، ثُمَّ أَقِيْمَاء ثُمَّ لِيَؤْمَكُمَا أَكْبَرُكُمَا» [بخاري: 630] جب تم دونوں نکلو تو اذان کہو، پھر اقامت کہو، پھر جو تم میں سے بڑا ہے وہ امامت کرائے۔ الغرض تمام حدیثوں کو جمع کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ سفر ہو یا حضر ایک جگہ ایک ہی مؤذن کو اذان کہنی چاہیے۔
➌ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی قوم بنولیث بن بکر بن عبد مناف بن کنانہ تھی۔ [ابن سعد 305/1] نے متعدد سندوں کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ بنولیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب آپ تبوک کی تیاری کر رہے تھے۔ [فتح الباري]
یہ سنہ 9 ہجری کی بات ہے جسے عام الوفود کہا جاتا ہے، کیونکہ سنہ 8 ہجری میں مکہ فتح ہونے کے بعد ہر جانب سے وفود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سارا عرب حلقہ بگوشِ اسلام بن گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سلطنت اور غلبے کے ہوتے ہوئے اسلام جس قدر پھیلتا ہے ضعف کی حالت میں اس قدر نہیں پھیلتا۔ ضعف کی حالت میں لوگوں کے پاس جایا جاتا ہے جب کہ غلبے کی صورت میں لوگ خود آتے ہیں، جیسا کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آئے۔
➍ استاذ سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لیے ایک دو راتیں کافی نہیں ہوتیں، اسی لیے مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آپ کے پاس بیسں راتیں ٹھہرے۔ ٹھیک ہے ایک دو راتیں بھی فائدے سے خالی نہیں، مگر حصولِ علم کے لیے طولِ زمان اپنی جگہ ضروری ہے۔
➎ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ رحمت و رفق کا ذکر ہے، ایمان والوں کے ساتھ آپ کا یہی معاملہ تھا، فرمایا: «بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ» [التوبة: 128] مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ البتہ کفار کے ساتھ یہ معاملہ نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ» [الفتح: 29] محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔ اور فرمایا: «فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةٌ أَذِلَةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ» [المائدة: 54] تو الله عنقریب ایسے لوگ لائے گا کہ وہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت۔ اس لیے ہمیں بھی مسلم و کافر کے ساتھ معاملے میں اس فرق کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔
➏ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی کی زبانِ حال سے کوئی بات سمجھ میں آ رہی ہو تو اسی کو کافی سمجھنا چاہیے، زبانِ قال کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ آپ نے ان نوجوانوں کا شوق دیکھ کر ہی انھیں واپسی کی اجازت دے دی، ان کی زبان سے درخواست کا انتظار نہیں کیا۔
➐ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی کو بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں رہنا چاہیے، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کو حکم دیا کہ وہ اپنی ضرورت پوری ہونے پر جلدی گھر واپس آ جاۓ۔ [ديكهے بخاري: 3001]
➑ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بھائیوں کو فرمایا تھا: «وَصَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي» [بخاري: 631] اور اس طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زبان کے ساتھ ہر بات تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی بجائے فعل کا حوالہ دے دینا بھی کافی ہوتا ہے۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اکثر اوقات وضو کی تفصیلات زبان بیان کرنے کی بجائے اس طرح وضو کر کے بتا دیتے جس طرح انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھ کر بتا دیتے۔ حدیث سے جان چھڑانے والوں کا عجیب حال ہے کہ اگر انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول سنایا جائے تو کہتے ہیں آپ کا عمل پیش کرو اور اگر آپ کا عمل بتایا جائے تو کہتے ہیں آپ کا حکم پیش کرو، حالانکہ اطاعت بھی ضروری ہے اور اتباع بھی۔ اطاعت حکم کی ہوتی ہے اور اتباع عمل کا، فرمایا: «فَاتَّبِعُونِي» [آل عمران: 31] تو میری پیروی کرو۔ اور فرمایا: «وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ» [المائدة: 92] اور اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو۔
➒ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصحاب کو حکم دیا کہ وہ گھر والوں کے ساتھ رہیں اور انھیں تعلیم دیں۔ دین کی تعلیم سبھی لوگوں کو دینی چاہیے، پھر گھر والوں کا تو زیادہ حق ہے کہ انھیں دین کی تعلیم دی جائے۔
«فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ» سے معلوم ہوا کہ اذان نماز کا وقت ہونے کے بعد کہنی چاہیے، اس سے پہلے نہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اذان کہنا فرض ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر و حضر میں اذان کہنے کا حکم دیا ہے اور یہ فرضِ کفایہ ہے، ایک آدمی کہہ دے تو سب کا فرض ادا ہو گیا، اگر کوئی بھی نہ کہے تو سب گناہ گار ہوں گے۔ اسی طرح جماعت بھی فرض ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے کو امامت کا حکم دیا اور ظاہر ہے کہ امامت جماعت ہی کی ہوتی ہے۔
⓫ اذان کہنے کے لیے علمی قابلیت یا عمر کی کوئی خاص حد مقرر نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک اذان کہہ دے۔ اس لیے بڑی عمر والوں کی موجودگی میں کم عمر اور زیادہ علم والوں کی موجودگی میں کم علم بھی اذان کہہ سکتا ہے۔ ہاں! امامت کے لیے قرآن و سنت کے علم میں برتری ضروری ہے۔ اگر علم میں سب برابر ہوں تو بڑی عمر والا جماعت کروائے گا۔ یہ دونوں بھائی چونکہ بیسں راتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے تھے اس لیے علم میں اور صحابی ہونے میں دونوں برابر تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے بڑے کو امامت کا حکم دیا۔
   فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 628   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، ردحدیث اشکال، صحیح بخاری 630  
«حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا سفيان، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن مالك بن الحويرث، قال: اتى رجلان النبي صلى الله عليه وسلم يريدان السفر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا انتما خرجتما فاذنا، ثم اقيما، ثم ليؤمكما اكبركما".»
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے خالد حذاء سے، انہوں نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انہوں نے مالک بن حویرث سے، انہوں نے کہا کہ دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے یہ کسی سفر میں جانے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ دیکھو جب تم سفر میں نکلو تو (نماز کے وقت راستے میں) اذان دینا پھر اقامت کہنا، پھر جو شخص تم میں عمر میں بڑا ہو نماز پڑھائے۔ [صحيح بخاري 630]
سفیان ثوری رحمہ اللہ صحیح بخاری کی یہ حدیث «عن» سے روایت کر رہے ہیں۔
بعض لوگ عن والی روایت پر اعتراض کرتے ہیں کہتے ہیں، سماع کی تصریح یا متابعت ثابت کریں۔
(9) صیح بخاری باب الاذان للمسافر ج1 ص88 (ح 630) اس روایت میں یزید بن زریع نے سفیان کی متابعت کر رکھی ہے۔ صحیح بخاری کتاب الاذان باب اثنان فما فوقہما جماعۃ (ح658)
«حدثنا مسدد، قال: حدثنا يزيد بن زريع، قال: حدثنا خالد، عن ابي قلابة، عن مالك بن الحويرث، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا حضرت الصلاة فاذنا واقيما، ثم ليؤمكما اكبركما".»
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انہوں نے مالک بن حویرث سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کا وقت آ جائے تو تم دونوں اذان دو اور اقامت کہو، پھر جو تم میں بڑا ہے وہ امام بنے۔
حوالہ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) جلد 2، ص 315
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 315