صحيح مسلم
كِتَاب الْحَيْضِ -- حیض کے احکام و مسائل
26. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ تَيَقَّنَ الطَّهَارَةَ ثُمَّ شَكَّ فِي الْحَدَثِ فَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ بِطَهَارَتِهِ تِلْكَ:
باب: جس آدمی کو وضو کا یقین ہو پھر وضو ٹوٹنے کا شک ہو جائے تو وہ اس وضو سے نماز پڑھ سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 804
وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ عَمْرٌو، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، وَعَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، " شُكِيَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الرَّجُلُ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ، أَنَّهُ يَجِدُ الشَّيْءَ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: لَا يَنْصَرِفُ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا، أَوْ يَجِدَ رِيحًا "، قَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ فِي رِوَايَتِهِمَا، هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ.
عمرو ناقد، زہیر بن حرب اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے سعید (بن مسیب) اور عباد بن تمیم سے اور انہوں نے ان (عباد) کے چچا سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی کے حوالے سے شکایت کی گئی کہ اسے یہ خیال آتا رہتا ہے کہ وہ نماز کے دوران میں کوئی چیز محسوس کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: (وہ نماز سے) نہ ہٹے یہاں تک کہ کوئی آواز سنے یا کوئی بو محسوس کرے۔ ابو بکر اور زہیر بن حرب نے اپنی روایت میں (عباد بن تمیم کے چچا کے بارے میں) بتایا کہ وہ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ ہیں۔
سعید اور عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت سناتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک انسان کی شکایت کی کہ اسے نماز میں یہ خیال آتا ہے کہ وضو ٹوٹ گیا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس وقت تک نماز نہ توڑے، جب تک اسے (ہوا نکلنے کی) آواز سنائی نہ دے یا اسے بدبو محسوس نہ ہو۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 160  
´ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی گئی کہ آدمی (بسا اوقات) نماز میں محسوس کرتا ہے کہ ہوا خارج ہو گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک بو نہ پا لے، یا آواز نہ سن لے نماز نہ چھوڑے ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 160]
160۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر نماز کے دوران میں ہوا نکلنے کا شبہ پڑے تو محض وہم اور شک کی بنیاد پر نماز سے نہیں نکلنا چاہیے جب تک یقین نہ ہو جائے کہ ہوا خارج ہوئی ہے کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ اشیاء اپنی اصل ہی پر رہتی ہیں جب تک اس کے برعکس کا یقین نہ ہو۔ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ [الأشباه و النظائر]
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہوا نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تبھی تو نماز سے نکلنے کا کہا گیا ہے۔
➌ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو اس کے متعلق پوچھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو جس قسم کا مسئلہ درپیش ہوتا، وہ فوراًً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 160   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث513  
´حدث کے بغیر وضو کے واجب نہ ہونے کا بیان۔`
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس شخص کا معاملہ لے جایا گیا جس نے نماز میں (حدث کا) شبہ محسوس کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، شک و شبہ سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ وہ گوز کی آواز نہ سن لے، یا بو نہ محسوس کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 513]
اردو حاشہ:
(1)
ہوا خارج ہونے سے پہلے وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ آواز آئے یا نہ آئے۔

(2)
محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا کیونکہ پیشاب پاخانہ وغیرہ سے وضو ٹوٹنا صحیح دلائل سے ثابت ہے۔
یہاں صرف یہ مسئلہ بتایا گیا ہے کہ وضو ٹوٹنے کا یقین یا ظن غالب ہونا چاہیے محض وہم اور شک کی بنیاد پر وضو کے لیے نہیں جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 513