صحيح مسلم
كِتَاب الْحَيْضِ -- حیض کے احکام و مسائل
33. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ نَوْمَ الْجَالِسِ لاَ يَنْقُضُ الْوُضُوءَ:
باب: بیٹھنے بیٹھے سو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
حدیث نمبر: 833
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ . ح وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَجِيٌّ لِرَجُلٍ، وَفِي حَدِيثِ عَبْدِ الْوَارِثِ: وَنَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُنَاجِي الرَّجُلَ، فَمَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، حَتَّى نَامَ الْقَوْمُ ".
اسماعیل بن علیہ اور عبد الوارث دونوں نے عبد العزیز سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نماز کے لیے تکبیر کہہ دی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی سے بہت قریب ہو کر آہستہ آہستہ بات کر رہے تھے۔ (عبد الوارث کی روایت میں ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نجی لرجل کے بجائے ونبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یناجی الرجل آپ ایک آدمی سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے ہے۔ مفہوم ایک ہے) تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ (بیٹھےبیٹھے) سو گئے۔
حضرت انس رضی االہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نماز کے لیے تکبیر کہ دی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان سے سرگوشی میں مصروف تھے اور عبدالوارث کی روایت میں نجی الرجل کی بجائے يُنَاجِي الرَّجُلَ ہے، ایک انسان سے آہستہ آہستہ بات چیت فرما رہے تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف نہیں لائے حتیٰ کہ لوگ سو گئے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 201  
´اقامت اور تکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو`
«. . . أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: أُقِيمَتْ صَلَاةُ الْعِشَاءِ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي حَاجَةً، فَقَامَ يُنَاجِيهِ حَتَّى نَعَسَ الْقَوْمُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ، ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ وَلَمْ يَذْكُرْ وُضُوءًا . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عشاء کی نماز کی اقامت کہی گئی، اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، اور کھڑے ہو کر آپ سے سرگوشی کرنے لگا یہاں تک کہ لوگوں کو یا بعض لوگوں کو نیند آ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔ ثابت بنانی نے وضو کا ذکر نہیں کیا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 201]
فوائد و مسائل:
اقامت اور تکبیر تحریمہ میں کچھ فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت ہے، نہ امام پر یہ واجب ہےکہ تکبیر کے فوراً بعد «الله اكبر» کہہ کر نماز شروع کر دے جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 201   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 542  
´اقامت کے بعد امام مسجد نہ پہنچے تو لوگ بیٹھ کر امام کا انتظار کریں۔`
حمید کہتے ہیں میں نے ثابت بنانی سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو نماز کی تکبیر ہو جانے کے بعد بات کرتا ہو، تو انہوں نے مجھ سے انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حدیث بیان کی کہ نماز کی تکبیر کہہ دی گئی تھی کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور اس نے آپ کو تکبیر ہو جانے کے بعد (باتوں کے ذریعے) روکے رکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 542]
542۔ اردو حاشیہ:
➊ اقامت اور تکبیر تحریمہ میں فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں اور مناسب بات کر لینا بھی جائز ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی متواضع انسان تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم ا جمعین کی ازحد دل جوئی فرمایا کرتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 542   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 792  
´اقامت کے بعد امام کو کوئی ضرورت پیش آ جائے جس سے وہ نماز مؤخر کر دے۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص سے راز داری کی باتیں کر رہے تھے، تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ سونے لگے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 792]
792 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس آدمی سے بات چیت کسی ضروری مسئلے میں ہو گی لہٰذا کوئی ضرورت پڑ جائے تو اقامت اور تکبیر تحریمہ میں فاصلہ ہو سکتا ہے بلکہ صفوں کی تصحیح و ترصیص کے لیے امام اقامت کے بعد ہدایات دے سکتا ہے۔ صفوں کی درستی کے بعد تکبیر تحریمہ کہی جائے۔
➋ لوگ سو گئے۔ یعنی اونگھنے لگے۔ ارکان نماز کی حالتوں می سے کسی حالت میں اونگھنا اس وقت تک وضو کے لیے مضر نہیں جب تک شعور اور فہم و ادراک زائل نہ ہو یعنی گہری نیند نہ سوئے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 792