حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا دھوکے کی بیع سے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1513، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3376، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1230، والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 4522، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2194، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7405، والدارمي فى «سننه» برقم: 2554، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 75»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دھوکے کی بیع میں یہ داخل ہے: کسی شخص کا جانور گم ہوگیا ہو، یا غلام بھاگ گیا ہو، اور اس کی قیمت پچاس دینار ہو، ایک شخص اس سے کہے: میں تیرے اس جانور یا غلام کو بیس دینار کو لیتا ہوں، اگر وہ مل گیا تو بائع کے تیس دینار نقصان ہوئے، اور جو نہ ملا تو مشتری کے بیس دینار گئے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس میں ایک بڑا دھوکا ہے، معلوم نہیں وہ جانور یا غلام اسی حال میں ہے یا اس میں کوئی عیب ہوگیا یا ہنر ہوگیا، جس کی وجہ سے اس کی قیمت گھٹ بڑھ گئی۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ حمل کا خریدنا بھی دھوکے کی بیع میں داخل ہے، معلوم نہیں بچہ نکلتا ہے یا نہیں، اگر نکلے تو خوبصورت ہوگا یا بدصورت، پورا ہوگا یا لنڈورا، نر ہوگا یا مادہ، اور ہر ایک کی قیمت کم وبیش ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مادہ کو بیچنا اور اس کے حمل کو مستثنیٰ کر لینا درست نہیں، جیسے کوئی کسی سے کہے: میری دودھ والی بکری کی قیمت تین دینار ہیں، تو دو دینار کو لے لے، مگر اس کے پیٹ کا بچہ جب پیدا ہوگا تو میں لے لوں گا، یہ مکروہ ہے، درست نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا نے کہ زیتون کی لکڑی اس کے تیل کے، اور تل تیل کے بدلے میں، اور مکھن گھی کے بدلے میں بیچنا درست نہیں، اس لیے کہ یہ مزابنہ میں داخل ہے، اور اس میں دھوکہ ہے، معلوم نہیں اس تل یا لکڑی یا مکھن میں اسی قدر تیل یا گھی نکلتا ہے یا اس سے کم یا زیادہ۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح حب البان کا بیچنا روغن بان کے بدلے میں نادرست ہے، البتہ حب البان کو خوشبودار بان کے بدلے میں بیچنا درست ہے، کیونکہ وہ خوشبو ملانے سے تیل کے حکم میں نہ رہا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے اپنی چیز کسی کے ہاتھ اس شرط پر بیچی کہ مشتری کو نقصان نہ ہوگا، تو یہ جائز نہیں، گویا بائع نے مشتری کو نوکر رکھا، اگر اس چیز میں نفع ہو، اور اگر اتنے ہی کو بکے جتنے کو خریدا ہے یا کم کو، مشتری کی محنت برباد ہوئی تو یہ درست نہیں، مشتری کو اس کی محنت کے موافق مزدوری ملے گی، اور جو کچھ نفع نقصان ہو بائع کا ہوگا، مگر یہ حکم جب ہے کہ مشتری اس چیز کو بیچ چکا ہو، اگر اس نے نہیں بیچا تو بیع کو فسخ کریں گے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اپنی چیز بیچ ڈالی، پھر مشتری شرمندہ ہو کر بائع سے کہنے لگا: کچھ قیمت کم کردے، بائع نے انکار کیا اور کہا: تو غم نہ کھا، بیچ دے تجھے نقصان نہ ہوگا، اس میں کچھ قباحت نہیں، نہ دھوکا ہے، بلکہ بائع نے ایک رائے اپنی بیان کی، کچھ اس شرط پر نہیں بیچا، ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔