صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ -- نماز کے احکام و مسائل
13. باب حُجَّةِ مَنْ قَالَ لاَ يَجْهَرُ بِالْبَسْمَلَةِ:
باب: بسم اللہ کو بلند آواز سے نہ پڑھنے والوں کی دلیل۔
حدیث نمبر: 892
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ عَبْدَةَ، " أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَانَ يَجْهَرُ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، يَقُولُ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، تبارك اسمك وتعالى جدك، ولا إله غيرك، وعن قتادة : أَنَّهُ كَتَبَ إِلَيْهِ يُخْبِرُهُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: " صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، فَكَانُوا يَسْتَفْتِحُونَ بِ الْحَمْد لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا يَذْكُرُونَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فِي أَوَّلِ قِرَاءَةٍ، وَلَا فِي آخِرِهَا ".
وزاعی نے عبدہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ کلمات بلند آواز سے پڑھتے تھے: سبحانک اللہم! وبحمدک، تبارک اسمک وتعالی جدک، ولا إلہ غیرک اے اللہ! تو اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے۔ تیرا نام بڑا بابرکت ہے اور تیری عظمت وشان بڑی بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ (نیز اوزاعی ہی کی) قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے (اپنی) روایت کی خبر دیتے ہوئے ان (اوزاعی) کی طرف لکھ بھیجا کہ انہوں نے (انس رضی اللہ عنہ) نے قتادہ کو حدیث سنائی، کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر، عمر اورعثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے، وہ (نماز کا) آغاز الحمد للہ رب العالمین سے کرتے تھے، وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم (بلند آواز سے) نہیں کہتے تھے، نہ قراءت کے شروع میں اور نہ اس کے آخر میں ہی (دوسری سورت کے آغاز پر
حضرت عبدہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کلمات بلند آواز سے پڑھتے تھے، (سُبْحَانَكَ اللهم! وَبِحَمْدِكَ وَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالىٰ جَدُّكَ، وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ) (اے اللہ! تو اپنی حمد و توصیف کے ساتھ، پاکیزگی و تقدس سے متصف ہے، تیرا نام ہی بابرکت ہےاور تیری عظمت و بزرگی بلند و بالا ہے، تیرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں)۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتادہ کو بتایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی ہے، وہ نماز کا آغاز ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ﴾ سے کرتے تھے، وہ قراءت کے شروع میں اور نہ ہی آخر میں ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم﴾ پڑھتے تھے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 219  
´نماز میں سورہ فاتحہ سے قرأت کا آغاز`
«. . . وعن انس رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم وابا بكر وعمر كانوا يفتتحون الصلاة بالحمد لله رب العالمين . . .»
. . . حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سب نماز کا آغاز «الحمد لله رب العالمين» سے کرتے تھے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 219]

لغوی تشریح:
«لَا يَذْكُرُونَ بِسْمِ اللهِ» بسم اللہ ذکر نہیں کرتے تھے۔ یہ فقرہ اس پر دلالت نہیں کرتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مطلقاً بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہ تو صرف اس پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ کو جہری (بآواز بلند) نہیں پڑھتے تھے۔
«يُسِرُّوْنَ» «إسرار» سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بسم اللہ بغیر آواز نکالے آہستہ آہستہ پڑھتے تھے۔
«وَعَلٰي هٰذَا» بسم اللہ کو بے آواز، یعنی سراً پڑھنے پر۔
«يُحْمَلُ» صیغہ مجہول۔ محمول کیا جائے گا۔
«النَّفْيُ» بسم اللہ کی نفی کو۔
«فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ» مسلم کی وہ روایت جو ابھی بیان کی گئی ہے۔
«خِلَافًا لِمَنْ أَعَلَّهَا» یعنی جو شخص یہ کہتا ہے کہ صحیح مسلم میں بسم اللہ کی نفی کا جو اضافہ ہے یہ معلول ہے، وہ اس (سراً بسم اللہ پڑھنے والی) توجیہ کی مخالفت کرتا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے کہ نفی کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، تاہم یہ روایت معلول ہو گی۔ لیکن اس بات کے ذریعے سے اس حدیث کے معلول ہونے کی دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔ علت دراصل یہ ہے کہ امام اوزاعی نے یہ اضافہ قتادہ کے واسطے سے مکا تبتاً نقل کیا ہے، حالانکہ یہ علت درست نہیں کیونکہ اوزاعی اس کے روایت کرنے میں تنہا نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی اس کو روایت کرنے والے ہیں جن کی روایت صحیح ہے، لہٰذا نفی کی وہ تاویل صحیح ہے جو پہلے گزر چکی ہے۔ [تحفة الأحوذي: 204/1]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ سے قرأت کا آغاز کرتے اور بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے۔
➋ بعض روایات میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا بھی ثبوت ہے، اس لیے بسم اللہ کو آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھنا دونوں طرح جائز ہے، تاہم اکثر اور زیادہ صحیح روایات کی رو سے آہستہ پڑھنا ہی ثابت ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 219   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 903  
´سورت سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 903]
903 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ثابت ہوا کہ ہر رکعت میں قرأت کی ابتدا سورۂ فاتحہ سے ہو گی کیونکہ یہ نماز میں فرض ہے۔ یہ دوسری قرأت کی جگہ کفایت کر سکتی ہے۔ کوئی اور سورت اس کی جگہ کفایت نہیں کرے گی (جیسے فرض نماز کی آخری ایک یا دو رکعتیں)۔
➋ اس روایت سے «بسم الله الرحمن الرحيم» بلند آواز سے یا مطلقاً نہ پڑھنے پر استدلال کیا گیا ہے مگر یہ استدلال قوی نہیں کیونکہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سورۂ فاتحہ کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے، اس لیے کہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سورۂ فاتحہ کے نام کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری، حدیث: 506، میں ہے۔ اور «بسم الله الرحمن الرحيم» چونکہ فاتحہ کا جز ہے، اس لیے وہ ضرور پڑھی جائے گی، نیز یہ حدیث «بسم الله الرحمن الرحيم» کے آہستہ پڑھنے کے تو قطعاً منافی نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل «بسم الله الرحمن الرحيم» کو آہستہ پڑھنے کا ہے اور «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے آپ بلند آواز سے قرأت شروع فرماتے، لہٰذا مالکیہ کا «بسم الله الرحمن الرحيم» کو مطلقاً نہ پڑھنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 903   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 904  
´سورت سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی تو ان لوگوں نے «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کی۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 904]
904 ۔ اردو حاشیہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ سب «بسم الله الرحمن الرحيم» آہستہ پڑھتے تھے۔ اسی سے استدلال کیا گیا ہے کہ «بسم الله» کا آہستہ پڑھنا افضل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 904   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 246  
´الحمدللہ رب العالمین سے قرأت شروع کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم «الحمد لله رب العالمين‏» سے قرأت شروع کرتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 246]
اردو حاشہ:
1؎:
جو لوگ ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾  کے جہر کے قائل نہیں ہیں وہ اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ،
ابوبکر،
عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم سبھی قرأت ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے شروع کرتے تھے،
اور جہر کے قائلین اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے مراد سورہ فاتحہ ہے نہ کہ خاص یہ الفاظ،
حدیث کامطلب ہے کہ یہ لوگ قرأت کی ابتدا سورہ فاتحہ سے کرتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 246   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 892  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سورہ فاتحہ کا نام ہے تو مقصد یہ ہوا کہ وہ قرآءت کا آغاز سورہ فاتحہ سے کرتے تھے اور بِسمِ اللہِ فاتحہ کا جزو ہے راوی نے چونکہ ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کو سورہ کا نام کی بجائے آیت سمجھ لیا۔
اس لیے یہ کہہ دیا کہ وہ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ نہیں پڑھتے تھے۔
(تفصیل کے لیے مولانا میر سیالکوٹی کی واضح البیان دیکھئے۔
)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 892