صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ -- نماز کے احکام و مسائل
24. باب الأَمْرِ بِتَحْسِينِ الصَّلاَةِ وَإِتْمَامِهَا وَالْخُشُوعِ فِيهَا:
باب: نماز کو خضوع و خشوع، اور اچھی طرح سے پڑھنے کا حکم۔
حدیث نمبر: 960
حَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ يَعْنِي ابْنَ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ كِلَاهُمَا، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَتِمُّوا الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ بَعْدِ ظَهْرِي، إِذَا مَا رَكَعْتُمْ، وَإِذَا مَا سَجَدْتُمْ "، وَفِي حَدِيثِ سَعِيدٍ: إِذَا رَكَعْتُمْ وَإِذَا سَجَدْتُمْ.
قتادہ سے (شعبہ کے بجائے دستوائی والے) ہشام اور سعید نے اپنی اپنی سند کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رکوع اور سجدہ کو مکمل کرو، اللہ کی قسم! جب بھی تم رکوع کرتے ہو اور جب بھی تم سجدہ کرتے ہو تو میں اپنی پیٹھ پیچھے تمہیں دیکھتا ہوں۔ اور سعید کی روایت میں (إذا ما رکعتم وإذا ما سجدتم کے بجائے) إذا رکعتم وسجدتم جب تم رکوع اور سجدہ کرتے ہو۔ کے الفاظ ہیں۔ یعنی سعید کی روایت میں اذا کے بعد دونوں جگہ ما کا لفظ نہیں ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رکوع اور سجود کامل طریقہ سے کیا کرو، اللہ کی قسم! میں تمہیں اپنی پشت کے پیچھے سے دیکھتا ہوں، جب تم رکوع کرتے ہو اور جب تک سجدہ کرتے ہو، اور سعید کی حدیث میں إذا کی جگہ ما کا لفظ نہیں ہے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 814  
´سیدھے کھڑے ہو جاؤ کتنی بار کہنا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح تمہیں اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 814]
814 ۔ اردو حاشیہ:
➊ تین دفعہ کہنا مستحب ہے ورنہ یہ ضرورت پر موقوف ہے۔ اگر صفیں درست ہوں تو ایک دفعہ کہنا بھی ضروری نہیں اور اگر صفوں میں خرابی تین دفعہ کہنے کے باوجود باقی رہے تو ظاہر ہے زیادہ مرتبہ کہا جائے گا۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کی حالت میں پچھلی صفوں کو دیکھنا آپ کا معجزہ تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے درست اور قول مختار اسی کو قرار دیا ہے نیز یہ اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ دیکھیے: [فتح الباری: 666/1 تحت حدیث: 418]
اس کی تاویل کر کے اسے اس کے ظاہری مفہوم سے پھیرنا مسلک سلف کے خلاف ہے تاہم یہ دیکھنا صرف نماز کی حد تھا (یعنی دوران امامت میں) نہ کہ ہر وقت آپ اپنے پیچھ کا مشاہدہ کرسکتے تھے نیز کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر ایک آنکھ تھی اس سے آپ ہمیشہ دیکھتے رہتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ کے دونوں کندھوں پر سوئی کے ناکے کے برابر دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں تھیں۔ بہرحال یہ سب تخمینے اور اندازے ہیں دلیل ان کی پشت پناہی نہیں کرتی۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: [فتح الباري: 666/1]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 814   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 846  
´فوت شدہ نماز کی جماعت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہنے سے پہلے آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی صفوں کو درست کر لیا کرو، اور باہم مل کر کھڑے ہوا کرو، کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 846]
846 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ غالباً راویٔ کتاب یا ناسخ کی غلطی سے یہاں لکھی گئی، نیز یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ (فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 815: 816)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 846   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 960  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھاتے وقت پیچھے سے دیکھنے کی طاقت،
اس طرح عنائیت فرمائی تھی جس طرح عام انسانوں کو سامنے سے دیکھنے کی قوت بخشی ہے،
اور یہ دیکھنا حقیقتاً تھا،
اس میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے،
لیکن اس روایت میں یہ استدلال کرنا کہ ہر وقت شش جہات میں دیکھتے تھے اور اب بھی دیکھ رہے ہیں غلط ہے کیونکہ ان احادیث کا تعلق صرف نماز سے ہے آگے پیچھے سے نہیں اور جماعت آپﷺ دنیوی زندگی میں کرواتے تھے اب آپﷺ کا اس دنیا سے تعلق ختم ہو چکا ہے برزخی زندگی حاصل ہے کہ اس کے لیے آپﷺ کے شہید ہونے کی دلیل بنانا کہ آپﷺ قیامت کے دن امت کے بارے میں گواہی دیں گے،
صحیح نہیں ہے کیونکہ گواہی تو آپﷺ کی امت بھی دے گی تو کیا وہ بھی دیکھ رہی ہے۔
﴿وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ﴾ رسول تم پر گواہ ہوں گے،
سے پہلے فرمایا:
﴿لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو،
اورمنافقوں کو خطاب کر کے فرمایا:
﴿وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ﷭ (التوبة)
اور فرما دیجئے! تم عمل کرو،
اللہ اور اس کا رسول اور مومن تمہارا عمل دیکھ لیں گے۔
تو کیا مومن بھی،
منافقوں کے ظاہر وباطن کو دیکھ رہے ہیں اور اللہ نے مومنوں کو دیکھنے کی یہ نعمت دی ہے اور وہ نعمت دے کر چھینتا نہیں ہے اس کی نعمت دائمی ہوتی ہے تو پھر مومن بھی ہر جگہ دیکھ رہے ہیں،
سورہ حج میں فرمایا:
﴿لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾ (تاکہ تم لوگوں پر گواه ہو جاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)
تم پر گواه ہو جائیں)

آپﷺ کی گواہی تو آپﷺ کی امت کے لیے ہے اور امت کی گواہی سب کے لیے ہے تو کیا امت سب لوگوں کے اعمال کو دیکھ رہی ہے۔
اصل حقیقت وہی ہے جس کو علامہ سعیدی نے بلا وجہ فلسفہ بگھارنے کے بعد شیخ عبدالحق سے نقل کیا ہے جس کا آخری جملہ یہ ہے کہ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمی یابد مگر آنچہ دریا باندویرا پروردگارتبارک وتعالیٰ خواہ درنماز باشد یادرغیرآں پس حالت نماز ہو یا غیر نماز اللہ تعالیٰ کے بتلائے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چیز کاعلم نہیں ہوتا۔
(شرح صحیح مسلم اردو علامہ سعیدی: 1/ 1226)
پھر ﴿وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ﴾ کا جواب بھی عجیب وغریب دیا ہے کہ اس حدیث میں درایت کی نفی ہے۔
علم اور بصر کی نفی نہیں ہے درایت کا معنی ہے،
اپنی عقل سے از خود جاننا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امور غیبیہ کو اللہ کی تعلیم سے جانتے ہیں،
ازخود نہیں جانتے۔
(شرح صحیح مسلم: 1/ 1225)
جو چیز اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بتا دی اس کے جاننے کا کونسا انسان جو آپﷺ پر ایمان رکھتا ہے،
انکار کر سکتا ہے۔
اصل چیز تو یہ ثابت کرنا ہے کہ ہر چیز کاعلم اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو دے دیا ہے اور اس کے لیے حنفی اصول فقہ کے مطابق قطعی دلیل کی ضرورت ہے،
قرآن مجید میں مشرکوں کو خطاب کر کے فرمایا:
﴿قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْرَاكُمْ بِهِ﴾ اگراللہ چاہتا تو میں تمھیں نہ سناتا اور نہ وہ تمھیں اس سے آگاہ کرتا تو کیا مشرک اپنی عقلوں سے خود جان لیتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 960