صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
149. بَابُ الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلاَمِ:
باب: (تشہد کے بعد) سلام پھیرنے سے پہلے کی دعائیں۔
حدیث نمبر: 834
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي، قَالَ:" قُلْ، اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے یزید بن ابی حبیب سے بیان کیا، ان سے ابوالخیر مرثد بن عبداللہ نے ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے، ان سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت،‏‏‏‏ فاغفر لي مغفرة من عندك،‏‏‏‏ وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! میں نے اپنی جان پر (گناہ کر کے) بہت زیادہ ظلم کیا پس گناہوں کو تیرے سوا کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے بھرپور مغفرت عطا فرما اور مجھ پر رحم کر کہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا بیشک وشبہ تو ہی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3835  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا بیان۔`
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا: تم یہ دعا پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کا بخشنے والا صرف تو ہی ہے، تو اپنی عنایت سے میرے گناہ بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو غفور و رحیم (بخشنے والا مہربان) ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3835]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
نماز میں سلام سے پہلے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں۔

(2)
گناہوں کی بخشش کےلیے دعا کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔

(3)
دعائے مغفرت کے لیے ضروری نہیں کہ کوئی گناہ سر زد ہوا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3835   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 251  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے ایسی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے پروردگار! میں نے اپنی جان پر بہت ہی ظلم کیا ہے۔ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔ لہذا تو مجھے اپنی جناب سے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما۔ بیشک تو ہی بخشنے والا اور ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 251»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب الدعاء قبل السلام، حديث:834، ومسلم، الذكر والدعاء، باب استحباب خفض الصوت بالذكر، حديث:2705.»
تشریح:
اس حدیث سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے کیونکہ انسان سے ہر وقت لغزش اور غلطی و خطا کا امکان رہتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا انسان بھی اپنے آپ کو اس سے مستغنی نہیں سمجھتا‘ حالانکہ ان کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدیق کا خطاب عطا ہوا تھا۔
راوئ حدیث: «حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوبکر کنیت اور صدیق لقب ہے۔
عبداللہ بن عثمان نام ہے۔
ان کے والد عثمان‘ ابو قحافہ کی کنیت سے مشہور تھے۔
تیم قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے خلیفۂ راشد تھے۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں سے افضل انسان ہیں۔
ہجرت مدینہ کے سفر کے دوران میں غار ثور میں آپ کے ساتھی تھے۔
اسی بنا پر ان کو یارِ غار کہا جاتا ہے۔
گورے چٹے‘ نرم مزاج اور دبلے پتلے جسم کے انسان تھے۔
تعریف سے مستغنی ہیں۔
بڑے عزم و استقلال اور صمیم الارادہ تھے۔
احباب و رفقاء کے لیے رحیم و رقیق اور اعدائے اسلام اور دشمنان دین کے لیے ناقابل تسخیر چٹان تھے۔
۱۳ ہجری میں جمادی الاخریٰ میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 251   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3531  
´باب:۔۔۔`
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئیے جسے میں اپنی نماز میں مانگا کروں ۱؎، آپ نے فرمایا: کہو: «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے، جب کہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی اور بخش نہیں سکتا، اس لیے تو مجھے اپنی عنایت خاص سے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3531]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نماز میں سے مراد ہے آخری رکعت میں سلام سے پہلے۔

2؎:
اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے،
جب کہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی اور بخش نہیں سکتا،
اس لیے تو مجھے اپنی عنایت خاص سے بخش دے،
اور مجھ پر رحم فرما،
تو ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3531   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:834  
834. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیں جو میں نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا: یہ پڑھا کرو: (اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ۔۔۔ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ) اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا۔ اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں، اس لیے تو مجھے اپنی طرف سے معاف کر دے اور مجھ پر مہربانی کر دے۔ یقینا تو ہی بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:834]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث کی عنوان سے مطابقت دو طرح سے ہے:
٭ قرینہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مذکورہ استعاذہ تشہد کے بعد پڑھنا چاہیے جیسا کہ علامہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں:
نماز کے ہر مقام کے لیے ذکر و دعا مخصوص ہے تو مذکورہ استعاذہ تمام ارکان سے فراغت کے بعد ہو گا کیونکہ نماز کے چار مقام زیادہ اہم ہیں:
قیام، رکوع، سجدہ اور تشہد۔
قیام میں قراءت ہوتی ہے، رکوع اور سجدہ کے لیے تسبیحات اور دعائیں مخصوص ہیں، تشہد کے لیے یہ استعاذہ ہے جو سلام سے قبل پڑھا جاتا ہے۔
٭ احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن طاؤس اپنے باپ طاؤس سے بیان کرتے ہیں کہ وہ تشہد کے بعد استعاذہ پڑھا کرتے تھے۔
پھر وہ حضرت عائشہ ؓ سے مرفوعاً بیان کرتے تھے۔
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو جائے تو چار چیزوں سے پناہ مانگے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1324 (588) (2)
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے تشہد کے بعد پسندیدہ دعا پڑھنے کا اختیار دیا ہے تو ممکن ہے کہ انہوں نے اسی وقت آپ سے سوال کیا ہو اور آپ نے مذکورہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی ہو۔
(فتح الباري: 414/2)
ان ادعیہ کے علاوہ بھی دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد کے بعد سلام پھیرنے سے قبل یہ دعا پڑھتے تھے:
(اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ)
اے اللہ! تو میرے اگلے، پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہ معاف کر دے اور جو میں نے زیادتی کی اور وہ گناہ جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے وہ بھی معاف فرما۔
تو ہی آگے کرنے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1821 (771)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 834