صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ -- نماز کے احکام و مسائل
34. باب الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ:
باب: ظہر اور عصر کی نمازوں میں قرأت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1021
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَزْعَةُ ، قَالَ: " أَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ وَهُوَ مَكْثُورٌ عَلَيْهِ، فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْهُ، قُلْتُ: إِنِّي لَا أَسْأَلُكَ عَمَّا يَسْأَلُكَ هَؤُلَاءِ عَنْهُ، قُلْتُ: أَسْأَلُكَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لَكَ فِي ذَاكَ مِنْ خَيْرٍ، فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ: كَانَتْ صَلَاةُ الظُّهْرِ تُقَامُ، فَيَنْطَلِقُ أَحَدُنَا إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقْضِي حَاجَتَهُ، ثُمَّ يَأْتِي أَهْلَهُ، فَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى ".
ربیعہ نے کہا: قزعہ نے مجھے حدیث سنائی، کہا: میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، ان کے پاس (استفادے کے لیے) کثرت سے لوگ موجود تھے۔ جب یہ لوگ ان سے (رخصت ہو کر) منتشر ہو گئے تو میں نے عرض کی: میں آپ سے ان چیزوں کے بارے میں سوال نہیں کروں گا جن کے بارے میں لوگ آپ سے سوال کر رہے تھے۔ میں نے کہا: میں آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھتا ہوں۔ انہوں نے کہا: اس سوال میں تیرے لیے بھلائی نہیں ہے (کیونکہ تم نماز پڑھانے والے حکمرانوں کے پیچھے ایسے نماز نہیں پڑھ سکو گے) انہوں نے ان کے سامنے دوبارہ اپنا مسئلہ پیش کیا تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ظہر کی نماز کھڑی کی جاتی اور ہم میں سے کوئی بقیع کی طرف جاتا، اپنی ضرورت پوری کرتا، پھر اپنے گھر آ کر وضو کرتا، اس کے بعد واپس مسجد میں آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی پہلی رکعت میں ہوتے تھے۔
حضرت قزعہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے پاس (استفادہ کے لیے) بہت سے لوگ موجود تھے تو جب لوگ منتشر ہوگئے (چلے گئے) میں نے عرض کیا، میں آپ سے ان چیزوں کے بارے میں سوال نہیں کروں گا، جن کے بارے میں یہ لوگ آپ سے سوال کر رہے تھے، میں نے کہا، میں آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھتا ہوں تو انہوں نے کہا، اس سوال میں تیرے لیے بہتری یا بھلائی نہیں ہے (کیونکہ تم ایسی نماز ہمیشہ پڑھ نہیں سکو گے) اس نے دوبارہ یہی سوال کیا تو انہوں نے کہا، ظہر کی نماز کھڑی کی جاتی اور ہم میں سےکوئی بقیع کی طرف جاتا اور اپنی ضرورت پوری کرتا، پھر اپنے گھر آ کر وضو کرتا، پھر واپس مسجد میں آتا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی پہلی رکعت میں ہی ہوتے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 974  
´ظہر کی پہلی رکعت میں لمبا قیام کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز ظہر کھڑی کی جاتی تھی، پھر جانے والا بقیع جاتا اور اپنی حاجت پوری کرتا، پھر وضو کرتا اور واپس آتا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت میں ہوتے، (کیونکہ) آپ اسے خوب لمبی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 974]
974 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرنا مسنون ہے چونکہ یہ کاروبار کا وقت ہوتا ہے، اس لیے جب پہلی رکعت لمبی ہو گی تو زیادہ سے زیادہ لوگ پوری نماز باجماعت اداکرسکیں گے۔ واللہ أعلم۔
➋ لوگ آپ کے پیچھے بڑے ذوق شوق سے کھڑے ہوتے تھے۔ آپ کی صحبت و مجلس کی برکت سے طویل قیام میں انہیں سرور آتا تھا۔ آپ کی روحانیت بھی ان کا احاطہ کر لیتی تھی، اس لیے آپ کو اتنا لمبا قیام مناسب تھا۔ آپ کبھی مختصر قیام بھی کرتے تھے۔ دوسرے ائمہ کے لیے نمازیوں کے مناسب حال قیام کرنے کا ارشاد ہے۔ قرأت لمبی بھی ہو اور مخفی بھی، تو یہ اکتاہٹ اور بے زاری پیدا کرتی ہے جو نماز کی روح کے منافی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 974   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث825  
´ظہر اور عصر کی قرات کا بیان۔`
قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: تمہارے لیے اس میں کوئی خیر نہیں ۱؎، میں نے اصرار کیا کہ آپ بیان تو کیجئیے، اللہ آپ پہ رحم کرے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز ظہر کی اقامت کہی جاتی اس وقت ہم میں سے کوئی بقیع جاتا، اور قضائے حاجت (پیشاب پاخانہ) سے فارغ ہو کر واپس آتا، پھر وضو کرتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر کی پہلی رکعت میں پاتا ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 825]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  بقیع اس جگہ کانام ہے۔
جسے آجکل جنت البقیع کہتے ہیں۔
یہ مدینہ کا قبرستان ہے۔
رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں اس کے ایک حصے میں قبریں تھیں۔
باقی خالی میدان تھا۔
اس وقت مسجد نبوی ﷺ کی عمارت بھی تھوڑے سے رقبے پر بنی ہوئی تھی۔

(2)
  اس میں تیرے لئے بھلائی نہیں مطلب یہ کہ علم کا مقصد عمل کرنا ہے۔
اور آپ لوگ اس کے مطابق عمل کرکےاتنی لمبی نماز نہیں پڑھ سکتے۔
پھر پوچھنے کا کیا فائدہ؟
(3)
پہلی رکعت کوطویل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ لوگ پوری نماز باجماعت کا ثواب حاصل کرلیں۔

(4)
اگر نمازی لمبی نماز پڑھنے میں مشقت محسوس نہ کریں۔
تو نماز کو معمول سے زیادہ طول دیا جاسکتا ہے۔
ورنہ مناسبت حد تک تخفیف کرنے کا حکم ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 825   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1021  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بقیع کا فاصلہ،
آپﷺ کے دور میں آپﷺ کی مسجد سے تقریباً ایک ایکڑ تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1021