2. بَابُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ»:
2. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش کے کافروں پر بددعا کرنا کہ الٰہی ان کے سال ایسے کر دے جیسے یوسف علیہ السلام کے سال (قحط) کے گزرے ہیں۔
(2) Chapter. Invocation of the Prophet ﷺ: "O Allah! Send (drought-famine) years on them (pagans of Makkah) like the (drought-famine) years of (Prophet) Yusuf (Joseph)."
Narrated Masruq: We were with `Abdullah and he said, "When the Prophet saw the refusal of the people to accept Islam he said, "O Allah! Send (famine) years on them for (seven years) like the seven years (of famine during the time) of (Prophet) Joseph." So famine overtook them for one year and destroyed every kind of life to such an extent that the people started eating hides, carcasses and rotten dead animals. Whenever one of them looked towards the sky, he would (imagine himself to) see smoke because of hunger. So Abu Sufyan went to the Prophet and said, "O Muhammad! You order people to obey Allah and to keep good relations with kith and kin. No doubt the people of your tribe are dying, so please pray to Allah for them." So Allah revealed: "Then watch you For the day that The sky will bring forth a kind Of smoke Plainly visible ... Verily! You will return (to disbelief) On the day when We shall seize You with a mighty grasp. (44.10-16) Ibn Mas`ud added, "Al-Batsha (i.e. grasp) happened in the battle of Badr and no doubt smoke, Al-Batsha, Al-Lizam, and the verse of Surat Ar-Rum have all passed .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 17, Number 121
● صحيح البخاري | 1007 | عبد الله بن مسعود | اللهم سبع كسبع يوسف أخذتهم سنة حصت كل شيء حتى أكلوا الجلود والميتة والجيف وينظر أحدهم إلى السماء فيرى الدخان من الجوع |
● صحيح البخاري | 4693 | عبد الله بن مسعود | اللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف |
● صحيح البخاري | 4821 | عبد الله بن مسعود | دعا عليهم بسنين كسني يوسف أصابهم قحط وجهد حتى أكلوا العظام فجعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى ما بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد فأنزل الله فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب أليم قال فأتي رسول الله فقيل له يا رسول الله استسق الله |
● صحيح البخاري | 4809 | عبد الله بن مسعود | اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف |
● صحيح البخاري | 4823 | عبد الله بن مسعود | اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف |
● صحيح البخاري | 4774 | عبد الله بن مسعود | اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف أخذتهم سنة حتى هلكوا فيها وأكلوا الميتة والعظام ويرى الرجل ما بين السماء والأرض كهيئة الدخان فجاءه أبو سفيان فقال يا محمد جئت تأمرنا بصلة الرحم وإن قومك قد هلكوا فادع الله فقرأ فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين |
● صحيح البخاري | 4822 | عبد الله بن مسعود | اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف |
● صحيح البخاري | 4824 | عبد الله بن مسعود | اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف |
● صحيح مسلم | 7067 | عبد الله بن مسعود | دعا عليهم بسنين كسني يوسف أصابهم قحط وجهد حتى جعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد وحتى أكلوا العظام فأتى النبي رجل فقال يا رسول الله استغفر ال |
● جامع الترمذي | 3254 | عبد الله بن مسعود | اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف |
● مشكوة المصابيح | 272 | عبد الله بن مسعود | قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين |
● مسندالحميدي | 116 | عبد الله بن مسعود | اللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 272
´لاعلمی کا اعتراف کوئی عیب نہیں`
«. . . وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أعلم فَإِن من الْعلم أَن يَقُول لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ (قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنا من المتكلفين) . . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگو! جو شخص کسی بات کو جانتا ہو تو اسے بیان کر دینا چاہئے۔ اور جو نہیں جانتا (اس سے وہ دریافت کیا گیا) تو اسے یہ کہنا چاہئے «الله اعلم» ”اللہ خوب جانتا ہے۔“ یہ بھی ایک قسم کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا: «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» [بخاري و مسلم] ۔ یعنی آپ فرما دیجئے کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجرت نہیں طلب کرتا اور نہ میں بات بنانے والوں میں سے ہوں۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 272]
تخریج:
[صحيح بخاري 4809]، [صحيح مسلم 7066]
فقہ الحدیث:
➊ جس مسئلے کا علم نہ ہو تو صاف بتا دینا چاہئے کہ مجھے پتا نہیں ہے یا میں نہیں جانتا اور خواہ مخواہ تکلف کر کے اپنا دماغی و اختراعی فتویٰ جاری نہیں کرنا چاہئے۔
➋ کتاب و سنت، اجماع اور آثار سلف صالحین کی پیروی میں ہی نجات ہے۔
◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اور جماعت اہل حدیث کے اعیان و ارکان (1322ھ) میں لاہور شہر میں جمع ہوئے، اس اجلاس میں اس امر پر بحث ہوئی کہ اہل حدیث کے نام سے کون شخص موسوم ہو سکتا ہے؟ طویل بحث و مباحثہ کے بعد یہ قرار دیا گیا کہ ”اہل حدیث وہ ہے جو اپنا دستور العمل و الاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کو بناوے اور جب اس کے نزدیک ثابت و متحقق ہو جائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یا اس سے قوی نہیں پایا جاتا تو وہ ان احادیث و آثار پر عمل کرنے کو مستعد ہو جاوے اور اس عمل سے اس کو کسی امام یا مجتہد کا قول بلا دلیل مانع نہ ہو۔“ [تاريخ اهلِ حديث ج1 ص151، ازقلم ڈاكٹر محمد بهاؤالدين]
◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
”اس معیار کے دوسرے درجہ پر جہاں صحیح حدیث نبوی نہ پائی جاتی ہو، دوسرا معیار سلفیہ آثار صحابہ کبار و تابعین ابرار و محدثین اخیار ہیں، جس مسئلہ اعتقادیہ و عملیہ میں صریح سنت نبوی کا علم نہ ہو، اس مسئلے میں اہل حدیث کا متمسک آثار سلفیہ ہوتے ہیں اور وہی مذہب اہل حدیث کہلاتا ہے۔“ [تاريخ اهلحديث ج 1 ص 157]
◄ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ نے فرمایا:
”خلاصہ یہ کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں۔“ [فتاويٰ اهلحديث ج 1 ص 111]
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 272
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3254
´سورۃ الدخان سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: ایک قصہ گو (واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہو جائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہو گئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو تو اسے بتانی چاہیئے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے «اللہ اعلم» ”اللہ بہتر جانتا ہے“ کہنا چاہیئے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3254]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں،
اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں (ص: 86)
2؎:
جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ (دھواں) لوگوں کو ڈھانپ لے گا،
یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے (الدخان: 10)
3؎:
اے ہمارے رب! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں (الدخان: 12)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3254
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:116
116- مسروق بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: مسجد میں ایک شخص یہ کہہ رہا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا، تو لوگوں تک دھواں پہنچ جائے گا، جو کفار کی سماعت کو اپنی گرفت میں لے گا۔ لیکن اہل ایمان کو اس سے زکام کی سی کیفیت محسوس ہوگی۔ راوی کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے وہ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور بولے: اے لوگو! تم میں سے جو شخص کسی چیز کا علم رکھتا ہو وہ اس کے مطابق بیان کردے اور جو علم نہ رکھتا ہو وہ اپنی لاعلمی کے بارے میں یہ کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ آدمی کے علم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس چیز کے ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:116]
فائدہ:
اس حدیث میں قیامت کی بعض علامتیں بیان ہوئی ہیں۔ حدیث کے شروع میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو ڈانٹ پلائی ہے جو بغیر علم کے کچھ کہتا ہے اور یہ بات سمجھائی کہ وہی کہو جس کا تم کو علم ہے۔ جس چیز کا علم نہیں ہے تو واضح کہہ دینا چاہیے۔ ”واللہ اعلم“ نہ کہ تکلف سے کام لیتے ہوئے غلط مسائل بتائے۔ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف فرما تھے، قحط کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قحط زدہ علاقے ویران ہو گئے تھے۔ بعد میں بعض کفار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر رحم کی اپیل کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، پھر جا کر قحط ختم ہوا۔ تینوں نشانیاں پوری ہو چکی ہیں۔ کافروں کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں عذاب ہے، دنیا میں تھوڑا اور آخرت میں حقیقی عذاب سے دو چار ہوں گے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 116
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7067
امام مسروق رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،حضرت عبداللہ(بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا:میں مسجد میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آرہا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن مجید کی تفسیر کرتا ہے وہ(قرآن کی) آیت:"جب آسمان سے واضح دھواں اٹھے گا"کی تفسیر کرتا ہے،کہتا ہے:"قیامت کےدن لوگوں کے پاس ایک دھواں آئے گا جو لوگوں کی سانسوں کو گرفت میں لے لے گا،یہاں تک کہ لوگوں کو زکام جیسی کیفیت(جس میں سانس لینی مشکل ہوجاتی ہے)درپیش ہوگی،توحضرت عبداللہ(بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے کہا:جس کے پاس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7067]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابن مسعود کے نزدیک،
بدر کے دن گرفت،
ان کی بدعہدی اور بے وفائی کا نتیجہ تھی،
لیکن اصل گرفت تو قیامت کو ہو گی،
دنیا کی گرفت تو اس کا ہلکا سا اشارہ اور تمہید ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7067
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4809
4809. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا: لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اور جسے علم نہ ہو، اسے الله أعلم کہہ دینا چاہیے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ سے کہہ دیا تھا: ”آپ کہہ دیں! میں اس تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہی ہوں۔“ اب میں تمہیں دھوئیں کے متعلق بتاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں تاخیر کی۔ تب آپ ﷺ نے ان کے خلاف بددعا کی: ”اے اللہ! تو ان پر یوسف ؑ کے زمانے کے سات سالوں کی طرح سات سالوں کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔“ چنانچہ قحط نے ان کو پکڑا اور اتنا زبردست پکڑا کہ ہر چیز کو اس نے ختم کر دیا۔ لوگ مردار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4809]
حدیث حاشیہ:
یہ آخری جملہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آج دنیا کا عذاب جو قحط کی صورت میں ان پر نازل ہوا ہے ان سے دور کر دیا جائے توکیا قیامت میں بھی ایسا ممکن ہے؟ نہیں وہاں تو ان کی بڑی سخت پکڑ ہوگی اور کوئی چیز اللہ کے عذاب سے انہیں نہ بچا سکے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4809
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4821
4821. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ کی نافرمانی کی تو آپ نے ان پر قحط سالی کی بد دعا کی، جیسے حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔ لوگوں کو قحط سالی اور مشقت نے اس طرح پکڑا کہ وہ ہڈیاں کھانے لگے۔ اس دوران میں جب آدمی آسمان کی طرف دیکھتا تو اس مشقت کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ”آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لائے گا۔ وہ دھواں لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ دردناک عذاب ہے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک وفد آیا اور انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی سے قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا فرمائیں وہ تو ہلاک و برباد ہو چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم بڑے جراءت مند ہو کر مضر قبیلے کے لیے دعا کی سفارش کرتے ہو۔“ بہرحال آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4821]
حدیث حاشیہ:
قال لمضر أي قال علیه السلام عجیبا أتأمرني أن أستسقي لمضر مع ما معھم علیه من معصیة اللہ والإشراك به إنك لجري أي ذو جرءة حیث تشرك باللہ وتطلب رحمته فاستسقی علیه السلام الخ (قسطلانی)
یعنی آپ نے مضر قبیلہ کے لئے تعجب سے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور مشرک ہیں۔
تم بڑے جرأت مند ہو جو ایسے مشرکین کے لئے اللہ سے دعا کراتے ہو پھر آپ نے ان کے لئے بارش کی دعا فرمائی۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4821
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4824
4824. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور فرمایا ہے: ”آپ کہہ دیں: میں تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف سے باتیں بناتا ہوں۔“ رسول اللہ ﷺ نے جب قریش کو دیکھا کہ انہوں نے نافرمانی کی ہے تو اللہ تعالٰی سے دعا مانگی: ”اے اللہ! ان پر سات برس کا قحط مسلط فرما جس طرح حضرت یوسف ؑ کی قوم پر بھیجا تھا، اس طرح میری ان کے خلاف مدد فرما۔“ چنانچہ انہیں ایسی قحط سالی نے پکڑا کہ جس نے ہر چیز ختم کر دی حتی کہ وہ ہڈیاں اور چمڑے کھانے لگے۔ ان (راویانِ حدیث: سلیمان اور منصور) میں سے ایک نے کہا: حتی کہ وہ (مشرکین مکہ) چمڑے اور مردار بھی کھا گئے۔ زمین سے دھوئیں کی طرح کچھ برآمد ہوتا تھا، آپ کے پاس ابوسفیان آئے اور عرض کیا: اے محمد! آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کریں کہ وہ لوگوں سے عذاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4824]
حدیث حاشیہ:
یہ اگلی روایتوں کے خلاف نہیں ہے جن میں یہ مذکور ہے کہ دیکھنے والے کو زمین وآسمان کے بیچ میں ایک دھواں سا معلوم ہوتا کیونکہ احتمال ہے کہ یہ دھواں زمین سے آسمان تک پھیلا ہو یا دونوں باتیں ہوئی ہوں، اکثر ایسا ہوتا ہے جب بارش بالکل نہیں ہوتی تو زمین بالکل گرم ہو کر اس میں سے ایک مادہ دھواں کی طرح نکلتا ہے۔
اٹالیا کی طرف تو ایسے (آتش فشاں)
پہاڑ موجود ہیں جن میں سے رات دن آگ نکلتی ہے وہاں دھواں رہتا ہے اور کبھی کبھی زمین میں سے یہ گرم مادہ نکل کر دور دور تک بہتا چلا گیا ہے اور جو چیز سامنے آئی درخت آدمی جانور وغیرہ اس کو جلا کر خاک سیاہ کر دیا ہے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4824
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4693
4693. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے خلاف بد دعا کی: ”اے اللہ! ان پر حضرت یوسف ؑ کے زمانے کا سا قحط نازل فرما۔“ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز ملیا میٹ ہو گئی، کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور اہل مکہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے، حتی کہ ان کی یہ کیفیت ہو گئی کہ کوئی شخص آسمان کی طرف نظر اٹھاتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: ”آپ اس دن کے منتظر رہیں جبکہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔“ اور فرمایا: ”بےشک ہم عذاب کو تھوڑا سا دور کر دیں گے تو تم پھر اپنی اسی حالت پر آ جاؤ گے۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ قیامت کے دن کا عذاب تو ٹلنے والا نہیں۔ الغرض دخان اور بطشہ جن کا ذکر سورہ دخان میں ہے، وہ آ چکا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4693]
حدیث حاشیہ:
اس روایت کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس میںحضرت یوسف ؑ کا ذکر ہے، قسطلانی نے کہا اس حدیث کی دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب قریش پر قحط کی سختی ہوئی تو ابو سفیان آنحضرت ﷺ کے پاس آیا کہنے لگا آپ کنبہ پروری کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے لئے دعا فرمایئے۔
آپ نے دعا کی اور قریش کا قصور معاف کر دیا جیسے حضرت یوسف ؑ نے بھائیوں کا قصور معاف کردیا تھا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4693
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4774
4774. حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جو منافقین کی قوت سماعت و بصارت کو ختم کر دے گا لیکن مومن پر اس کا اچر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سن کر بہت گھبرائے۔ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اس وقت وہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ (یہ سن کر) وہ بہت ناراض ہوئے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: جو شخص علم رکھتا ہو وہ تو بیان کرے اور جو علم نہیں رکھتا وہ کہے کہ اللہ بہتر جاننے والا ہے۔ اور یہ بھی علم ہے کہ انسان اپنی لا علمی کا اعتراف کرے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا کیونکہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی سے فرمایا ہے: ”کہہ دیجیے! میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں ہی سے ہوں۔“ اصل واقعہ یہ ہے کہ قریش نے جب اسلام لانے میں تاخیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4774]
حدیث حاشیہ:
رومی اہل کتاب تھے اور اہل فارس آتش پرست تھے جن کی رومیوں پر فتح ہونے سے مشرکین نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک دن اس طرح سے ہم بھی مسلمانوں پر غلبہ پائیں گے اور رومیوں کی طرح مسلمان بھی مغلوب ہو جائیں گے۔
اس پر اللہ پاک نے پیش گوئی فرمائی کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ رومی اہل فارس پر فتح پائیں گے۔
چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4774
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4693
4693. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے خلاف بد دعا کی: ”اے اللہ! ان پر حضرت یوسف ؑ کے زمانے کا سا قحط نازل فرما۔“ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز ملیا میٹ ہو گئی، کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور اہل مکہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے، حتی کہ ان کی یہ کیفیت ہو گئی کہ کوئی شخص آسمان کی طرف نظر اٹھاتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: ”آپ اس دن کے منتظر رہیں جبکہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔“ اور فرمایا: ”بےشک ہم عذاب کو تھوڑا سا دور کر دیں گے تو تم پھر اپنی اسی حالت پر آ جاؤ گے۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ قیامت کے دن کا عذاب تو ٹلنے والا نہیں۔ الغرض دخان اور بطشہ جن کا ذکر سورہ دخان میں ہے، وہ آ چکا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4693]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایات میں ہے کہ جب قریش پر قحط کی سختی ہوئی تو ابو سفیان نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی:
آپ کنبہ پروری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے لیے دعا فرمائیں کہ قحط سالی کا عذاب ٹل جائے۔
(صحیح البخاری، الاستسقاء، حدیث: 1007)
آپ نے دعا فرمائی اور قریش کا قصور معاف کردیا جیسے یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں اور عزیز مصر کی بیوی کو معاف کردیا تھا۔
عنوان اور اس حدیث میں یہی مناسبت ہے۔
(فتح الباری: 463/8)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4693
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4774
4774. حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جو منافقین کی قوت سماعت و بصارت کو ختم کر دے گا لیکن مومن پر اس کا اچر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سن کر بہت گھبرائے۔ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اس وقت وہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ (یہ سن کر) وہ بہت ناراض ہوئے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: جو شخص علم رکھتا ہو وہ تو بیان کرے اور جو علم نہیں رکھتا وہ کہے کہ اللہ بہتر جاننے والا ہے۔ اور یہ بھی علم ہے کہ انسان اپنی لا علمی کا اعتراف کرے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا کیونکہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی سے فرمایا ہے: ”کہہ دیجیے! میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں ہی سے ہوں۔“ اصل واقعہ یہ ہے کہ قریش نے جب اسلام لانے میں تاخیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4774]
حدیث حاشیہ:
1۔
عہدرسالت میں دو بڑی طاقتیں تھیں:
ایک فارس (ایران)
کی اور دوسری روم کی۔
اول الذکر حکومت آتش پرست اور دوسری عیسائی اہل کتاب کی تھی۔
مشرکین مکہ کی ہمدردیاں فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ وہ غیر اللہ کے پجاری تھے جبکہ مسلمانوں کی ہمدردیاں روم کی عیسائی حکومت کے ساتھ تھیں کیونکہ عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح اہل کتاب تھے اور وحی و رسالت پر ایمان رکھتے تھے۔
ان دونوں حکومتوں کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہوا کہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آگئی جس پر مشرکین کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا۔
اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں:
الم (1)
﴿غُلِبَتِ الرُّومُ﴾ (2)
﴿فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ﴾ 2۔
ان آیات میں پیش گوئی کی گئی کہ چند سال کے اندر رومی پھرغالب آجائیں گے۔
بظاہر یہ پشین گوئی ناممکن العمل معلوم ہوتی تھی لیکن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا، چنانچہ رومی نو سال کی مدت کےاندر اندر، یعنی ساتویں سال غالب آگئے، جس سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی۔
(جامع الترمذي، تفسیرالقرآن، حدیث: 3193)
3۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رومیوں کے غلبے کا واقعہ بھی وقوع پذیر ہوچکا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4774
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4809
4809. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا: لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اور جسے علم نہ ہو، اسے الله أعلم کہہ دینا چاہیے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ سے کہہ دیا تھا: ”آپ کہہ دیں! میں اس تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہی ہوں۔“ اب میں تمہیں دھوئیں کے متعلق بتاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں تاخیر کی۔ تب آپ ﷺ نے ان کے خلاف بددعا کی: ”اے اللہ! تو ان پر یوسف ؑ کے زمانے کے سات سالوں کی طرح سات سالوں کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔“ چنانچہ قحط نے ان کو پکڑا اور اتنا زبردست پکڑا کہ ہر چیز کو اس نے ختم کر دیا۔ لوگ مردار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4809]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وضاحت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص نے قبیلہ کنندہ میں حدیث بیان کرتے ہوئے کہا:
قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جو منافقین کی قوت بصارت وسماعت کو ختم کردے گا لیکن مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہوگا۔
مسروق کہتے ہیں کہ ہم اس کی یہ بات سن کر بہت گھبرائے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے یہ وضاحت فرمائی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4774)
2۔
کیا قیامت کا عذاب بھی ان سے دور کیا جائے گا؟ یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔
مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کا عذاب نہیں بلکہ دنیا میں سزا کا بیان ہے۔
قیامت کے عذاب میں تخفیف ممکن نہیں بلکہ وہاں تو ان کی سخت پکڑ ہوگی اور کوئی چیز بھی انھیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے گی۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصد یہ ہے کہ عام معاملات زندگی میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلف سے منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے فرمایا:
ہمیں تکلفات سے منع کیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب و السنة، حدیث: 7293)
اس سے معلوم ہوا کہ لباس، خوراک، رہائش اور دیگر معاملات زندگی میں تکلف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
اسلام میں سادگی اور بے تکلفی اختیار کرنے کی تلقین وترغیب ہے۔
لیکن آج کل میعار زندگی بلند کرنے کے لیے تکلف اصحاب حیثیت لوگوں کا شعار اور وتیرہ بن چکا ہے۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4809
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4821
4821. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ کی نافرمانی کی تو آپ نے ان پر قحط سالی کی بد دعا کی، جیسے حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔ لوگوں کو قحط سالی اور مشقت نے اس طرح پکڑا کہ وہ ہڈیاں کھانے لگے۔ اس دوران میں جب آدمی آسمان کی طرف دیکھتا تو اس مشقت کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ”آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لائے گا۔ وہ دھواں لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ دردناک عذاب ہے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک وفد آیا اور انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی سے قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا فرمائیں وہ تو ہلاک و برباد ہو چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم بڑے جراءت مند ہو کر مضر قبیلے کے لیے دعا کی سفارش کرتے ہو۔“ بہرحال آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4821]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف ہے کہ "دخان" کا واقعہ گزر چکا ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق "دخان" دو ہیں۔
ان میں سے ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ظاہر ہو چکا ہے اور دوسرا قرب قیامت کے وقت ظاہر ہو گا جیسا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم کیا گفتگو کر رہے ہو؟“ ہم نے کہا قیامت کا ذکر کر رہیں ہیں۔
آپ نے فرمایا:
”بلا شبہ وہ قیامت ہر گز قائم نہیں ہو گی حتی کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں دیکھ لو۔
آپ نے دھویں اور دجال کا ذکر کیا۔
“ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7285۔
(2901)
2۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ دخان دو ہیں ایک تو گزر چکا ہے اور دوسرا وہ ہو گا جس سے زمین و آسمان کا خلا بھرجائے گا مومن پر تو اس کاا ثر زکام جیسا ہو گا۔
مگر کافروں کے کان اس سے پھٹ جائیں گے۔
(التذکرة للقرطبي، ص: 655)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4821
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4822
4822. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا: بلاشبہ یہ بھی علم (دانشمندی) ہے کہ جس چیز کو تو نہ جانتا ہو تو کہہ دے: اللہ ہی جانتا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے: ”کہہ دیں! میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹی باتیں کرتا ہوں۔“ ہوا یوں کہ جب قریش نے نبی ﷺ پر غلبہ حاصل کر لیا اور آپ کی نافرمانی کی تو آپ نے بددعا کی: ”اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعے سے فر جیسا کہ یوسف ؑ کے زمانے میں قحط پڑا تھا۔“ اس بد دعا کے نتیجے میں انہیں خشک سالی نے پکڑ لیا اور ایسا قحط پڑا کہ بھوک کی وجہ سے لوگ ہڈیاں اور مردار تک کھانے لگے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو بھوک اور فاقے کی وجہ سے دھویں کے سوا انہیں اور کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ آخر انہوں نے کہا: ”اے ہمارے رب! ہم سے اس عذاب کو دور کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4822]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں ایک قصہ خواں پر تعریض ہے وہ شخص قبیلہ کندہ میں وعظ و نصیحت کر رہا تھا دوران تقریر میں اس نے کہا:
قیامت کے دن دھواں آئے گا جو منافقین کی سماعت و بصارت کو سلب کر لے گا اور مومن کو صرف زکام کا عارضہ لا حق ہو گا۔
ہم گھبرا کر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے یہ واقعہ بیان کیا تو وہ غصے سے بھر گئے اور تکیہ چھوڑ کر بیٹھ گئے اور یہ حدیث بیان کی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4774)
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کافروں کے غلبے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مانی اور کفر وشرک پر جمے رہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر متعدد عنوان قائم کیے ہیں مقصد یہ ہے کہ مذکورہ آیات کا پس منظر یہی واقعہ ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4822
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4823
4823. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ سرکشی کی روش اختیار کی، آپ نے ان کے لیے بددعا کی: ”اے اللہ! میری ان کے خلاف یوسف ؑ کے دور جیسے قحط کے ذریعے سے مدد فرما۔“ چنانچہ قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہو گئی حتی کہ لوگ مردار کھانے لگے۔ اگر کوئی شخص کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک اور فاقے کی وجہ سے آسمان اور اس کے درمیان دھواں ہی دھواں نظر آتا، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی: ”آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان سے ایک نمایاں دھواں نمودار ہو گا۔۔ بےشک ہم تھوڑی دیر کے لیے عذاب دور کرنے والے ہیں، بلاشبہ تم دوبارہ وہی کرنے والے ہو۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: کیا قیامت کا عذاب بھی ان سے دور کر دیا جائے گا؟ نیز فرمایا: سخت پکڑ (ٱلْبَطْشَةَ ٱلْكُبْرَىٰٓ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4823]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے متعلق ہماری گزارشات پہلے گزر چکی ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کے مطابق "الدخان" کا واقعہ گزر چکا ہے لیکن قریش کو جو آسمان کے نیچے دھواں نظر آتا تھا وہ ان کا وہم تھا وہ حقیقی دھواں نہیں تھا۔
لیکن آیت میں جس دھویں کا ذکر ہے اس سے مراد حقیقی دھواں ہے جو لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ارشاد الٰہی:
”یہ درد ناک عذاب ہے۔
“ کے معنی یہ ہیں کہ جب دھواں انھیں پریشان کرے گا تو لوگوں سے کہا جائے گا۔
کہ یہ درد ناک عذاب ہے اس کے متعلق ہم اپنا موقف پہلے بیان کر چکے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4823
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4824
4824. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور فرمایا ہے: ”آپ کہہ دیں: میں تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف سے باتیں بناتا ہوں۔“ رسول اللہ ﷺ نے جب قریش کو دیکھا کہ انہوں نے نافرمانی کی ہے تو اللہ تعالٰی سے دعا مانگی: ”اے اللہ! ان پر سات برس کا قحط مسلط فرما جس طرح حضرت یوسف ؑ کی قوم پر بھیجا تھا، اس طرح میری ان کے خلاف مدد فرما۔“ چنانچہ انہیں ایسی قحط سالی نے پکڑا کہ جس نے ہر چیز ختم کر دی حتی کہ وہ ہڈیاں اور چمڑے کھانے لگے۔ ان (راویانِ حدیث: سلیمان اور منصور) میں سے ایک نے کہا: حتی کہ وہ (مشرکین مکہ) چمڑے اور مردار بھی کھا گئے۔ زمین سے دھوئیں کی طرح کچھ برآمد ہوتا تھا، آپ کے پاس ابوسفیان آئے اور عرض کیا: اے محمد! آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کریں کہ وہ لوگوں سے عذاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4824]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں ہے کہ دھواں زمین سے نکلتا تھا جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ یہ دھواں دیکھنے والے اور آسمان کے درمیان تھا؟ ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ یہ بھی کفار کا گمان تھا کہ دھواں زمین سے نکلتا ہے جیسے وہ گمان تھا کہ ان کے اور آسمان کے درمیان دھواں ہے لہذا دونوں احادیث میں کوئی منافات نہیں ہے۔
2۔
اس کی ایک توجیہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ مسلسل بارش کے بند رہنے کی وجہ سے فضا بالکل گرم ہو گئی تھی تو زمین سے بخارات اوپر کو اٹھنے لگے پھر فضا میں چھا گئے اس لیے ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کہ شروع میں دھواں زمین سے نکلتا نظر آتا۔
پھر آخر میں آسمان تک نظر آنے لگا۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4824