حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، وعروة بن الزبير، ان حكيم بن حزام رضي الله عنه، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم قال لي:" يا حكيم، إن هذا المال خضر حلو، فمن اخذه بسخاوة نفس بورك له فيه، ومن اخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، وكان كالذي ياكل ولا يشبع، واليد العليا خير من اليد السفلى". قال حكيم، فقلت: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق لا ارزا احدا بعدك شيئا حتى افارق الدنيا، فكان ابو بكر يدعو حكيما ليعطيه العطاء، فيابى ان يقبل منه شيئا، ثم إن عمر دعاه ليعطيه، فيابى ان يقبله، فقال: يا معشر المسلمين، إني اعرض عليه حقه الذي قسم الله له من هذا الفيء، فيابى ان ياخذه، فلم يرزا حكيم احدا من الناس بعد النبي صلى الله عليه وسلم حتى توفي رحمه الله.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أن حكيم بن حزام رضي الله عنه، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ لِي:" يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى". قَالَ حَكِيمٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا لِيُعْطِيَهُ الْعَطَاءَ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، إِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ الَّذِي قَسَمَ اللَّهُ لَهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ، فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام اوزاعی نے خبر دی ‘ انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر سے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) نے بیان کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ نے مجھ کو دیا ‘ پھر مانگا پھر آپ نے دیا ‘ پھر فرمانے لگے حکیم یہ دنیا کا روپیہ پیسہ دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں شیریں ہے لیکن جو کوئی اس کو سیر چشمی سے لے اس کو برکت ہوتی ہے اور جو کوئی جان لڑا کر حرص کے ساتھ اس کو لے اس کو برکت نہ ہو گی۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کماتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم نے عرض کیا یا رسول اللہ! قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں تو آج سے آپ کے بعد کسی سے کوئی چیز کبھی نہیں لوں گا مرنے تک پھر (حکیم کا یہ حال رہا) کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کا سالانہ وظیفہ دینے کے لیے ان کو بلاتے ‘ وہ اس کے لینے سے انکار کرتے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں ان کو بلایا ان کا وظیفہ دینے کے لیے لیکن انہوں نے انکار کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مسلمانو! تم گواہ رہنا حکیم کو اس کا حق جو لوٹ کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں وہ نہیں لیتا۔ غرض حکیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر کسی شخص سے کوئی چیز قبول نہیں کی (اپنا وظیفہ بھی بیت المال میں نہ لیا) یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ اللہ ان پر رحم کرے۔
Narrated `Urwa bin Az-Zubair: Hakim bin Hizam said, "I asked Allah's Apostle for something, and he gave me, and I asked him again and he gave me and said, 'O Hakim! This wealth is green and sweet (i.e. as tempting as fruits), and whoever takes it without greed then he is blessed in it, and whoever takes it with greediness, he is not blessed in it and he is like one who eats and never gets satisfied. The upper (i.e. giving) hand is better than the lower (i.e. taking) hand." Hakim added, "I said, O Allah's Apostle! By Him Who has sent you with the Truth I will never demand anything from anybody after you till I die." Afterwards Abu Bakr used to call Hakim to give him something but he refused to accept anything from him. Then `Umar called him to give him (something) but he refused. Then `Umar said, "O Muslims! I offered to him (i.e. Hakim) his share which Allah has ordained for him from this booty and he refuses to take it." Thus Hakim did not ask anybody for anything after the Prophet, till he died--may Allah bestow His mercy upon him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 13
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2750
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت حکیم بن حزام ؓ کو عطیہ قبول کرنے میں عدم رغبت کی طرف توجہ دلائی اور عطیہ لینے والے کے ہاتھ کو نچلا ہاتھ بتایا۔ وصیت بھی صدقے کی طرح ہے، اس لیے اسے قبول کرنے والے کا ہاتھ ید سفلی ہو گا جبکہ قرض کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس میں وصول کرنے والے کا ہاتھ نچلا نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی دی ہوئی رقم وصول کر رہا ہے، اس لیے اسے وصول کرنے کے لیے زبردستی کی جا سکتی ہے۔ اس اعتبار سے قرض، عطیے اور صدقے سے قوی ہے، لہذا اسے مقدم کرنا چاہیے۔ (2) حضرت عمر ؓ نے ان کی حق دہی کے متعلق بہت کوشش کی اور قرض کی طرح انہیں اس کا حق دار قرار دیا۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جب قرض متعین ہو تو نفلی صدقہ کرنے سے پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2750
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2532
´اوپر والے ہاتھ (یعنی دینے والے) کی فضیلت کا بیان۔` حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا پھر آپ نے دیا، پھر مانگا، تو فرمایا: ”یہ مال سرسبز و شیریں چیز ہے، جو شخص اسے فیاضی نفس کے ساتھ لے گا تو اس میں برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہ ملے گی، اور اس شخص کی طرح ہو گا جو کھاتا ہے مگر آسودہ نہیں ہوتا (یعنی مانگنے والے کا پیٹ نہیں بھرتا)۔ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہات [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2532]
اردو حاشہ: (1)”سبز وشیریں“ سبز چارہ جانوروں کو بہت مرغوب ہوتا ہے اور میٹھی چیز عموماً انسانوں کو بہت پسند ہوتی ہے، اس لیے مال کو دو چیزوں سے تشبیہ دی گئی۔ (2)”دل کی پاکیزگی۔“ یعنی دل میں طمع اور لالچ نہ ہو اور نہ اس نے مانگا ہی ہو۔ یا دینے والے نے اسے خوشی سے دیا ہو، نہ کہ مجبوراً یا بغیر مانگے دیا ہو۔ (3)”دل کے طمع وحرص۔“ یعنی لینے والے کی یہ حالت ہو یا دینے والے نے طمع اور لالچ سے دیا ہو کہ مجھے زیادہ واپس ملے گا۔ (4)”سیر نہیں ہوتا۔“ کیونکہ دل غنی نہیں۔ دل غنی ہو تو تھوڑا بھی کافی محسوس ہوتا ہے ورنہ ڈھیر بھی مطمئن نہیں کر سکتے۔ (5)”اوپر والا ہاتھ۔“ یعنی دینے والا کیونکہ وہ بلند رہتا ہے۔ کسی کے سامنے ذلیل نہیں ہوتا۔ (6)”نیچے والے ہاتھ“ یعنی مانگنے والا۔ وہ حقیقتاً بھی دینے والے کے ہاتھ کے نیچے ہوتا ہے اور رتبے کے لحاظ سے بھی کم ہوتا ہے۔ (7) حدیث کا مقصود یہ ہے کہ انتہائی حاجت کے بغیر نہیں مانگنا چاہیے اور اگر خود بخود ملے تو پھر بھی دل میں حرص وطمع نہیں ہونا چاہیے اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو مانگنے سے رک جانا چاہیے بلکہ کسی کا دیا بھی قبول نہ کرے۔ اس میں عزت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2532
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2602
´آدمی کا ایسی چیز مانگنا جس کے بغیر چارہ نہیں۔` حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا: ”یہ مال ہری بھری اور میٹھی چیز ہے، جو شخص اسے دل کی پاکیزگی کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت ملے گی، اور جو شخص اسے نفس کی حرص و طمع سے لے گا تو اس میں اسے برکت نہیں دی جائے گی۔ وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھائے لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔ (جان لو) اوپر والا (یعنی دینے والا) ہاتھ نیچے والے (یعنی لینے وا [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2602]
اردو حاشہ: برکت سے مراد یہ ہے کہ تھوڑا مال بھی کفایت کر جائے گا اور برکت نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ کثیر مال کے باوجود بھی وہ فقیر رہے گا۔ یا تو حقیقتاً کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناگہانی آفات طاری کرتا رہے گا جس سے مال ضائع ہوتا رہے گا یا ظاہراً کہ وہ فقیروں جیسا کردار ظاہر کرے گا، مثلاً: لوگوں کے مال پر نظر رکھے گا، وغیرہ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث: 2532)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2602
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2604
´آدمی کا ایسی چیز مانگنا جس کے بغیر چارہ نہیں۔` حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اے حکیم! یہ مال میٹھی چیز ہے، جو شخص اسے نفس کی فیاضی کے ساتھ لے گا تو اس میں اسے برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہیں دی جائے گی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھائے تو لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔ اور (جان لو) اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے وال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2604]
اردو حاشہ: حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اس قسم وعہد پر اس قدر پختہ رہے کہ بعد میں خلفائے راشدین انھیں بیت المال سے ان کا وظیفہ دیتے تو اسے بھی قبول نہ فرماتے۔ فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر فرمایا تھا: ”اے مسلمانوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کی جماعت! تم گواہ رہو کہ میں حکیم کو ان کا حق دیتا ہوں لیکن وہ اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں۔“(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1472) اسی حال میں خالق حقیقی سے جاملے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2604
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2387
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال مانگا تو آپﷺ نے مجھے عطا فرمایا: میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے دیا۔ میں نے آپﷺ سے پھر سوال کیا تو آپﷺ نے مجھے عنایت کر دیا۔ پھر فرمایا: ”یہ مال سر سبز و شاداب ہے۔ (آنکھوں کو لبھانے والا ہے) اور شریں ہے (دلکش ہے) تو جو اسے نفس کی چاہت و طمع کے بغیر لے گا۔ اس کے لیے باعث برکت ہو گا۔ اور جو نفس کی حرص و... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2387]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: انسان کے امتحان کے لیے اللہ تعالیٰ نے مال کے اندر دو پہلو رکھے ہیں ظاہر کے اعتبار سے وہ آنکھوں کے لیے کشش کا باعث ہے انسان کی آنکھوں میں جچتا ہے اور باطنی اعتبار سے اس کے اندر شیرینی اور مٹھاس ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کا دل اس کی طرف مائل ہوتا ہے یا دلکش اور دل فریب ہے اور انسان کے حق میں بہتریہی ہے وہ اپنی محنت اور کوشش سے کمائے مفت میں مال لینے کا حریص اور خواہش مند نہ ہو اگر کہیں سے اسی کی طلب و خواہش کے بغیر مل جائے تو اس کو لے کر آگے خرچ کردے مال کی حرص آرزو ایسی بھوک ہے جو کبھی مٹنے کا نام نہیں لیتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2387
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1472
1472. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو بھی آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے مجھے پھر بھی دے دیا اور اس کے بعد فرمایا:”حکیم! یہ مال سبزوشریں ہے۔ جو شخص اس کو سخاوت نفس کے ساتھ لیتا ہے اسے برکت عطا ہوتی ہے۔ اور جوطمع کے ساتھ لیتا ہے۔ اس کواس میں برکت نہیں دی جاتی اور ایسا آدمی اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا تو ہے مگر سیر نہیں ہوتا، نیز اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں:میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ!اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق دے کر بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا یہاں تک کو دنیا س چلاجاؤں۔ چنانچہ جب ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے تو وہ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے رہے مگر انھوں نے قبول کرنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1472]
حدیث حاشیہ: حکیم بن حزام ؓ کی کنیت ابوخالد قریشی اسدی ہے۔ یہ حضرت ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے بھتیجے ہیں۔ واقعہ فیل سے تیرہ سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوئے۔ یہ قریش کے معزز ترین لوگوں میں سے ہیں۔ جاہلیت اور اسلام ہر دو زمانوں میں بڑی عزت ومنزلت کے مالک رہے۔ فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔ 64ھ میں اپنے مکان کے اندر مدینہ میں وفات پائی۔ ان کی عمر ایک سوبیس سال کی ہوئی۔ ساٹھ سال عہد جاہلیت میں گزارے اور ساٹھ سال زمانہ اسلام میں زندگی پائی۔ بڑے زیرک اور فاضل متقی صحابہ میں سے تھے زمانہ جاہلیت میں سوغلاموں کو آزاد کیا۔ اور سو اونٹ سواری کے لیے بخشے۔ وفات نبوی کے بعد یہ مدت تک زندہ رہے یہاں تک کہ معاویہ ؓ کے عہد میں بھی دس سال کی زندگی پائی۔ مگر کبھی ایک پیسہ بھی انہوں نے کسی سے نہیں لیا۔ جو بہت بڑے درجے کی بات ہے۔ اس حدیث میں حکیم انسانیت رسول کریم ﷺ نے قانع اور حریص کی مثال بیان فرمائی کہ جو بھی کوئی دنیاوی دولت کے سلسلہ میں قناعت سے کام لے گا اور حرص اور لالچ کی بیماری سے بچے گا اس کے لیے برکتوں کے دروازے کھلیں گے اور تھوڑا مال بھی اسکے لیے کافی ہوسکے گا۔ اس کی زندگی بڑے ہی اطمینان اور سکون کی زندگی ہوگی۔ اور جو شخص حرص کی بیماری اور لالچ کے بخار میں مبتلا ہوگا اس کا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا خواہ اس کو ساری دنیا کی دولت حاصل ہوجائے وہ پھر بھی اسی چکر میں رہے گا کہ کسی نہ کسی طرح سے اور زیادہ مال حاصل کیا جائے۔ ایسے طماع لوگ نہ اللہ کے نام پر خرچ کرنا جانتے ہیں نہ مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ نہ کشادگی کے ساتھ اپنے اور اپنے اہل وعیال ہی پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بہت ہی بھیانک تصویر نظرآتی ہے۔ فخر موجودات ﷺ نے ان ہی حقائق کو اس حدیث مقدس میں بیان فرمایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1472
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3143
3143. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مال مانگا تو آپ نے مجھے عطا فرمایا۔ پھر میں نے دوبارہ مانگ تو اس مرتبہ بھی آپ نے عطا کیا اور ارشاد فرمایا: ”اے حکیم! یہ مال(دیکھنے میں) بہت دلربا اور شیریں ہے لیکن جو شخص اسے سیر چشمی سے لے تو اس کے لیے اس میں بہت برکت ہوگی اور جس نے حرص ولالچ سے اس لیا، اس کے لیے اس میں کوئی برکت نہیں ہے بلکہ وہ تو اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے مگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اوپر والاہاتھ (دینے والا)نیچے والے ہاتھ(لینے والے) سے بہتر ہےہوتا ہے۔“ حضرت حکیم بن حزام ؓ نے (متاثر ہوکر) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا یہاں تک کہ میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ چنانچہ حضرت ابو بکر ؓ نے ان کو عطیہ دینے کے لیے بلایا تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے انھیں مال عطیہ کرنے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3143]
حدیث حاشیہ: ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت حکیم بن حزام ؓ نئے نئے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، آپ نے ان کی تالیف قلب کے لیے ان کو دو دو بار روپیہ دیا۔ بعد میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی سن کر حضرت حکيمؓ نے تاحیات اپنے وعدے کو نبھایا اوراپنا جائز حق بھی چھوڑدیا کہ کہیں نفس کو اس طرح مفت خوری کی عادت نہ ہوجائے۔ مردان حق ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جو اس دنیا میں کبریت احمر کا حکم رکھتے ہیں۔ إلا ماشاءاللہ۔ آج کی دنیا میں جسے ایسی باتیں کرتا پاؤ اس کے اندر جائزہ لوگے تو معلوم ہوگا کہ یہی خود دنیا کا بدترین حریص ہے۔ إلا ماشاءاللہ۔ یہی حال بہت سے مدعیان تدین کا ہے جو ظاہر میں بڑے حق گو اور اندرون خانہ بدترین بدمعاملہ ثابت ہوتے ہیں۔ إلامن رحمه اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3143
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6441
6441. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر سوال کیا تو آپ نے دیا۔ میں نے تیسری مرتبہ مانگا تو آپ ﷺ نے عطا کیا، پھر فرمایا: ”اے حکیم! دنیا کا یہ مال شیریں اور ہرابھرا (خوشگوار) نظر آتا ہے، لہذا جو شخص اسے نیک نیتی سے حرص کے بغیر لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو اسے لالچ اور طمع کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے، جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6441]
حدیث حاشیہ: اوپر کا ہاتھ سخی کا ہاتھ اور نیچے کا ہاتھ صدقہ خیرات لینے والے کا ہاتھ ہے۔ سخی کا درجہ بہت اونچا ہے اورلینے والے کا نیچا۔ مگر آیت کریمہ ﴿لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى﴾(البقرة: 264) کے تحت معطی کا فرض ہے کہ دینے والے کو حقیر نہ جانے اس پر احسان نہ جتلائے نہ اور کچھ ذھنی تکلیف دے ورنہ اس کے صدقہ کا ثواب ضائع ہو جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6441
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1472
1472. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو بھی آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے مجھے پھر بھی دے دیا اور اس کے بعد فرمایا:”حکیم! یہ مال سبزوشریں ہے۔ جو شخص اس کو سخاوت نفس کے ساتھ لیتا ہے اسے برکت عطا ہوتی ہے۔ اور جوطمع کے ساتھ لیتا ہے۔ اس کواس میں برکت نہیں دی جاتی اور ایسا آدمی اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا تو ہے مگر سیر نہیں ہوتا، نیز اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں:میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ!اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق دے کر بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا یہاں تک کو دنیا س چلاجاؤں۔ چنانچہ جب ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے تو وہ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے رہے مگر انھوں نے قبول کرنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1472]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے بغیر کسی دوسرے سے سوال کرنا حرام ہے۔ محنت و مزدوری پر قدرت رکھنے والے کے لیے یہی حکم ہے، البتہ بعض حضرات نے تین شرائط کے ساتھ کچھ گنجائش پیدا کی ہے: ٭ اصرار نہ کرے۔ ٭ اپنی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے۔ ٭ اور جس سے سوال کرے اسے تکلیف نہ دے۔ اگر یہ شرائط نہ ہوں تو سوال کرنا بالاتفاق حرام ہے، نیز اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے صابر اور حریص کی جزا بیان فرمائی ہے کہ جو بھی دنیوی دولت کے سلسلے میں قناعت سے کام لے گا اور حرص و لالچ کی بیماری سے خود کو بچائے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ برکتوں کے دروازے کھول دے گا اور تھوڑا مال بھی اس کے لیے کافی ہو سکے گا اور اس کی زندگی بڑے اطمینان اور سکون سے گزرے گی۔ اس کے برعکس جو شخص حرص اور لالچ کا شکار ہو گا اس کا پیٹ کسی صورت نہیں بھرے گا، خواہ اسے دنیا کی تمام دولت مل جائے۔ ایسے لوگ نہ تو اللہ کے نام پر کچھ دیتے ہیں اور نہ اپنی دولت سے مخلوق ہی کو فائدہ پہنچاتے ہیں بلکہ اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ نہیں کرتے۔ (2) موجودہ دور میں اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو بہت ہی بھیانک تصویر نظر آتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دنیا کے مال کو خوشگوار اور شیریں قرار دیا ہے، خوشگوار مال دیکھنے میں مرغوب اور شیریں مال چمک دمک میں پسندیدہ ہوتا ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں تو اس کے حصول کے لیے رغبت مزید بڑھ جاتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1472
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3143
3143. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مال مانگا تو آپ نے مجھے عطا فرمایا۔ پھر میں نے دوبارہ مانگ تو اس مرتبہ بھی آپ نے عطا کیا اور ارشاد فرمایا: ”اے حکیم! یہ مال(دیکھنے میں) بہت دلربا اور شیریں ہے لیکن جو شخص اسے سیر چشمی سے لے تو اس کے لیے اس میں بہت برکت ہوگی اور جس نے حرص ولالچ سے اس لیا، اس کے لیے اس میں کوئی برکت نہیں ہے بلکہ وہ تو اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے مگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اوپر والاہاتھ (دینے والا)نیچے والے ہاتھ(لینے والے) سے بہتر ہےہوتا ہے۔“ حضرت حکیم بن حزام ؓ نے (متاثر ہوکر) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا یہاں تک کہ میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ چنانچہ حضرت ابو بکر ؓ نے ان کو عطیہ دینے کے لیے بلایا تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے انھیں مال عطیہ کرنے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3143]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ فتح مکہ کے وقت نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تالیف قلب کے لیے انھیں دوبارہ مال دیا بعد میں آپ کا وعظ سن کروہ اس قدر متاثر ہوئے کہ وعدہ کیا کہ آئندہ میں کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا۔ چنانچہ وہ تاحیات اپنے وعدے پر قائم رہے اور اپنا جائز حق بھی چھوڑدیا کہ کہیں نفس مفت خوری کا عادی نہ بن جائے۔ 2۔ مؤلفہ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہوئے ہوں لیکن دلی طور پر کمزور ہوں اور اسلام ان کے دل میں ابھی پختہ نہ ہوا ہو یا ایسے غیر مسلم مراد ہیں جن کے اسلام لانے کی توقع ہو۔ رسول اللہﷺ ایسے حضرات کی مال خمس سے دلجوئی کرتے تھے اس حدیث سے بھی امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ خمس کا مال امام کی صوابدید پر موقوف ہے وہ جہاں چاہے اسے خرچ کرے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3143
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6441
6441. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر سوال کیا تو آپ نے دیا۔ میں نے تیسری مرتبہ مانگا تو آپ ﷺ نے عطا کیا، پھر فرمایا: ”اے حکیم! دنیا کا یہ مال شیریں اور ہرابھرا (خوشگوار) نظر آتا ہے، لہذا جو شخص اسے نیک نیتی سے حرص کے بغیر لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو اسے لالچ اور طمع کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے، جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6441]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دنیا کے متعلق حرص، طمع اور لالچ سے خبردار کیا ہے کہ اس نیت سے جو مال حاصل ہو گا، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و برکت نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو اس قسم کی طمع و لالچ سے بچاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو دنیا سے اسے اس طرح محفوظ رکھتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے پرہیز کراتا ہے جبکہ اسے پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو۔ “(مسند أحمد: 428/5)(2) دراصل دنیا کی مال داری وہی بری ہے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے اور جس میں مشغول ہونے سے انسان کی آخرت کا راستہ کھوٹا ہو جائے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو جن لوگوں سے محبت ہوتی ہے انہیں اس طرح مال سمیٹنے سے بچاتا ہے جس طرح ہم اپنے مریضوں کو پانی سے پرہیز کراتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6441