صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
The Book of Ar-Riqaq (Softening of The Hearts)
7. بَابُ مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَالتَّنَافُسِ فِيهَا:
7. باب: دنیا کی بہار اور رونق اور اس کی ریجھ کرنے سے ڈرنا۔
(7) Chapter. The warning regarding worldly pleasures, amusements and competing against each other for the enjoyment thereof.
حدیث نمبر: 6425
Save to word مکررات اعراب English
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال: حدثني إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة، عن موسى بن عقبة، قال ابن شهاب: حدثني عروة بن الزبير، ان المسور بن مخرمة، اخبره، ان عمرو بن عوف وهو حليف لبني عامر بن لؤي، كان شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، اخبره: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث ابا عبيدة بن الجراح إلى البحرين، ياتي بجزيتها وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو صالح اهل البحرين، وامر عليهم العلاء بن الحضرمي، فقدم ابو عبيدة بمال من البحرين، فسمعت الانصار بقدومه، فوافته صلاة الصبح مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما انصرف تعرضوا له، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين رآهم، وقال:" اظنكم سمعتم بقدوم ابي عبيدة، وانه جاء بشيء"، قالوا: اجل، يا رسول الله، قال:" فابشروا واملوا ما يسركم، فوالله ما الفقر اخشى عليكم، ولكن اخشى عليكم ان تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم، فتنافسوها كما تنافسوها، وتلهيكم كما الهتهم".حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، كَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَع رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ، يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمُ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، فَسَمِعَتِ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِهِ، فَوَافَتْهُ صَلَاةَ الصُّبْحِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ تَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ، وَقَالَ:" أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ، وَأَنَّهُ جَاءَ بِشَيْءٍ"، قَالُوا: أَجَلْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا، وَتُلْهِيَكُمْ كَمَا أَلْهَتْهُمْ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور انہیں مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو بنی عامر بن عدی کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، انہوں نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بحرین وہاں کا جزیہ لانے کے لیے بھیجا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور ان پر علاء بن الحضرمی کو امیر مقرر کیا تھا۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے جزیہ کا مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کے متعلق سنا اور صبح کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا میرا خیال ہے کہ ابوعبیدہ کے آنے کے متعلق تم نے سن لیا ہے اور یہ بھی کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہیں خوشخبری ہو تم اس کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر دے گی، اللہ کی قسم! فقر و محتاجی وہ چیز نہیں ہے جس سے میں تمہارے متعلق ڈرتا ہوں بلکہ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی، جس طرح ان لوگوں پر کر دی گئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور تم بھی اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور تمہیں بھی اسی طرح غافل کر دے گی جس طرح ان کو غافل کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Amr bin `Auf: (An ally of the tribe of Bani 'Amir bin Lu'ai and one of those who had witnessed the battle of Badr with Allah's Apostle) Allah's Apostle sent Abu 'Ubaida bin AlJarrah to Bahrain to collect the Jizya tax. Allah's Apostle had concluded a peace treaty with the people of Bahrain and appointed Al 'Ala bin Al-Hadrami as their chief; Abu Ubaida arrived from Bahrain with the money. The Ansar heard of Abu 'Ubaida's arrival which coincided with the Fajr (morning) prayer led by Allah's Apostle. When the Prophet finished the prayer, they came to him. Allah's Apostle smiled when he saw them and said, "I think you have heard of the arrival of Abu 'Ubaida and that he has brought something." They replied, "Yes, O Allah's Apostle! " He said, "Have the good news, and hope for what will please you. By Allah, I am not afraid that you will become poor, but I am afraid that worldly wealth will be given to you in abundance as it was given to those (nations) before you, and you will start competing each other for it as the previous nations competed for it, and then it will divert you (from good) as it diverted them." '
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 433


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
   صحيح البخاري3158مسور بن مخرمةلا الفقر أخشى عليكم ولكن أخشى عليكم أن تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتهلككم كما أهلكتهم
   صحيح البخاري6425مسور بن مخرمةما الفقر أخشى عليكم ولكن أخشى عليكم أن تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتلهيكم كما ألهتهم
   صحيح البخاري4015مسور بن مخرمةما الفقر أخشى عليكم ولكني أخشى أن تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتهلككم كما أهلكتهم
   صحيح مسلم7425مسور بن مخرمةما الفقر أخشى عليكم ولكني أخشى عليكم أن تبسط الدنيا عليكم كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتهلككم كما أهلكتهم
   جامع الترمذي2462مسور بن مخرمةما الفقر أخشى عليكم ولكني أخشى أن تبسط الدنيا عليكم كما بسطت على من قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها فتهلككم كما أهلكتهم
   سنن ابن ماجه3997مسور بن مخرمةما الفقر أخشى عليكم ولكني أخشى عليكم أن تبسط الدنيا عليكم كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها فتهلككم كما أهلكتهم

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6425 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6425  
حدیث حاشیہ:
ہو بہو یہی ہوا بعد کے زمانوں میں مسلمان محبت دنیاوی میں پھنس کر اسلام اور فکر آخرت سے غافل ہوگئے جس کے نتیجہ میں بے دینی پیدا ہوگئی اور وہ آپس میں لڑنے لگے جس کا نتیجہ یہ انحطاط ہے جس نے آج دنیائے اسلام کو گھیر رکھا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6425   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6425  
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ اگلی قوموں اور امتوں کا تجربہ تھا کہ جب ان کے ہاں دنیا کی ریل پیل ہوئی تو ان میں دنیوی حرص اور دولت کی چاہت اور زیادہ بڑھ گئی، پھر وہ دنیا کے دیوانے اور متوالے ہو گئے اور اصل مقصد زندگی کو فراموش کر دیا، پھر اس وجہ سے ان میں باہمی حسد و بغض بھی پیدا ہوا، بالآخر دنیا پرستی نے انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے متعلق بھی اس قسم کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ نے اس خطرے سے آگاہ کیا اور فرمایا:
'مجھے تم پر فقر و ناداری کے حملے کا اتنا ڈر نہیں بلکہ اس کے برعکس دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر تمہارے ہلاک ہونے کا مجھے زیادہ خوف اور ڈر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدعا اس خوش نما فتنے کی خطرناکی سے امت کو آگاہ کرنا ہے۔
بعد میں آنے والے حالات سے یہ واضح ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور مسلمان دنیاوی محبت میں پھنس کر اسلام اور فکر آخرت سے غافل ہو گئے جس کے نتیجے میں بے دینی اور انحطاط نے دنیائے اسلام کو گھیر رکھا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجا طور پر فرمایا ہے:
اگر ابن آدم کے پاس خزانوں سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کی تلاش میں نکل کھڑا ہو گا۔
ابن آدم کا پیٹ کو صرف قبر کی مٹی ہی بھرے گی، اللہ تعالیٰ تو اپنی مہربانی اس پر کرتا ہے جو اپنا رخ اس کی طرف کر لیتا ہے۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6436)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6425   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3997  
´مال دولت کا فتنہ۔`
عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو بنو عامر بن لوی کے حلیف تھے اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین کا جزیہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی، اور ان پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا، ابوعبیدہ (ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ) بحرین سے مال لے کر آئے، اور جب انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی تو سب نماز فجر میں آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، پھر جب آپ نماز پڑھ کر لوٹے، تو راستے م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3997]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دولت ایک آزمائش ہے۔
اس کی حرص کی وجہ سے ظلم اور گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے۔

(2)
مال حلال طریقے سے حاصل ہو اور اس پر قناعت کی جائے تو برا نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3997   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2462  
´باب:۔۔۔`
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ عمرو بن عوف رضی الله عنہ (یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: شاید تم لوگوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2462]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال واسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقرو تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے،
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا،
تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں،
لیکن افسوس صد افسوس مال واسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کردیا،
اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپﷺ کو اندیشہ تھا،
حالاں کہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھرسکتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2462   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7425  
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بنی عامربن لوی کے حلیف تھے،انھوں نے جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی تھی،انھیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جذیہ لے آئیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اہل بحرین سے صلح کی تھی اور علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا تھا،حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین سے مال لے آئے،انصار نے حضرت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7425]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
فوافوا صلاة الفجر:
انہوں نے نماز فجر کوپایا،
اس میں حاضر ہوئے،
کیونکہ عام حالات میں وہ اپنے اپنے محلوں کی مساجد میں نماز پڑھتے تھے،
کسی اجتماعی ضرورت کے لیے،
سارے آپ کی مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔
(2)
تنافسوها:
یعنی تتنافسوها:
اس میں رغبت اور چاہت کرو گے،
زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی کوشش کروگے۔
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرگے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو امت کے فقرو ناداری میں مبتلا ہونے کا زیادہ خطرہ نہیں تھا،
بلکہ زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ زیادہ دولت مندی آئے گی،
جس سے دنیوی حرص اور دولت کی رغبت و چاہت میں اضافہ ہوگا،
لوگ دنیا کے دیوانے اور متوالے ہوکر مقصد زندگی کو بھلا بیٹھیں گے،
دنیا کی عیش و عشرت میں مگن ہوکر،
باہمی حسد و بغض کا شکار ہوں گے اور دنیا پرستی میں مبتلا ہوکر تباہ و برباد ہوں گے اور آج کل ہم سر کی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7425   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4015  
4015. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ عمرو بن عوف ؓ۔۔ جو بنو عامر بن لؤی کے حلیف اور نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک تھے۔۔ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو جزیہ لانے کے لیے بحرین روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور آپ نے علاء بن حضرمی ؓ کو وہاں کا حاکم مقرر کیا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین سے مال لائے۔ جب انصار نے ابو عبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو انہوں نے نماز فجر نبی ﷺ کے ساتھ ادا کی۔ آپ ﷺ جب (نماز سے) فارغ ہوئے تو وہ (انصار) آپ کے سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو آپ مسکرائے۔ پھر آپ نے فرمایا: میرا خیال ہے تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ مال لائے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تمہیں بشارت ہو اور تم اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4015]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث باب الجزیہ میں گزرچکی ہے۔
یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ حضرت عمرو بن عوف ؓ صحابی بدری تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4015   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3158  
3158. حضرت عمرو بن عوف انصاری ؓسے روایت ہے، جو بنو عامر بن لوی قبیلے کے حلیف اور غزوہ بدر میں شریک ہوچکے تھے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جزیہ لے آئیں۔ ہوا یوں تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کرلی تھی اور حضرت علاء بن حضرمی ؓکو وہاں کا حاکم بنا دیا تھا۔ الغرض حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین کامال لے کر آئے۔ جب انصار نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کے آنے کی خبر سنی تو انھوں نے نماز فجر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ جب آپ انھیں نماز پڑھا چکے تو وہ آپ کے سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انھیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا: میرے خیال کے مطابق تم نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ ؓ کچھ مال لائے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: ہاں۔ اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: تو پھر تم خوش ہوجاؤ، اورخوشی کی امید رکھو، اللہ کی قسم! مجھے تمہاری ناداری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3158]
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ! کیا عمدہ نصیحت فرمائی، مسلمانوں کو۔
جتنی دولتیں اور ریاستیں تباہ ہوئیں وہ اسی آپس کے رشک اور حسد اور نااتفاقی کی وجہ سے۔
آج بھی عرب ممالک کو دیکھا جاسکتا ہے کہ یہودی ان کی چھاتیوں پر سوار ہیں اور وہ آپس میں لڑ لڑ کر کمزور ہورہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3158   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3158  
3158. حضرت عمرو بن عوف انصاری ؓسے روایت ہے، جو بنو عامر بن لوی قبیلے کے حلیف اور غزوہ بدر میں شریک ہوچکے تھے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جزیہ لے آئیں۔ ہوا یوں تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کرلی تھی اور حضرت علاء بن حضرمی ؓکو وہاں کا حاکم بنا دیا تھا۔ الغرض حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین کامال لے کر آئے۔ جب انصار نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کے آنے کی خبر سنی تو انھوں نے نماز فجر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ جب آپ انھیں نماز پڑھا چکے تو وہ آپ کے سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انھیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا: میرے خیال کے مطابق تم نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ ؓ کچھ مال لائے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: ہاں۔ اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: تو پھر تم خوش ہوجاؤ، اورخوشی کی امید رکھو، اللہ کی قسم! مجھے تمہاری ناداری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3158]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے ہجری میں اہل بحرین سے صلح کی تھی۔
اس وقت بحرین کے لوگ مجوسی تھے۔

موادعت سے مراد ترک قتال ہے۔
اہل بحرین کے خلاف اقدام قتال سے باز رہنا اوران سے جزیہ لینے پر صلح کرنا موادعت ہے۔
وہاں حضرت علاء بن حضرمی ؓکو گورنر مقرر کیا تھا تاکہ وہ ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھیں۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ دنیا کی رغبت کبھی ہلاکت تک پہنچا دیتی ہے۔
مسلمانوں کا قومی سطح پر جتنا بھی نقصان ہوا اگر اس کا بغور جائز ہ لیاجائے تو وہاں دنیا طلبی کے متعلق منفی جذبات ہی کارفرمانظرآتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺنے اس حدیث میں اس مرض کی نشاندہی کی ہے اور اس کاعلاج بھی تجویز کیا ہے۔
افسوس کہ آج بھی عرب ممالک کو دیکھا جاسکتا ہے کہ یہودی ان کی چھاتیوں پر سوار ہیں اور وہ دنیا طلبی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور آپس میں لڑلڑ کرکمزور ہورہے ہیں۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3158   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4015  
4015. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ عمرو بن عوف ؓ۔۔ جو بنو عامر بن لؤی کے حلیف اور نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک تھے۔۔ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو جزیہ لانے کے لیے بحرین روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور آپ نے علاء بن حضرمی ؓ کو وہاں کا حاکم مقرر کیا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین سے مال لائے۔ جب انصار نے ابو عبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو انہوں نے نماز فجر نبی ﷺ کے ساتھ ادا کی۔ آپ ﷺ جب (نماز سے) فارغ ہوئے تو وہ (انصار) آپ کے سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو آپ مسکرائے۔ پھر آپ نے فرمایا: میرا خیال ہے تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ مال لائے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تمہیں بشارت ہو اور تم اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4015]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں ذکر ہے کہ حضرت عمرو بن عوف ؓ نے غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شرکت کی تھی۔
وہ غزوہ احد، خندق اور دیگر غزوات میں بھی شریک ہوئے تھے۔
حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں فوت ہوئے اور حضرت عمر ؓ ہی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔

بحرین بصرہ اور عمان کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔
ان کے باشندوں سے جزیے کی ادائیگی پر صلح کر لی گئی تھی۔
وہاں کے گورنر حضرت علاء بن حضرمی ؓ تھے ان کی وفات کے بعد حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو وہاں کا حاکم مقرر فرمایا۔

رسول اللہ ﷺ نے بڑی قیمتی نصیحت فرمائی ہے کہ فقر اور تنگ دستی اس قدر نقصان دی نہیں جس ققدر مال و دولت کی فراوانی نقصان دہ ہے کیونکہ غربت میں اللہ یادر رہتا ہے جبکہ دولت کے نشے میں اللہ بھول جاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4015   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.