تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 6101]،
[صحيح مسلم 6109] فقہ الحدیث: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت بہترین نمونہ زندگی ہے جسے ہر وقت خوشی اور محبت سے اپنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئیے۔
➋ قرآن و حدیث کی مخالفت اور بدعات کی پیروی سے ہر وقت بچنا ضروری ہے۔
➌ دربار الٰہی میں صرف وہی عمل معتبر و مقبول ہے جس پر قرآن و حدیث کی مہر ثبت ہو۔
➍ آپ نے کون سا کام کیا تھا؟ اس کے بارے میں مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”ظاہر ہے اس سے مراد رات کے بعض حصے میں نیند کرنا اور بعض دنوں میں نفلی روزے نہ رکھنا ہے، آپ نے شادیاں بھی کیں۔
“ ديكهئے:
[مرعاة المفاتيح 1ص 242] «والله اعلم» ↰ کتاب و سنت کے خلاف امور کا خطبہ میں اعلانیہ رد کرنا مسنون ہے , لیکن خاص آدمی کا نام لینے سے اجتناب کرنا چاہئیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت سے محبت اور رحمت للعالمین ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ بات کا رد تو فرما دیا، لیکن خطبے میں اپنے ان صحابہ کا نام نہیں لیا جنہوں نے اجتہادی لغزش کی وجہ سے مسنون کام سے اجتناب کرنے کا اظہار کیا تھا۔ داعی کو یہ طرز عمل ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئیے۔
➏ بعض اوقات موقع کی مناسبت سے صراحت کی بجاے اشارے کنایہ میں سمجھایا جا سکتا ہے , جیسا کہ امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں استدلال کیا ہے۔ ديكهيے:
[صحيح بخاري مع فتح الباري 513/10 باب من لم يواجه الناس بالعتاب] ➐ دنیا کا کوئی آدمی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہیں ہو سکتا چاہے کتنے ہی نیک اعمال کرے اور علم کا کتنا ہی بڑا پہاڑ بن جائے، کجا یہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑھ جائے؟ ایسا تصور سرے سے باطل اور محال ہے۔
↰ یہاں پر بطور رد عرض ہے کہ ایک شخص نے لکھا ہے: انبیاء اپنی امت سے اگر ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں۔ باقی رہا عمل، اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں اور۔۔۔۔
◄ عرض ہے کہ اس شخص کا عقیدہ باطل اور مردود ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ امتیوں کے مساوی
(برابر) ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کجا یہ کہ بڑھ جانے کا دعویٰ کر دیا جائے۔!
◄ اہل ایمان کا یہ عقیدہ ہے کہ ساری امت بلکہ ساری کائنات کے علوم و اعمال مل کر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم و اعمال تک نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو بہت لمبی عمر مل جائے اور وہ نیکیوں کے انبار لگا دے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عام صحابی کے درجے تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«لو وزن ايمان ابي بكر بايمان اهل الارض لرجح به .» ”اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان کا ساری زمین والوں کے ایمان سے وزن کیا جائے تو ان
(سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ) کا ایمان بھاری ہو گا۔
“ [السنة لعبدالله بن أحمد بن حنبل قلمي ص49 ب ح 821، مطبوع 378/1 و سند حسن] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھنا چاہئیے کیوں کہ بندہ ذرہ سی گستاخی سے بھی ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے ساتھ رب العالمین کے غضب اور ابدی عذاب کا حقدار ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے۔
«آمين» ➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ پر عمل پیرا ہونے سے کبھی شرمانا نہیں چاہئیے، جو کہ احادیث کی صورت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ بعض ملحدین اور بے دین لوگ داڑھی اور ٹخنوں سے اوپر ازار پر اعتراضات اور طعن و تشنیع کرتے ہیں، ایسے اعتراضات اور طعن و تشنیع سے قطعًا گھبرانا نہیں چاہئیے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرنے میں دونوں جہانوں کی کامیابی کا یقین ہونا چاہئیے۔
➒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رحمت للعالمین ہیں۔
➓ اگر سنت میں کسی بات کی رخصت موجود ہے تو خواہ مخواہ تشدد نہیں کرنا چاہئیے۔ بعض لوگ تصوف کے جال میں پھنس کر مصنوی پرہیزگاری پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہ لوگ سخت گرمیوں کی دھوپ میں اور سخت سردیوں میں ٹھنڈے پانی میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اس طرح کے سارے اعمال خلاف سنت ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔