حدثني محمد بن المثنى العنزي ، اخبرنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عون بن ابي جحيفة ، عن المنذر بن جرير ، عن ابيه ، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في صدر النهار، قال: فجاءه قوم حفاة عراة مجتابي النمار او العباء، متقلدي السيوف عامتهم من مضر بل كلهم من مضر، فتمعر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى بهم من الفاقة، فدخل ثم خرج، فامر بلالا فاذن واقام فصلى، ثم خطب فقال:" يايها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة سورة النساء آية 1 إلى آخر الآية إن الله كان عليكم رقيبا سورة النساء آية 1 والآية التي في الحشر اتقوا الله ولتنظر نفس ما قدمت لغد واتقوا الله سورة الحشر آية 18 تصدق رجل من ديناره من درهمه من ثوبه من صاع بره من صاع تمره، حتى قال: ولو بشق تمرة"، قال: فجاء رجل من الانصار بصرة كادت كفه تعجز عنها بل قد عجزت، قال: ثم تتابع الناس حتى رايت كومين من طعام وثياب، حتى رايت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتهلل كانه مذهبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سن في الإسلام سنة حسنة فله اجرها واجر من عمل بها بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اوزارهم شيء"،حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدْرِ النَّهَارِ، قَالَ: فَجَاءَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ، مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ، فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ:" يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ سورة النساء آية 1 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا سورة النساء آية 1 وَالْآيَةَ الَّتِي فِي الْحَشْرِ اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ سورة الحشر آية 18 تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ، حَتَّى قَالَ: وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ"، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ، حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ"،
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے عون بن ابی جحیفہ سے حدیث بیان کی، ا نھوں نے منذر بن جریر سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے کہا ؛ ہم دن کے ابتدا ئی حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا جر تھے کہ آپ کے پا س کچھ لو گ ننگے پاؤں ننگے بدن سوراخ کر کے دن کی دھا ری دار چادریں یا غبائیں گلے میں ڈا لے اور تلواریں لٹکا ئے ہو ئے آئے ان میں سے اکثر بلکہ سب کے سب مضر قبیلے سے تھے ان کی فاقہ زدگی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ نور غمزدہ ہو گیا آپ اندر تشریف لے گئے پھر با ہر نکلے تو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انھوں نے اذان دی اور اقامت کہی آپ نے نماز ادا کی، پھر خطبہ دیا اور فرما یا: "اے لو گو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جا ن سے پیدا کیا۔۔۔آیت کے آخر تک "بے شک اللہ تم پر نگرا ن ہے اور وہ آیت جو سورہ حشر میں ہے اللہ سے ڈرو اور ہر جا ن دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے (پھر فرمایا) آدمی پر لازم ہے کہ وہ اپنے دینا ر سےاپنے درہم سے اپنے کپڑے سے اپنی گندم کے ایک صاع سے اپنی کھجور کے ایک صاع سے۔ حتیٰ کہ آپ نے فرمایا:۔۔۔چا ہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے صدقہ کرے (جریرنے) کہا: تو انصار میں سے ایک آدمی ایک تھیلی لا یا اس کی ہتھیلی اس (کو اٹھا نے) سے عاجز آنے لگی تھی بلکہ عا جز آگئی تھی کہا: پھر لو گ ایک دوسرے کے پیچھے آنے لگے یہاں تک کہ میں نے کھا نے اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا وہ اس طرح دمک رہا تھا جیسے اس پر سونا چڑاھا ہوا ہو۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جس نے اسلا م میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا تو اس کے لیے اس کا (اپنا بھی) اجر ہےے اور ان کے جیسا اجر بھی جنھوں نے اس کے بعد اس (طریقے) پر عمل کیا اس کے بغیر کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو اور جس نے اسلا م میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی اس کا بو جھ اسی پر ہے اور ان کا بو جھ بھی جنھوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا اس کے بغیر کہ ان کے بو جھ میں کوئی کمی ہو۔
حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم دن کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگ ننگے پاؤں ننگے بدن گلے میں دھاری داراونی چادریں یا عبائیں پہنے ہوئے اور تلواریں لٹکائے ہوئے آئے ان میں سے اکثر بلکہ سب کے سب مضر قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ان کے فقرو فاقہ کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور متغیر ہو گیا آپصلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے پھر باہر نکلے اور بلال کو حکم دیا انھوں نے اذان اور اقامت کہی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ کر خطبہ دیا اور فرمایا: ”اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا پوری آیت پڑھی نساء آیت 1۔ بے شک اللہ تم پر نگہبان اور محافظ ہے۔ اور سورۃ حشر کی آیت کو اللہ سے ڈرو اور ہر نفس غور و فکر کرے اس نے آنے والے کل کے لیے آگے بھیجا ہے اور اللہ کے (غضب اور نافرمانی سے) بچو آیت18 ہر آدمی اپنا (دینار درہم اپنا کپڑا اپنا گندم کا صاع، کھجور کا صاع صدقہ کرے“ حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خواہ کھجور کا ٹکڑا ہی صدقہ کرے)“ تو ایک انصاری ایک تھیلی لایا اس کا ہاتھ اس کو اٹھانے سے بےبس اور عاجز ہو رہا تھا بلکہ عاجز ہو ہی گیا تھا پھر لوگ لگاتار لا رہے تھے حتیٰ کہ میں نے غلہ اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے یہاں تک کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارکہ (خوشی و مسرت) سے جگ مگ کر رہا تھا گویا کہ اس پر سونے کا جھول پھیرا گیا ہے۔ اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ اپنایا تو اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا اجر بھی جنہوں نے(اسے دیکھ کر)اس کے بعد اس پر عمل کیا۔ بغیر اس کے کہ اجرو ثواب میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے اسلام میں غلط راہ عمل اختیار کی (بری چال اپنائی) اس پر اس کا گناہ اور بوجھ ہوگا اور اس کے بعد (اس کے دیکھا دیکھی) جو اس پر عمل کریں گے ان کا گناہ بھی بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔
من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئا ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها من غير أن ينقص من أوزارهم شيئا
من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء
من سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بها بعده كتب له مثل أجر من عمل بها ولا ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعمل بها بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها ولا ينقص من أوزارهم شيء
من سن سنة خير فاتبع عليها فله أجره ومثل أجور من اتبعه غير منقوص من أجورهم شيئا ومن سن سنة شر فاتبع عليها كان عليه وزره ومثل أوزار من اتبعه غير منقوص من أوزارهم شيئا
من سن سنة حسنة فعمل بها كان له أجرها ومثل أجر من عمل بها لا ينقص من أجورهم شيئا ومن سن سنة سيئة فعمل بها كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده لا ينقص من أوزارهم شيئا
من سن سنة حسنة فعمل بها، كان له من الأجر مثل أجر من عمل بها لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا، ومن سن سنة سيئة فعمل بها، كان عليه مثل وزر من عمل بها لا ينقص ذلك من أوزارهم شيئا
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2351
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) مسلمانوں کے فقر و فاقہ کی حالت دیکھ کر آپﷺ اتنہائی طور پر پریشان ہو گئے حتی کہ آپﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ پریشانی کے عالم میں کبھی گھر کے اندر جاتے اور کبھی باہر تشریف لاتے کہ ان کے تعاون اور مدد کی کوئی راہ نکلے اس کے لیے آپﷺ نے نماز کا وقت ہونے پر اذان کہلوا کر نماز کا اہتمام کیا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے تو نماز پڑھا کر انہیں وحدت انسانی کا سبق دیا، آخرت کی فکر اور احساس اجاگر کیا، اور پھر صدقہ کی تلقین کی مسلمانوں نے اپنے دینی بھائیوں کی مدد واعانت میں کسی قسم کی کوتاہی اور سستی روانہ رکھی بلکہ فوراً لوگ اپنے گھروں سے کھانے کی اشیاء اور کپڑے لانے لگے۔ حتی کہ کھانے اور کپڑے کے دو بڑے ڈھیر جمع ہو گئے مسلمانوں کی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ اور تعاون واعانت کی صورت دیکھ کر مسرت وشادمانی سے آپﷺ کا چہرہ لہلہا اٹھا اورجگ مگ کرنے لگا۔ اسلام مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے یہی جذبہ خیر خواہی اور ہمدردی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ (2) بعض واجب الاحترام واور قابل قدر علماء نے اس حدیث سے (كل بدعة ضلالة) کے عموم میں تخصیص پیدا کی ہے جیسا کہ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ (كل بدعة ضلالة) میں بدعت سے مراد محدثات باطلہ اور بدعات مذمومہ ہیں اور اس کو بنیاد بنا کر بعض لوگوں نے حاشیہ آرائی کی ہے حالانکہ اس حدیث میں بدعت کا لفظ ہی نہیں ہے بلکہ (سَنَّ سُنَّةً) کا لفظ ہے اور سنۃ اس راستہ کو کہتے ہیں جس پر لوگوں کی آمدورفت ہو یعنی وہ ڈگریا راہ عمل جو پہلے سے موجود ہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں تھیلی لانے والے صحابی نے کوئی نیا کام نہیں کیا تھا۔ صرف صدقہ کرنے میں پہل کی تھی اس اعتبار سے وہ بارش کا پہلا قطرہ بنے گویا کتاب وسنت سےثابت شدہ عمل کو اختیار کرنے میں پہل کی، اسی طرح جو انسان کتاب و سنت کی روسے ممنوع عمل کو اختیار کرنے میں پہل کرے گا۔ وہ سب کے گناہ میں شریک ہو گا اس طرح کتاب و سنت سے ثابت شدہ عمل اگر کہیں متروک ہو چکا ہو تو اس جگہ جو شخص اس کو رواج دے گا وہ اس پر عمل کرنے والوں لوگوں کے اجرو ثواب کا حقدار ہو گا۔ اگر کسی گاؤں یا علاقہ میں غلط کام نہیں ہو رہا مثلاً کہیں ٹی وی، یاوی سی آر، موجود نہیں ہے جو سب سے پہلے لائے گا وہ بعد والوں کے جرم میں شریک ہو گا اب اگر کوئی صاحب علم کتاب لکھتا ہے اور اس کا مقصد دین کی اشاعت و تبلیغ یا کتاب و سنت کی تفہیم ہے جس کا آپﷺ نے حکم دیا ہے لیکن اس کی کوئی شکل و صورت متعین نہیں فرمائی کہ صرف طریقہ اور فلاں شکل میں دین اور کتاب و سنت کی اشاعت کرنا اس لیے اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ (مالم يرد به السنة) ہے جس کا سنت میں ذکر نہیں ہے محض سینہ زوری ہے اور غلط سوچ ہے فلاں فلاں امام یا عالم کے بدعت کی قسمیں بنانے سے یہ قسمیں صحیح نہیں ہو جائیں گی، جبکہ آپ کی صحیح حدیث ہے (كل بدعة ضلالة) اور علماء کا ایک گروہ اس کا صحیح مفہوم اس کے عموم کی صورت میں ہی بیان کرتا ہے اور تقسیم کو غلط قرار دیتا ہے جیسا کہ علمائے احناف میں سے شیخ احمد سرہندی نے ایسے ہی کیا ہے اور ہم مناسب موقع پر ان کی عبارت نقل کریں گے خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو سنتیں اور مستحبات ایسے جن کی طرف لوگوں کی التفات و توجہ نہیں ہے۔ یا اس پر لوگوں نے عمل چھوڑ دیا ہے یا کسی مخصوص موقعہ اور وقت نیک کام میں جو پہل کرتا ہے اور آگے بڑھ کر اس کا آغاز کرتا ہےوہ (مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً) کا مصداق ہے اور جو انسان کسی ناجائز یا حرام چیز کی ترویج کرتا ہے یا کسی خاص موقعہ اور وقت پر اس میں پہل کرتا ہے اور اس کے کرنے میں آگے ہوتا ہے دوسرے وہ کام بعد میں اس کو دیکھ کر کرتے ہیں وہ (مَنْ سَنَّ سُنَّة سَيِّئَة) کا مصداق ہے۔ اور جو کام دینی ضرورت اور دینی کے تقاضا کے تحت شروع کیے گئے ہیں اور ان کی شکل و صورت متعین اور مخصوص نہیں ہے۔ ان میں وقت وحالات کی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ ان سے بدعت کے جواز پر استدلال کرنا جبکہ اس میں یعنی بدعت میں تو ایک شکل و صورت مخصوص اور متعین کردی جاتی ہے درست نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2351
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 210
´کار خیر کی طرف رہنمائی کرنے والے کے لئے اجر و ثواب` «. . . وَعَن جرير قَالَ: (كُنَّا فِي صدر النهارعند رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ قَوْمٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ - [73] - فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ) إِلَى آخَرِ الْآيَةِ (إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رقيبا) وَالْآيَةُ الَّتِي فِي الْحَشْرِ (اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ) تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ حَتَّى قَالَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجَزُ عَنْهَا بل قد عجزت قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْء» . رَوَاهُ مُسلم . . .» ”. . . سیدنا جریر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک روز دن کے ابتدائی حصے میں تھے کہ کچھ برہنہ لوگ آئے جو جسم پر کمبل یا عبا ڈالے ہوئے، گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے ان میں سے اکثر بلکہ سب ہی قبیلہ مضر کے لوگ تھے (یہ لوگ بھوکے پیاسے تھے) ان کے فاقے اور محتاجگی اور خستہ حالی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا آپ گھر میں تشریف لے گئے (کہ کچھ کھانے کی لے آیئں مگر غالباً کوئی ایسی چیز نہیں ملی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر آ کر تشریف لا کر بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم اذان دو۔۔۔ چنانچہ اذان ہوئی جب سب جمع ہو گئے تو اقامت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی نماز کے بعد خطبہ دیا اور تقریر فرمائی جس میں ان آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ»”اے لوگو! تم اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے۔“(آخر تک کہ اللہ تمہارا نگہبان ہے) اور سورہ حشر کی آیت «اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ»”اللہ سے ڈرو اور انسان کو دیکھنا چاہئے کل یعنی قیامت کے لیے کیا چیز آگے بھیجی ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کو چاہئے اپنے روپے پیسے کپڑے سے اور اپنے گیہوں کے پیمانہ اور جو کا پیمانہ میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ خیرات کرے۔“ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ کجھور کے ایک ٹکڑے میں سے ہی ہو۔“(حدیث کے راوی کا بیان ہے کہ یہ سن کر) ایک انصاری روپے پیسے سے بھری ہوئی صدقہ دینے کے لیے ایک تھیلی لے آئے جس کے بھاری وزن سے قریب تھا کہ اس کا ہاتھ تھک جائے بلکہ تھک ہی گیا تھا (پھر اس انصار ی کے دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی لانے لگے لگاتار لوگوں نے لا لا کر دینا شروع کیا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ کپڑے اور غلے کی دو ڈھیریاں جمع ہو گئی ہیں (اس داد و دہش کے منظر کو دیکھ کر) آپ بہت خوش ہوئے حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی کی وجہ سے سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں جو شخص اچھا طریقہ ایجاد کر دے تو اس کو بھی ثواب ملے گا اور اس کے بعد جو اس پر عمل کرے گا تو اس کا ثواب بھی اسی ایجاد کرنے والے کو ملے گا، لیکن عمل کر نے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی“(اس کو اپنے عمل کا ثواب عمل کرنے کی وجہ سے ملے گا عمل کرنے کی وجہ سے ملے گا لیکن بتانے والے کو بتانے کی وجہ سے ثواب ملے گا۔ تو گویا بتانے والے دوہرا ثواب ملا ایک عمل کی وجہ سے دوسرا اس نیک عمل کے ایجاد اور بتانے کی وجہ سے) اور جو اسلام میں برا راستہ ایجاد کرے اور برے طریقے کو رائج کرے تو اس رائج کرنے کی وجہ سے گناہ ہو گا اور اس کے بعد جو اس کے برے راستے پر چلے گا اس کا گناہ بھی اسی برے راستے کے رواج دینے والے کو ملے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 210]
تخریج الحدیث: [صحيح مسلم 2351]
فقہ الحدیث: ➊ اس حدیث میں سنت جاری کرنے سے مراد وہ طریقہ ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہو، لیکن یاد رہے کہ اس سے مراد بدعت کا ایجاد کرنا نہیں ہے۔ ➋ جو کام سنت سے ثابت ہے اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا بڑے ثواب کا کام ہے۔ ➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمة للعالمين بنا کر بھیجا۔ ➍ اگر شدید ضرورت ہو تو لوگوں کے سامنے تعاون کی اپیل کرنا جائز ہے۔ ➎ اگر اسلحہ موجود ہو تو ہر وقت مسلح رہنا مسنون ہے۔ ➏ مشکل کشا صرف ایک اللہ ہے۔ ➐ خطبے میں لوگوں کو سمجھانے کے لئے آیات کی تلاوت کرنا سنت ہے۔ ➑ کسی پریشان حال مسلمان کو دیکھ کر مضطرب ہونا اور اس کی راحت میں خوشی محسوس کرنا عین ایمان ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2555
´صدقہ پر ابھارنے کا بیان۔` جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم دن کے ابتدائی حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کچھ لوگ ننگے بدن، ننگے پیر، تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، زیادہ تر لوگ قبیلہ مضر کے تھے، بلکہ سبھی مضر ہی کے تھے۔ ان کی فاقہ مستی دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ اندر گئے، پھر نکلے، تو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی، آپ نے نماز پڑھائی، پھر آپ نے خطبہ دیا، تو فرمایا: ”لوگو! ڈرو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2555]
اردو حاشہ: ”اچھا طریقہ جاری کیا۔“ بشرطیکہ وہ کام شریعت میں موجود ہو، جیسے مندرجہ بالا واقعہ میں انصاری نے نیک کام میں پہل کی اور لوگوں نے اسے دیکھ کر صدقات کیے۔ اور صدقہ شریعت میں مشروع ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا کام جاری کرے جو شریعت میں موجود نہ ہو تو یہ بدعت ہوگی، خواہ وہ ظاہر میں نیک کام ہی نظر آئے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو شخص دین میں ایسا کام رائج کرے جو دین سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔“(صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2697، وصحیح مسلم، الأقضیة، حدیث: 1718) کیونکہ اس طرح دین میں تحریف ہو جائے گی اور دین کی اصل شکل وصورت قائم نہ رہے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2555
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث203
´(دین میں) اچھے یا برے طریقہ کے موجد کا انجام۔` جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اسے اس کے (عمل) کا اجر و ثواب ملے گا، اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا، اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے اوپر اس کا گناہ ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہو گا، اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 203]
اردو حاشہ: (1) سنت کے لغوی معنی طریقے کے ہیں، اچھا ہو یا برا۔ اس حدیث میں یہ لفظ اپنے لغوی معنی ہی میں استعمال ہوا ہے۔ علمِ حدیث اور اصولِ حدیث میں سنت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد (قولی حدیث) ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل (فعلی حدیث) یا ایسی چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم ہونے کے بعد اس سے منع نہیں فرمایا یا اس کی تردید نہیں فرمائی۔ (تقریری حدیث) فقہاء سنت سے مراد وہ اچھا کام لیتے ہیں جو فرض و واجب نہ ہو، اسے مستحب بھی کہا جاتا ہے، نیز سنت کا لفظ بدعت کے مقابلے میں بھی بولا جاتا ہے، یعنی وہ عقیدہ و عمل جس کا وجوب، استحباب یا جواز شریعت سے ثابت ہو اور بدعت سے مراد وہ عمل ہے جسے ثواب سمجھ کر کیا جائے، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہ ہو۔
(2) اچھا طریقہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک اچھے کام کی ضرورت تھی اور کوئی اسے نہیں کر رہا تھا۔ یا کسی سنت پر عمل متروک ہو چکا تھا، اس نے شروع کیا تو اسے دیکھ کر دوسروں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ یا کسی مشروع کام کو فروغ دینے کے لیے نیا طریقہ اختیار کیا محض اپنی رائے سے کسی کام کو اچھا قرار دے کر ایجاد کرنا بدعت ہے جس پر ثواب کی بجائے گناہ ہو گا۔
(3) برا طریقہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو برائی پہلے کسی معاشرے میں موجود نہیں تھی، ایک آدمی نے وہ کام کیا، اسے دیکھ کر دوسرے بھی وہ کام کرنے لگے۔ ارشاد نبوی ہے: جو جان بھی ظلم سے قتل کی جاتی ہے، اس کے خون ناحق کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) کے سر ہوتا ہے کیونکہ وہی پہلا شخص ہے جس نے قتل (ناحق) کا طریقہ جاری کیا۔ (صحيح بخاري، الاعتصام، باب اثم من دعا الي ضلالة، حديث: 7321، وصحيح مسلم، القسامة، باب اثم من سن القتل، حدیث: 1677)
(4) اس کی وضاحت اس پس منظر سے بھی ہوتی ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: واقعہ یوں ہے کہ قبیلہ بنو مضر کے افراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کی ظاہری حالت قابل رحم تھی، انہیں مناسب لباس بھی دستیاب نہ تھا۔ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو صدقہ دینے کی ترغیب دی، سب سے پہلے ایک انصاری صحابی درہم و دینار سے بھری ہوئی اتنی بھاری تھیلی لے کر حاضر ہوا کہ اس کے ہاتھ سے گری جا رہی تھی۔ اس کے بعد تو اتنی کثرت سے صدقات آئے کہ ایک طرف کھانے پینے کی چیزوں کا ڈھیر لگ گیا، دوسری طرف کپڑوں کا ڈھیر لگ گیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا: (صحيح مسلم، الزكاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة او كلمة طيبة...الخ، حديث: 1016)
(5) دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ وہ ضعیف اور موضوع احادیث کو دیکھ کر کسی ایسے کام کی دعوت دینا شروع نہ کر دیں جو صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ورنہ نہ صرف محنت ضائع ہو جائے گی بلکہ وہ بہت بڑے گناہ کا بوجھ اٹھا لیں گے۔
(6) جب کسی کو گناہ کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو شیطان عموماً یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ یہ گناہ کر لینے میں ہمارا کوئی نقصان نہیں، گناہ تو اس کو ہو گا جس نے ہمیں گناہ کی طرف بلایا ہے، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ غلط کام کا ارتکاب کرنے والا اس کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا، البتہ اسے گناہ کی طرف بلانے والے کا گناہ زیادہ شدید ہے، اس لیے وہ بھی اس مجرم کے جرم میں برابر کا شریک سمجھا جائے گا اور سزا کا مستحق ہو گا۔
(7) اس حدیث میں نیکی کی تبلیغ کرنے والوں کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔ ایک آدمی کی محنت سے جتنے آدمی کسی نیکی کو اختیار کریں گے، ان کے ثواب کے برابر اس کے نامہ اعمال میں ثواب خود بخود درج ہوتا چلا جائے گا۔
(8) ثواب اور گناہ، دعوت دینے والے کے حساب میں جمع ہونا خود بخود ہوتا ہے، اس میں عمل کرنے والے کے قصد یا نیت کا کوئی دخل نہیں، لہذا اس حدیث سے ایصال ثواب کے مروجہ تصور پر استدلال درست نہیں، ورنہ ایصال ثواب کی طرح ایصال گناہ کا تصور بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 203
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2675
´ہدایت اور گمراہی کی طرف بلانے والوں کا بیان۔` جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہو گا اور (دوسرے) جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2675]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدایت یعنی ایمان، توحید اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پھیلانے کا اجر وثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا، اسی طرح شروفساد اورقتل وغارت گری اور بدعات و خرافات کے ایجاد کرنے والوں کو اپنے اس کرتوت کا گناہ تو ملے گا ہی ساتھ ہی اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ کا وبال بھی اس پر ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2675
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:824
824- سیدنا جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کچھ لوگ پھٹے پرانے کپڑوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مد د کی درخواست کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی، تو لوگوں نے عطیات نہیں دئیے اس کا رد عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہوا پھر انصار سے تعلق رکھنے والا ایک شخص لوہے کا ایک ٹکڑا لے کر آیا (یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے) تو لوگ یکے بعد دیگرے (اس کی دیکھا دیکھی) چیزیں لانے لگے، یہاں تک کہ اس چیز کاردعمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر محسوس ہوا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:824]
فائدہ: معلوم ہوا جب کوئی اجتماعی نیکی کا کام شروع ہونے لگے تو سب سے پہلے شروع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اس سے بندہ بلا مشقت ایک عظیم اجر کا مستحق قرار پا جا تا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 825
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6800
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جنگلی لوگ آئے جواونی کپڑے پہنے ہوئے تھے،چنانچہ آپ نے ان کی بد حالی اور ضرورت کو محسوس فر لیا تو آپ نے لوگوں کو صدقہ پر ابھارا سو لوگوں نے صدقہ دینے میں تاخیر کی، حتی کہ آپ کے چہرے پر کبیدگی کے آثار نمایاں ہو گئے،پھر ایک انصاری آدمی اور ہموں کی ایک تھیلی لایا پھر دوسرا آدمی صدقہ لایا، پھر لوگ مسلسل آنے لگے،حتی کہ آپ کے چہرے پر مسرت پیدا ہو گئی چنانچہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6800]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوا، ایک نیک عمل اور اچھے کام پر جو سب سے پہلے عمل کرتا ہے اور دوسروں کے لیے اس پر عمل کرنے کا نمونہ پیش کرتا ہے، یا ان کے لیے تحریک کا باعث بنتا ہے تو اس کے بعد اس کی دیکھا دیکھی، عمل کرنے والوں کی طرح اس کو بھی ثواب ملے گا، لیکن اس کا خیر اور صالح عمل ہونا، قرآن و سنت سے ثابت ہونا ضروری ہے، جیسا کہ یہاں صدقہ ایک اچھا اور نیک عمل تھا، لوگوں نے اس پر عمل کرنے میں تاخیر کر دی، جب ایک صحابی نے اس کا آغاز کر دیا تو دوسروں میں بھی اس کا داعیہ پیدا ہو گیا اور صدقہ لانے والوں کا تانتا بندھ گیا، اس پر آپ نے یہ بات فرمائی، اس لیے اس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنی طرف سے کوئی عمل ایجاد کر لینا، جبکہ قرآن و سنت میں اس کا وجود نہیں ہے، وہ اس حدیث کا مصداق نہیں ہے، بلکہ دوسری حدیث کا مصداق ہے، جس میں آپ نے فرمایا ہے، " من عمل عملا ليس عليه عملنا فهو رد " جس نے ایسا کام کیا، جو ہم نے نہیں کیا، وہ مردود ہے، اس لیے، اس حدیث کی آڑ میں میلاد، عرس، سوئم اور چہلم وغیرہ کو سند جواز دینا، حدیث کے مفہوم سے بے خبری کی دلیل ہے۔ اس حدیث کی مزید وضاحت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی آگے آنے والی حدیث کو رہی ہے۔