3. باب نَدْبِ مَنْ حَلَفَ يَمِينًا فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا أَنْ يَأْتِيَ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَيُكَفِّرَ عَنْ يَمِينِهِ:
3. باب: جو شخص قسم کھائے کسی کام پر پھر اس کے خلاف کو بہتر سمجھے تو اس کو کرے اور قسم کا کفارہ دے۔
Chapter: It is recommended for the one who swears an oath then sees that something else is better than it; To do that which is better and offer expiation for his oath
● صحيح البخاري | 7555 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير منه وتحللتها |
● صحيح البخاري | 6680 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها |
● صحيح البخاري | 6721 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها |
● صحيح البخاري | 6649 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها |
● صحيح البخاري | 6718 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير |
● صحيح البخاري | 5518 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها |
● صحيح البخاري | 3133 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها |
● صحيح البخاري | 6623 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير أو أتيت الذي هو خير وكفرت عن يميني |
● صحيح البخاري | 4385 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير منها |
● صحيح مسلم | 4263 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين ثم أرى خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير |
● صحيح مسلم | 4265 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها فانطلقوا فإنما حملكم الله |
● صحيح مسلم | 4269 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين أرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير |
● سنن أبي داود | 3276 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خي |
● سنن النسائى الصغرى | 3811 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير |
● سنن النسائى الصغرى | 3810 | عبد الله بن قيس | ما على الأرض يمين أحلف عليها فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيته |
● سنن ابن ماجه | 2107 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير أوقال أتيت الذي هو خير وكفرت عن يميني |
● المعجم الصغير للطبراني | 12 | عبد الله بن قيس | من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليأت الذي هو خير وليكفر عن يمينه |
● مسندالحميدي | 783 | عبد الله بن قيس | رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكله |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2107
´جس نے کسی بات پر قسم کھائی پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھا تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں“، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2107]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قسم کی تین قسمیں ہیں:
(ا)
لغو:
جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں۔
اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے۔
(ب)
غموس:
یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے۔
یہ کبیرہ گناہ ہے، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں۔
(ج)
معقدہ:
جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے۔
اس قسم کو توڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ (دیکھیئے:
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89)
۔
(2)
قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (سورۃ مائدۃ: 89)
(3)
ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ (تقریبا چھ سو گرام)
کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں۔
اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾ (المائدۃ، 5: 89)
”اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔“
یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں۔
اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے۔
(4)
نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے۔
اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ﴾ (البقرۃ، 2: 224)
”اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح)
نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو۔“
(5)
جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2107