حدثنا القعنبي عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم،" اتي بلبن قد شيب بماء، وعن يمينه اعرابي، وعن يساره ابو بكر، فشرب، ثم اعطى الاعرابي، وقال: الايمن فالايمن". حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أُتِيَ بِلَبَن ٍ قَدْ شِيبَ بِمَاءٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ أَعْرَابِيٌّ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ، فَشَرِبَ، ثُمَّ أَعْطَى الْأَعْرَابِيَّ، وَقَالَ: الْأَيْمَنَ فَالْأَيْمَنَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں پانی ملایا گیا تھا، آپ کے دائیں ایک دیہاتی اور بائیں ابوبکر بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا پھر دیہاتی کو (پیالہ) دے دیا اور فرمایا: ”دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے پھر وہ جو اس کے دائیں ہو ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کی ابتدا داہنی طرف سے مسنون و مستحب ہے، گرچہ بائیں طرف والے لوگ معاشرہ کے معزز افراد ہوں، ہاں اگر کسی نے پانی مانگا تو وہ سب سے پہلے اس کا مستحق ہے، لیکن وہ اپنے دائیں طرف والوں کو دے دے، جیسا کہ حدیث نمبر (۳۷۲۹) میں آ رہا ہے۔
Anas bin Malik said: The Prophet ﷺ was brought milk that was mixed with water. A nomad Arab was on his right and Abu Bakr was on his left. He himself drank and gave it to the nomad Arab, and said: He who is on the right, then he who is on his right then he who is on his right.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3717
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5619) صحيح مسلم (2029)
حلبت لرسول الله شاة داجن وهي في دار أنس بن مالك وشيب لبنها بماء من البئر التي في دار أنس فأعطى رسول الله القدح فشرب منه حتى إذا نزع القدح من فيه وعلى يساره أبو بكر وعن يمينه أعرابي فقال عمر وخاف أن يعطيه الأعراب
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 471
´دوسروں کو پلانے والا پہلے خود پی سکتا ہے` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلبن قد شيب بماء وعن يمينه اعرابي وعن يساره ابو بكر الصديق، فشرب ثم اعطى الاعرابي وقال: ”الايمن فالايمن.“» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں (کنویں کا) پانی ملایا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک اعرابی (دیہاتی) اور بائیں طرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دودھ) پیا پھر (باقی دودھ) اعرابی کو دے دیا اور فرمایا: ”دایاں (مقدم ہے) پھر (جو اس کے بعد) دایاں ہو۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 471]
تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 926/2 ح 787، ك 49 ح 17، التمهيد 151/6، الاستذكار: 1720، أخرجه البخاري 5619، ومسلم 2029، من حديث مالك به] تفقہ: ➊ اپنے پینے کے لئے دودھ میں پانی ڈالنا جائز ہے لیکن اسے خالص دودھ کے نام پر بیچنا جائز نہیں ہے۔ ➋ دوسروں کو پلانے والا پہلے خود پی سکتا ہے۔ ➌ کھانے پینے کی چیزیں اگر دوسروں کو تحفتاً دی جائیں تو دائیں طرف سے ابتدأ کرنا چاہئے۔ ➍ تحفہ قبول کرنا مسنون ہے بشرطیکہ کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔ ➎ دودھ پینا مسنون اور صحت و توانائی کے لئے بہترین غذا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 3
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3726
´جو شخص قوم کا ساقی ہو وہ کب پئے؟` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں پانی ملایا گیا تھا، آپ کے دائیں ایک دیہاتی اور بائیں ابوبکر بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا پھر دیہاتی کو (پیالہ) دے دیا اور فرمایا: ”دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے پھر وہ جو اس کے دائیں ہو ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3726]
فوائد ومسائل: فائدہ: ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ ساقی خود آخر میں پیے۔ اور جسے مجلس میں دودھ وغیرہ پیش کیا جائے۔ وہ اوروں کی طرف بڑھائے۔ تو دایئں والے کو دے اور پھر اسی طرح آگے پیش کیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3726