حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين،" ان رجلا اعتق ستة اعبد عند موته ولم يكن له مال غيرهم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له: قولا شديدا ثم دعاهم، فجزاهم ثلاثة اجزاء، فاقرع بينهم، فاعتق اثنين وارق اربعة". حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْن،" أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةَ أَعْبُدٍ عِنْدَ مَوْتِهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: قَوْلًا شَدِيدًا ثُمَّ دَعَاهُمْ، فَجَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اس اسے سخت سست کہا پھر انہیں بلایا اور ان کے تین حصے کئے: پھر ان میں قرعہ اندازی کی پھر ان میں سے دو کو (جن کے نام قرعہ میں نکلے) آزاد کر دیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا۔
Imran bin Hussain said: A man who had no other property emancipated six slaves of his at the time of the death. When the Prophet ﷺ was informed about it, he spoke severely of him. He then called them, divided them into three sections, cast lots among them, and emancipated two and kept four in slavery.
USC-MSA web (English) Reference: Book 30 , Number 3947
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3958
´کوئی شخص اپنے غلاموں کو آزاد کرے جو تہائی مال سے زائد ہوں تو کیا حکم ہے؟` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اس اسے سخت سست کہا پھر انہیں بلایا اور ان کے تین حصے کئے: پھر ان میں قرعہ اندازی کی پھر ان میں سے دو کو (جن کے نام قرعہ میں نکلے) آزاد کر دیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3958]
فوائد ومسائل: 1) کتاب الوصایا میں یہ گزرا ہے کہ کسی شخص کو اپنے تہائی مال سے زیادہ میں وصیت کرنے کی اجازت نہیں ہے، اسی بنیاد پر مذکورہ بالا واقعہ میں اس شخص کی غلط وصیت کو منسوخ کر کے شریعت کے مطابق عمل کیاگیا۔
2) امیر المومنین اور مسلمان عمال کا فریضہ ہے کہ مسلمان عوام الناس کے جملہ امور پر نگاہ رکھیں کہ کہیں بھی شریعت کی مخالفت نہ ہو نے پائے۔
3) غلط وصیت کومنسوخ کرکےشریعت کےمطابق عمل کرنا کرانا چاہئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3958