امیہ بن عبداللہ بن خالد سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ہم قرآن میں نماز حضر اور نماز خوف کا ذکر پاتے ہیں، لیکن سفر کی نماز کا ذکر نہیں پاتے؟ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہماری جانب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے، اور ہم دین کی کچھ بھی بات نہ جانتے تھے، ہم وہی کرتے ہیں جیسے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/التقصیر1 (1435)، (تحفة الأشراف: 6380)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/66، 94) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حالانکہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود ہے: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا» اخیر تک، یعنی: ”جب تم زمین میں سفر کرو تو نماز کے قصر کرنے میں تم پر گناہ نہیں، اگر تم کو ڈر ہو کہ کافر تم کو ستائیں گے“، اس آیت سے سفر کی نماز کا حکم نکلتا ہے، مگر چونکہ اس میں قید ہے کہ اگر تم کو کافروں کا ڈر ہو تو امیہ بن عبداللہ نے نماز خوف سے اس کو خاص کیا، کیونکہ صرف سفر کا حکم جس میں ڈر نہ ہو قرآن میں نہیں پایا، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ حکم صاف طور سے قرآن میں نہیں ہے، لیکن نبی اکرم ﷺ کے فعل سے مطلق سفر میں قصر کرنا ثابت ہے، پس حدیث سے جو امر ثابت ہو اس کی پیروی تو ویسے ہی ضروری ہے، جیسے اس امر کی جو قرآن سے ثابت ہو، ہم تک قرآن اور حدیث دونوں نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اور قرآن میں حدیث کی پیروی کا صاف حکم ہے، جو کوئی صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعویٰ کرے، اور حدیث کو نہ مانے وہ گمراہ ہے، اور اس نے قرآن کو بھی نہیں مانا، اس لئے کہ قرآن میں صاف حکم ہے: «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا» اور فرمایا: «من يطع الرسول فقد أطاع الله» اور یہ ممکن نہیں کہ حدیث کے بغیر کوئی قرآن پر عمل کر سکے، اس لئے کہ قرآن مجمل ہے، اور حدیث اس کی تفسیر ہے، مثلاً قرآن میں نماز ادا کرنے کا حکم ہے لیکن اس کے شرائط، ارکان، اور کیفیات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، اسی طرح زکاۃ، حج، روزہ وغیرہ دین کے ارکان بھی صرف قرآن دیکھ کر ادا نہیں ہو سکتے، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: «ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه»”خبردار ہو! مجھے قرآن دیا گیا، اور اس کے مثل ایک اور“، یعنی حدیث۔
It was narrated from Umayyah bin ‘Abdullah bin Khalid that he said to ‘Abdullah bin ‘Umar:
“We find (mention of) the prayer of the resident and the prayer in a state of fear in the Qur’an, but we do not find any mention of the prayer of the traveler. ‘Abdullah said to him: “Allah sent Muhammad (ﷺ) to us, and we did not know anything, rather we do what we saw Muhammad (ﷺ) doing.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1066
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) قرآن مجید میں احکام مختصر طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ جن کی تشریح احادیث سے ہوتی ہے۔ اس لئے دونوں پر ایمان رکھنا اور عمل کرنا ضروری ہے۔
(2) صحیح حدیث قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوسکتی البتہ یہ ممکن ہے کہ قرآن مجید میں ایک حکم مطلق یا عام استعمال ہوا ہو اور حدیث سے معلوم ہو کہ یہ حکم مطلق نہیں بلکہ فلاں شرط سے مقید ہے۔ یا یہ حکم عام نہیں بلکہ فلاں فلاں صورت کے ساتھ خاص ہے ایسی حدیث کو قرآن کے خلاف یا قرآن کے حکم پراضافہ کہہ کر ترک کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ اضافہ نہیں بلکہ قرآن کی وہ تبین (وضاحت) ہے جو نبی کریمﷺ کا منصب تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1066