فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1557
´باب:`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگوں کے لیے سال میں دو دن ایسے ہوتے تھے جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے ہجرت کر کے) مدینہ آئے تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے دو دن تھے جن میں تم کھیل کود کیا کرتے تھے (اب) اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلہ ان سے بہتر دو دن دے دیئے ہیں: ایک عید الفطر کا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن۔“ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1557]
1557۔ اردو حاشیہ:
➊ ”دودن“ سے نوروز اور مہرجان مراد ہیں۔ نوروز تو نئے سال کا پہلا دن ہوتا تھا اور مہرجان موسم بہار کی مناسبت سے جشن کی صورت میں منایا جاتا تھا۔ یہ دونوں ایرانیوں کی عیدیں تھیں۔ عرب صرف نقالی کے طور پر انہیں مناتے تھے۔
➋ ”دو اچھے دن“ کیونکہ ان کا تعلق نہ تو موسم کی خوش گواری سے ہے، نہ کسی بادشاہ کی تاجپوشی سے، بلکہ ان کا تعلق دو عظیم عبادات کی ادائیگی سے ہے، لہٰذا ان میں بجائے لہوولعب کے عبادت، تشکر اور دعا کی حکمرانی ہو گی۔ باقی رہی خوشی تو یہ ایک ذہنی چیز ہے۔ ایک کھلنڈرا شخص جس طرح کھیل کود میں خوش ہوتا ہے، مومن اس طرح بلکہ اس سے بڑھ کر عبادت میں لذت محسوس کرتا ہے، پھر لہوولعب کی خوشی تو صرف امراء کے ساتھ خاص ہے مگر عبادت کی خوشی میں امیرغریب سب شریک ہو سکتے ہیں۔ عبادات کی ادائیگی کے بعد مناسب کھیل کود میں بھی کوئی حرج نہیں، جیسے بچیوں کا دف بجانا اور حبشیوں کا جنگی کھیل کھیلنا احادیث سے ثابت ہے۔ مگر ایسی خوشی جس کی بنیاد فخروغرور اور دولت کی نمائش و اسراف پر ہو ایک فطری دین کے سراسر خلاف ہے۔
➌ ”عید“ عود سے ہے، یعنی بار بار پلٹ کے آنے والی چیز، ظاہر ہے عید بار بار آتی ہے، نیز ہر آدمی ان سے بار بار لطف اندوز ہونے کی خواہش رکھتا ہے اور ایک دوسرے کو ”کئی عیدوں“ کی دعا بھی دی جاتی ہے۔
➍ اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوا کہ مسلمانوں کی صرف دو ہی عیدیں ہیں، تیسری کوئی عید نہیں، اس لیے ”عیدمیلاد“ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، یہ بدعت اور خانہ ساز ہے۔ اس کے جواز کے لیے جو ”دلائل“ دیے جاتے ہیں، ان کی حقیقت جاننے کے لیے ملاحظہ ہو، حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کی تالیف ”جشن عیدمیلاد اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ۔“
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1557