مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4155
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی معیشت کا بیان۔`
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ و خیرات کا حکم دیتے تو ہم میں سے ایک شخص حمالی کرنے جاتا، یہاں تک کہ ایک مد کما کر لاتا، (اور صدقہ کر دیتا) اور آج ان میں سے ایک کے پاس ایک لاکھ نقد موجود ہے، ابووائل شقیق کہتے ہیں: گویا کہ وہ اپنی ہی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4155]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سخاوت کے اعلی مقام پر فائز تھے کہ خود امداد کے مستحق ہونے کے باوجود امداد قبول نہیں کرتے تھے بلکہ اس مفلسی میں بھی محنت مزدوری کر کے خیرات کرتے تھے۔
(2)
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تعمیل کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے تھے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو نام لے کر حکم نہیں دیتے تھے کہ خیرات کرو۔
تب بھی ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہم بھی اس کی تعمیل کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔
(3)
فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا اچھا بدلہ دنیا میں بھی خوشحالی کی صورت میں مل جاتا ہے۔
(4)
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنےحالات بیان فرمائے لیکن یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ اپنا واقعہ ہے تاکہ یہ ریاکاری میں شامل نہ ہوجائے جب کہ ان کا مقصد سامعین کو اس نیکی کی ترغیب دلانا تھا اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اخلاص واضح ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4155
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2273
2273. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب صدقہ وخیرات کرنے کا حکم دیتے تو ہم میں سے کوئی شخص بازار جاتا اور باربرداری کرکے (بوجھ اٹھا کر) ایک مدغلہ حاصل کرتا (اور اسے صدقہ کرتا) جبکہ آج ان میں سے بعض لاکھوں میں کھیلتے ہیں۔ راوی حدیث(حضرت شقیق) کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق حضرت ابو مسعود انصاری ؓ نے "بعض" سے مراد خود ہی کو لیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2273]
حدیث حاشیہ:
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عہد نبوی میں صحابہ کرام ؓ محنت مزدوری بخوشی کیا کرتے تھے۔
حتی کہ وہ حمالی بھی کرتے پھر جو مزدوری ملتی اس میں سے صدقہ بھی کرتے۔
اللہ پاک ان کو امت کی طرف سے بے شمار جزائیں عطا کرے کہ اس محنت سے انہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی، آج الحمد للہ وہی مدینہ ہے جن کے باشندے فراخی اور کشادگی میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔
آج مدینہ میں کتنے ہی عظیم محلات موجود ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2273
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1416
1416. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ ہمیں صدقے کا حکم دیتے تو ہم میں سے کوئی بازار جاتا اور بوجھ اٹھا کر مزدوری کرتا، اجرت میں جو ایک مدملتا اسے صدقہ کردیتا، مگر آج یہ حالت ہے کہ بعض انھی لوگوں کے پاس ایک لاکھ درہم موجود ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1416]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ ایک جلیل القدر بدری صحابی ہیں۔
ان کی وفات 40 ہجری سے پہلے ہے۔
انہوں نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں مال کی قلت تھی لیکن سخاوت کا بہت شوق تھا۔
صحابہ کرام ؓ محنت مزدوری کرتے۔
اس پر جو اجرت ملتی اسے صدقہ و خیرات کر دیتے تھے۔
لیکن بعد میں فتوحات کی کثرت سے مال و دولت کی فراوانی ہوئی تو بخل پیدا ہونے لگا، مال کی کمی نہیں تھی، لیکن دل میں غنا نہیں رہا۔
بہرحال صحابہ کرام ؓ کا محنت و مزدوری کر کے ایک مد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہمارے ہزاروں اور لاکھوں روپوں سے زیادہ اجر رکھتا ہے۔
(فتح الباري: 359/3) (2)
واضح رہے کہ عنوان میں دو مضمون ہیں:
ایک یہ کہ تھوڑے سے صدقہ و خیرات سے دوزخ کی آگ سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
احادیث بالا میں اسی مضمون کو ثابت کیا گیا ہے۔
دوسرا مضمون کھجور کا ٹکڑا دے کر نجات حاصل کرنا ہے، اس کے لیے آئندہ احادیث پیش کی جا رہی ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1416
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2273
2273. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب صدقہ وخیرات کرنے کا حکم دیتے تو ہم میں سے کوئی شخص بازار جاتا اور باربرداری کرکے (بوجھ اٹھا کر) ایک مدغلہ حاصل کرتا (اور اسے صدقہ کرتا) جبکہ آج ان میں سے بعض لاکھوں میں کھیلتے ہیں۔ راوی حدیث(حضرت شقیق) کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق حضرت ابو مسعود انصاری ؓ نے "بعض" سے مراد خود ہی کو لیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2273]
حدیث حاشیہ:
(1)
بار برادری کرکے مزدوری کرنے میں انسان کی توہین نہیں بلکہ بوجھ اٹھالینا سوال کرنے کی ذلت سے بہتر ہے۔
جس طرح کام کاج اور مزدوری چھوڑ دینا سوال کرنے کی ذلت کا باعث ہے، اسی طرح صدقہ وخیرات ترک کرنا اخروی افلاس اور ذلت کا باعث بنتا ہے۔
ایک حدیث میں بہتریں صدقہ اسے قرار دیا گیا ہے کہ انسان اس کے بعد خود محتاج نہ بن جائے بلکہ غنی رہے۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1426)
اس حدیث سے وہم پیدا ہوتا ہے کہ صدقہ وہ مال دار آدمی کرے جس کی رقم ضروریات سے زائد ہو اور جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ صدقہ وخیرات نہ کرے۔
امام بخاری ؒ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے مذکورہ عنوان اور حدیث کو پیش کیا ہے کہ دور اول میں صحابۂ کرام ؓ کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے انھیں خیرات کرنے کا حکم دیتے تو وہ منڈی جاتے اور بار برادری کرکے کچھ غلہ حاصل کرتے اور اسے اللہ کی راہ میں دے دیتے۔
(2)
صحابۂ کرام ؓ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا کتنا جذبہ رکھتے تھے! لیکن افسوس کے آج لاکھوں رکھنے والے صدقہ وخیرات کا خیال ہی نہیں کرتے۔
صحابۂ کرام مزدوری اس لیے کرتے تھے کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔
یقیناً یہ وہ انفاق ہے جس سے دل میں نور حکمت پیدا ہوتا ہے جو بہت بڑا خزانہ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2273
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4669
4669. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب ہمیں صدقہ کی ترغیب دیتے تو ہم میں کوئی محنت و مزدوری کر کے لاتا اور بڑی مشکل سے ایک مد (کھجوریں) صدقہ کرتا لیکن آج ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے پاس لاکھوں درہم ہیں۔ گویا ان کا اشارہ خود اپنی طرف تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4669]
حدیث حاشیہ:
1۔
غزوہ تبوک کے موقع پر قحط سالی تھی، ابھی فصلیں بھی نہیں پکی تھیں، سفر بھی دوردراز کا تھا مقابلہ بھی اس دور کی انتہائی مضبوط اور زبردست طاقت رومی حکومت سے تھا، اسلحہ اور سواریوں کی بھی قلت تھی، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے جہاد فنڈ کے لیے پرزور اپیل کی جس کے نتیجے میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبدالرحمان ؓ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اتنا چندہ دیاکہ آپ خوش ہوگئے۔
سیدناعمر ؓ اپنے گھر کا آدھا سامان بانٹ کر جہاد فنڈ کے لیے لے آئے جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ گھر کا تمام سامان اٹھا کر لے آئے۔
الغرض مال دار اورمزدور پیشہ لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دیا۔
لیکن منافقین کی طعنہ زنی سے کوئی بھی محفوظ نہ رہا۔
2۔
حضرت ابومسعودانصاری ؓ نے حدیث کے آخر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میں نے بھی اس وقت محنت مزدوری کرکے صدقہ کیا تھا اور آج اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا ہے کہ لاکھوں میں کھیل رہا ہوں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں اس سے مقصود یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قلت مال کے باوجود لوگ محنت مزدوری کرکے صدقہ کیا کرتے تھے۔
اب اللہ تعالیٰ نے ان پر مال وولت کے دروازے کھول دیے ہیں۔
بڑی آسانی کے ساتھ صدقہ خیرات کرتے ہیں۔
انھیں تنگی کا خوف دامن گیر نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 422/8)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4669