تخریج: «أخرجه مسلم، النذر، باب في كفارة النذر، حديث:1645، والترمذي، النذور والأيمان، حديث:1528، وحديث ابن عباس: أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3322، وسنده حسن، وحديث عائشة: أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، حديث:6700، وحديث عمران: أخرجه مسلم، النذر، حديث:1641.»
تشریح:
1.
«کَفَّارَۃُ یَمِینٍ» قسم کا کفارہ ارشاد الٰہی کے مطابق یوں ہے:
﴿اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ﴾ (المآئدۃ۵:۸۹)”دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو‘ یا انھیں کپڑے دینا یا غلام آزاد کرنا ہے۔
جو شخص اس کی ہمت نہ رکھتا ہو تو اسے تین روزے رکھنے ہوں گے۔
یہ ہے تمھاری قسموں کا کفارہ جب تم قسم کھا لو۔
“ 2. امام شوکانی رحمہ اللہ نے نذر سے متعلق تمام روایات کو جمع کرنے کے بعد یہ خلاصہ تحریر کیا ہے کہ اگر معین نذرنیکی سے متعلق ہو‘ لیکن اس پر عمل کرنا طاقت سے باہر ہو تو اس میں قسم کا کفارہ ہے۔
اور اگر وہ انسانی طاقت و وسعت کے اندر ہو تو اس کا پورا کرنا واجب ہے‘ چاہے اس کا تعلق بدن سے ہو یا مال سے۔
اور اگر وہ نذر کسی معصیت کی ہو تو اسے پورا نہ کرنا واجب ہے لیکن اس میں کفارے کی ادائیگی ضروری نہیں۔
جمہور علماء کا یہی موقف ہے، تاہم امام احمد، امام ابو حنیفہ اور بعض محققین کے نزدیک ضروری ہے جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں اس پربحث کی ہے۔
دیکھیے:
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۱ /۸۶۳،۸۶۴، رقم: ۴۷۹) اگر اس نذر کا تعلق جائز اور مباح امر سے ہو اور وہ انسانی طاقت سے بالا بھی نہ ہو تو وہ نذر بھی منعقد ہو جائے گی اور اس میں کفارے کی ادائیگی بھی لازم ہو گی‘ جیسے پیدل حج کرنے والی صحابیہ کو آپ نے پیدل حج پر جانے سے منع فرمایا اور اسے سوار ہونے اور کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
اور اگر وہ کام انسانی طاقت سے بالا ہو تو اس میں کفارہ واجب ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(نیل الأوطار‘ أبواب الأیمان وکفارتھا‘ باب من نذر نذرا لم یسمہ ولا یطیقہ:۸ /۲۷۶۔
۲۷۸)