سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
81. باب مَا جَاءَ فِي نُزُولِ الأَبْطَحِ
81. باب: وادی ابطح میں قیام کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Camping At Al-Abtah
حدیث نمبر: 922
Save to word مکررات اعراب
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عطاء، عن ابن عباس، قال: " ليس التحصيب بشيء، إنما هو منزل نزله رسول الله صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: التحصيب نزول الابطح. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَيْسَ التَّحْصِيبُ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: التَّحْصِيبُ نُزُولُ الْأَبْطَحِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ وادی محصب میں قیام کوئی چیز نہیں ۱؎، یہ تو بس ایک جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- «تحصیب» کے معنی ابطح میں قیام کرنے کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 147 (1766)، صحیح مسلم/الحج 59 (1312) (تحفة الأشراف: 5941) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: محصب میں نزول و اقامت مناسک حج میں سے نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد آرام فرمانے کے لیے یہاں اقامت کی، ظہر و عصر اور مغرب اور عشاء پڑھی اور چودھویں رات گزاری، چونکہ آپ نے یہاں نزول فرمایا تھا اس لیے آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے، خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا، امام مالک امام شافعی اور جمہور اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
   صحيح البخاري1766عبد الله بن عباسليس التحصيب بشيء إنما هو منزل نزله رسول الله
   صحيح مسلم3172عبد الله بن عباسليس التحصيب بشيء إنما هو منزل نزله رسول الله
   جامع الترمذي922عبد الله بن عباسليس التحصيب بشيء إنما هو منزل نزله رسول الله
   مسندالحميدي506عبد الله بن عباسليس المحصب بشيء وإنما هو منزل نزله صلى الله عليه وسلم

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 922 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 922  
اردو حاشہ:
1؎:
محصب میں نزول و اقامت مناسک حج میں سے نہیں ہے،
رسول اللہ ﷺ نے زوال کے بعد آرام فرمانے کے لیے یہاں اقامت کی،
ظہر و عصر اور مغرب اورعشاء پڑھی اور چودھویں رات گزاری،
چونکہ آپ نے یہاں نزول فرمایا تھا اس لیے آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے،
خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا،
امام مالک امام شافعی اور جمہور اہل علم نے رسول اکرم ﷺ اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 922   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:506  
506- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: محصب میں پڑاؤ کرنا کوئی چیز نہیں ہے، وہ صرف ایک پڑاؤ کی جگہ ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:506]
فائدہ:
وادی محصب میں ہے لیکن اس کا تعلق مواضع حج سے نہیں ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 506   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1766  
1766. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ وادی محصب میں پڑاؤ کرناکوئی سنت نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک منزل ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے پڑاؤ کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1766]
حدیث حاشیہ:
محصب میں ٹھہرنا کوئی حج کا رکن نہیں۔
آپ ﷺ وہاں آرام کے لیے اس خیال سے کہ مدینہ کی روانگی وہاں سے آسان ہوگی ٹھہر گئے تھے، چنانچہ عصرین و مغربین آپ نے وہیں ادا کیں، اس پر بھی جب آپ ﷺ وہاں ٹھہرے تو یہ ٹھہرنا مستحب ہو گیا اور آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی وہاں ٹھہرا کرتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1766   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1766  
1766. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ وادی محصب میں پڑاؤ کرناکوئی سنت نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک منزل ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے پڑاؤ کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1766]
حدیث حاشیہ:
(1)
وادئ محصب میں قیام کرنا سنت ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق علمائے سلف میں اختلاف ہے۔
حضرت عائشہ اور ابن عباس ؓ وہاں پڑاؤ کرنے کو مسنون نہیں سمجھتے تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ وہاں زوال کے بعد صرف آرام کرنے کے لیے اترے تھے۔
وہاں عصرین اور مغربین ادا فرمائی تھیں۔
اس مقام پر پڑاؤ کرنا مناسک حج میں سے نہیں۔
حضرت ابن عمر ؓ وہاں پڑاؤ کرنے کو مسنون کہتے تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا وہاں نزول ثابت ہے اور خلفائے راشدین کا بھی اس پر عمل رہا ہے لیکن ان کے نزدیک بھی اس کا حج سے کوئی تعلق نہیں، البتہ اسے ایک الگ سنت قرار دیا جا سکتا ہے۔
(2)
ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا وادئ محصب میں پڑاؤ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ دیا جبکہ مشرکین نے اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لیے اس مقام پر قسمیں اٹھائی تھیں، اس بنا پر وہاں اترنے کو مستحب قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ وہاں سے گزر ہو، البتہ وہاں پڑاؤ کرنے کا مناسک حج سے کوئی تعلق نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1766   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.