سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
The Book on Divorce and Li'an
21. باب مَا جَاءَ فِي الإِيلاَءِ
21. باب: ایلاء کا بیان۔
Chapter: What has been related about Ila'
حدیث نمبر: 1201
Save to word اعراب
حدثنا الحسن بن قزعة البصري، انبانا مسلمة بن علقمة، انبانا داود بن علي، عن عامر، عن مسروق، عن عائشة، قالت: " آلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من نسائه وحرم، فجعل الحرام حلالا، وجعل في اليمين كفارة ". قال: وفي الباب، عن انس، وابي موسى. قال ابو عيسى: حديث مسلمة بن علقمة، عن داود، رواه علي بن مسهر، وغيره، عن داود، عن الشعبي، ان النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا وليس فيه، عن مسروق، عن عائشة، وهذا اصح من حديث مسلمة بن علقمة، والإيلاء: هو ان يحلف الرجل ان لا يقرب امراته اربعة اشهر فاكثر، واختلف اهل العلم فيه إذا مضت اربعة اشهر، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: إذا مضت اربعة اشهر يوقف فإما ان يفيء، وإما ان يطلق، وهو قول: مالك بن انس، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: إذا مضت اربعة اشهر فهي تطليقة بائنة، وهو قول: سفيان الثوري، واهل الكوفة.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ وَحَرَّمَ، فَجَعَلَ الْحَرَامَ حَلَالًا، وَجَعَلَ فِي الْيَمِينِ كَفَّارَةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مَسْلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ، رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا وَلَيْسَ فِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مَسْلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ، وَالْإِيلَاءُ: هُوَ أَنْ يَحْلِفَ الرَّجُلُ أَنْ لَا يَقْرَبَ امْرَأَتَهُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ فَأَكْثَرَ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيهِ إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ يُوقَفُ فَإِمَّا أَنْ يَفِيءَ، وَإِمَّا أَنْ يُطَلِّقَ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ فَهِيَ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایلاء ۱؎ کیا اور (ان سے صحبت کرنا اپنے اوپر) حرام کر لیا۔ پھر آپ نے حرام کو حلال کر لیا اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- مسلمہ بن علقمہ کی حدیث کو جسے انہوں نے داود سے روایت کی ہے: علی بن مسہر وغیرہ نے بھی داود سے (روایت کی ہے مگر) داود نے شعبی سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایلاء کیا۔ اس میں مسروق اور عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں ہے، اور یہ مسلمہ بن علقمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس اور ابوموسیٰ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ایلاء یہ ہے کہ آدمی چار ماہ یا اس سے زیادہ دنوں تک اپنی بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھا لے،
۳- جب چار ماہ گزر جائیں تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب چار ماہ گزر جائیں تو اسے قاضی کے سامنے کھڑا کیا جائے گا، یا تو رجوع کر لے یا طلاق دیدے۔
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب چار ماہ گزر جائیں تو ایک طلاق بائن خودبخود پڑ جاتی ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطلاق 28 (2082) (تحفة الأشراف: 7621) (ضعیف) (سند میں مسلمہ بن علقمہ صدوق تو ہیں مگر ان کا حافظہ کبھی خطا کر جاتا تھا، ان کے بالمقابل ”علی بن مسہر“ زیادہ یاد داشت والے ہیں اور ان کی روایت میں ارسال“ ہے جسے مؤلف نے بیان کر دیا ہے)»

وضاحت:
۱؎: ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں، اور شرع میں ایلاء یہ ہے کہ شوہر جو جماع کی طاقت رکھتا ہو اللہ کے نام کی یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی اس بات پر قسم کھائے کہ وہ اپنی بیوی کو چار ماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے جدا رکھے گا، اور اس سے جماع نہیں کرے گا، اس تعریف کی روشنی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایلاء لغوی اعتبار سے تھا اور مباح تھا کیونکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے ایلاء کیا تھا، اور اس ایلاء کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات نے آپ سے مزید نفقہ کا مطالبہ کیا تھا، ایلاء کرنے والا اگر اپنی قسم توڑ لے تو اس پر کفارہ یمین لازم ہو گا اور کفارہ یمین دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (2574)

قال الشيخ زبير على زئي: (1201) إسناده ضعيف / جه 2072
مسلمة بن علقمه صدوق، روي عن داود أحاديث مناكير، عند الجمھور (انظر تھذيب التھذيب 145/10) والمرسل أصح
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1201 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1201  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں،
اورشرع میں ایلاء یہ ہے کہ شوہر جو جماع کی طاقت رکھتا ہو اللہ کے نام کی یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی اس بات پر قسم کھائے کہ وہ اپنی بیوی کوچار ماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے جدا رکھے گا،
اور اس سے جماع نہیں کرے گا،
اس تعریف کی روشنی سے نبی اکرمﷺ کا یہ ایلاء لغوی اعتبارسے تھا اور مباح تھا کیونکہ آپﷺ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے ایلاء کیا تھا،
اوراس ایلاء کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات نے آپﷺ سے مزید نفقہ کا مطالبہ کیا تھا،
ایلاء کرنے والا اگر اپنی قسم توڑلے تو اس پر کفارٔ یمین لازم ہوگا اور کفارۂ یمین دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑاپہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے،
اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔

نوٹ:
(سند میں مسلمہ بن علقمہ صدوق توہیں مگر ان کا حافظہ کبھی خطا کرجاتا تھا،
ان کے بالمقابل علی بن مسہر زیادہ یاد داشت والے ہیں اور ان کی روایت میں ارسال ہے جسے مؤلف نے بیان کردیاہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1201   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.