عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھاتے تھے تو اکثر «لا ومقلب القلوب» کہتے تھے ”نہیں، دلوں کے بدلنے والے کی قسم“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قسم کھانے کا انداز و طریقہ بیان ہوا ہے کہ پہلے سے جو بات چل رہی تھی اگر صحیح نہ ہوتی تو آپ پہلے لفظ «لا» سے اس کی نفی اور تردید فرماتے، پھر اللہ کے صفاتی نام سے اس کی قسم کھاتے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء سے قسم کھانی جائز ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1540
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں ر سول اللہ ﷺ کے قسم کھانے کا انداز وطریقہ بیان ہوا ہے کہ پہلے سے جوبات چل رہی تھی اگر صحیح نہ ہوتی تو آپ پہلے لفظ ”لا“ سے اس کی نفی اور تردید فرماتے، پھر اللہ کے صفاتی نام سے اس کی قسم کھاتے، یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء سے قسم کھانی جائز ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1540
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1175
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کے الفاظ یہ ہوتے تھے ” نہیں، قسم ہے دلوں کے بدلنے والے کی۔“(بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1175»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب كيف كانت يمين النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:6628.»
تشریح: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قسم کھانے کا انداز و طریقہ بیان ہوا ہے کہ پہلے جو گفتگو یا بات ہو رہی ہوتی تھی اگر درست نہ ہوتی تو آپ پہلے لفظ لا سے اس کی تردید اور نفی فرماتے‘ پھر اللہ کے صفاتی نام سے قسم کھاتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات علیا سے بھی قسم کھانی جائز ہے‘ خواہ اس صفت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہو جیسے علم اور قدرت‘ خواہ صفت فعلی سے ہو جیسا کہ قہر اور غلبہ وغیرہ۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1175
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3792
´ «مقلب القلوب»(دلوں کو پھیرنے والے) کی قسم کھانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو قسم کھاتے تھے وہ یہ تھی «لا ومقلب القلوب»”نہیں، اس کی قسم جو دلوں کو پھیر نے والا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3792]
اردو حاشہ: (1) ان الفاظ کی مناسبت یہ ہے کہ قسم پر قائم رہنا دل کی مضبوطی اور استقامت پر موقوف ہے اور دل اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہیں۔ گویا قسم کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے دل کو قائم رکھے۔ (2) معلوم ہوا کہ قسم میں لفظ اللہ کا ذکر ہو یا اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات میں سے کوئی ایک صفت‘ دونوں برابر ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3792
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3793
´ «مقلب القلوب»(دلوں کو پھیرنے والے) کی قسم کھانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو قسم کھاتے تھے وہ یہ تھی «لا ومصرف القلوب»”نہیں، اس کی قسم جو دلوں کو پھیرنے والا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3793]
اردو حاشہ: (1)”لا“ یہ گزشتہ کلام کا نفی ہے۔ گویا یہ قسم کسی کلام کی نفی کے لیے کھائی گئی ہے۔ ممکن ہے یہ صرف تاکید کے لیے آیا ہو‘ جیسے: ﴿لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾(القیٰمة: 75:1) میں ہے۔ اس صورت میں یہ زائد ہوگا‘ یعنی اس کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا۔ البتہ تاکید حاصل ہوگی۔ (2) ان الفاظ کے ساتھ قسم کھانا مستحب ہے۔ (3) اللہ تعالیٰ کے افعال کے ساتھ قسم کھنا جائز ہے۔ (4) راجح قول کے مطابق یہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے جیسا کہ محقق کتاب نے بھی کہا ہے کہ سابقہ حدیث اس سے کفایت کرتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3793
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3263
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کیسی ہوتی تھی؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اس طرح قسم کھاتے تھے: «لا، ومقلب القلوب»”نہیں! قسم ہے دلوں کے پھیرنے والے کی۔“[سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3263]
فوائد ومسائل: 1۔ اللہ عزوجل کی صفات کے ساتھ قسم کھانا عین توحید ہے۔ 2۔ قسم کے شروع میں لا لگانا عربی زبان کا معروف اسلوب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3263
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2092
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم اور حلف کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم اکثر یوں ہوتی تھی: «لا ومصرف القلوب»”قسم ہے اس ذات کی جو دلوں کو پھیرنے والا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2092]
اردو حاشہ: فائدہ: مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے، نیز صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر ؓ ہی سے «لَا وَمُصَرِّفِ الْقُلُوبِ» کی بجائے «لَا وَمُقَلِّبِ الْقُلُوبِ» الفاظ مروی ہیں۔ بنابریں ان الفاظ ساتھ قسم کھانا جائز ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحیحة، رقم: 2090، و سنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 2092)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2092
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6628
6628. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی ﷺ کی قسم لاومقلب القلوب ہوتی تھی، یعنی دلوں کو پھیرنے والے کی قسم۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6628]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے یہ نکلا کہ اللہ کی صفت کے ساتھ قسم کھنا صحیح ہوگا اور وہ شرعی قسم ہوگی، بوقت ضرورت اس کا کفارہ بھی لازم ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6628
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7391
7391. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ بکثرت یہ قسم اٹھایا کرتے تھے: ”دلوں کو پھیرنے والے کی قسم!“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7391]
حدیث حاشیہ: میں یہ بات نہیں کہوں گا یا یہ کام نہیں کروں گا دلوں کے پھیرنے والے کی قسم دلوں کا پھیرنا یہ بھی اللہ کی صفت ہے اور یہ اسی کے ہاتھ میں ہے وہ اس صفت میں بھی وحدہ لا شریک لہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7391
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6617
6617. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اکثر طور پر یوں قسم اٹھایا کرتے تھے: ”نہیں، دلوں کو پھیرنے والے کی قسم!۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6617]
حدیث حاشیہ: (1) مقلب القلوب کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل کو ایمان سے کفر اختیار کرنے کی طرف اور کفر سے ایمان اختیار کرنے کی طرف پھیرنے والا ہے، یعنی ایک مومن کو کافر بنانے اور کافر کو کفر اختیار کرانے پر قادر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ انسان کے دل کی مثال اس پَر کی طرح ہے جو ایک چٹیل میدان میں پڑا ہو اور تیز و تند ہوائیں اس کو کبھی سیدھا اور کبھی الٹا کر رہی ہوں۔ (مسند أحمد: 419/4) ایک وسیع جنگل میں تیز و تند ہوا اور ایک ذرا سے پَر کا بھلا کیا مقابلہ ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد دل کے ارادوں کو پھیرنا ہے، چنانچہ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام انسانوں کے دل رحمٰن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے۔ “ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا فرمائی: ”اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری پر جھکائے رکھنا۔ “(مسند أحمد: 251/6)(3) حق تعالیٰ کی علی الاطلاق قدرت اور بندوں کی انتہائی بے چارگی کا نقشہ اس سے زیادہ مؤثر اور مختصر انداز میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ دعا سنی تو عرض کرنے لگے کہ جب ہم آپ پر ایمان لا چکے ہیں تو کیا آپ کو ہمارے متعلق اب بھی کوئی خطرہ باقی ہے تو آپ نے وہی الفاظ بیان فرمائے جو پہلی حدیث میں بیان ہو چکے ہیں۔ (جامع الترمذي، القدر، حدیث: 2140) اس کا مطلب یہ ہے کہ مقام صحابیت پر فائز ہو جانے کے بعد بھی کوئی شخص قضا و قدر کے قاہرانہ تصرف سے بے خوف نہیں ہو سکتا۔ شان بندگی اسی میں ہے کہ کسی بلند سے بلند مقام پر پہنچ جانے کے بعد بھی مختار کل کے اختیارات سے انسان ڈرتا رہے۔ اس سے یہ بات بھی پیش نظر رہتی چاہیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جو بڑی حد تک ان خطرات سے محفوظ تھے، جب ان کے متعلق بارگاہ نبوت سے یہ جواب ملا تو پھر ہم جیسے کمزور و ناتواں لوگوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6617
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7391
7391. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ بکثرت یہ قسم اٹھایا کرتے تھے: ”دلوں کو پھیرنے والے کی قسم!“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7391]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت اس طرح قسم اٹھاتے تھے۔ (لا، وَمُصَرّف القلوب) "دلوں میں تصرف کرنے والے کی قسم۔ " (سنن ابن ماجة، الکفارات، حدیث: 2092) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ قلب کے جتنے اعمال ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں مثلاً: دل کا ارادہ کرنا اس میں کسی خواہش کا پیدا ہونا نیز ایک حالت سے دوسری حال کی طرف پھرنا وغیرہ۔ (فتح الباري: 642/11) 2۔ قلب کو قلب اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بکثرت ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھرتا رہتا ہے اگرچہ دل کا پھرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی۔ ”بنو آدم کے تمام دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں گویا وہ ایک دل کی طرح ہیں اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے انھیں پھیرتا رہتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہتے"اے دلوں کو پھیرنے والے!ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیردے۔ “(صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6750)(2654) 3۔ دلوں کو پھیرنے کی صفت فعلی ہے جس کا مرجع قدرت ہے فعلی صفات نوعیت کے لحاظ سے قدیم ہیں لیکن بندے سے تعلق کے اعتبار سے حادث ہیں اللہ تعالیٰ ازل ہی سے اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے خالق ہے اس کے سوا ہر چیز مخلوق ہے۔ اس کی صفات میں کوئی صفت مخلوق یا حادث نہیں ہے البتہ فعلی صفات کا بندے سے تعلق حادث ہوتا ہے صفات فعلی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوتی ہیں۔ بہر حال مذکورہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بندوں کے دلوں کا مالک ہے انھیں جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے پھیرنے کا ختیار رکھتا ہے۔ کوئی بھی اس صفت میں اس کا شریک نہیں۔ کائنات میں کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوتی۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بندہ ہر آن اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے ایک لمحے کے لیے بھی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا اگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور توفیق ہدایت نہ ملے تو دنیا میں بھی ذلیل و خوار اور آخرت میں سخت ترین عذاب میں گرفتار ہو گا اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ پراٹل ہے کہ بندہ بااختیار اور مکلف ہے اور اسی ارادے واختیار پر قیامت کے دن جز اوسزا مرتب ہو گی۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 214/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7391