حدثنا عبد الوهاب بن الحكم الوراق البغدادي، حدثنا عبد المجيد بن عبد العزيز، عن ابن جريج، عن المطلب بن حنطب، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عرضت علي اجور امتي حتى القذاة يخرجها الرجل من المسجد، وعرضت علي ذنوب امتي فلم ار ذنبا اعظم من سورة من القرآن او آية اوتيها رجل ثم نسيها "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، قال: وذاكرت به محمد بن إسماعيل، فلم يعرفه واستغربه، قال محمد: ولا اعرف للمطلب بن عبد الله بن حنطب سماعا من احد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إلا قوله: حدثني من شهد خطبة النبي صلى الله عليه وسلم، قال: وسمعت عبد الله بن عبد الرحمن، يقول: لا نعرف للمطلب سماعا من احد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال عبد الله: وانكر علي بن المديني ان يكون المطلب سمع من انس.حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْن حَنْطَبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ أُجُورُ أُمَّتِي حَتَّى الْقَذَاةُ يُخْرِجُهَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ ذُنُوبُ أُمَّتِي فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ أَوْ آيَةٍ أُوتِيهَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِيَهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَذَاكَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، فَلَمْ يَعْرِفْهُ وَاسْتَغْرَبَهُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا أَعْرِفُ لِلْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ سَمَاعًا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَوْلَهُ: حَدَّثَنِي مَنْ شَهِدَ خُطْبَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: لَا نَعْرِفُ لِلْمُطَّلِبِ سَمَاعًا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَأَنْكَرَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ أَنْ يَكُونَ الْمُطَّلِبِ سَمِعَ مِنْ أَنَسٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے نیک اعمال کے اجر و ثواب میرے سامنے پیش کیے گئے یہاں تک کہ اس تنکے کا ثواب بھی پیش کیا گیا جسے آدمی مسجد سے نکال کر پھینک دیتا ہے۔ اور مجھ پر میری امت کے گناہ (بھی) پیش کیے گئے تو میں نے کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہیں دیکھا کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورۃ یا کوئی آیت یاد ہو اور اس نے اسے بھلا دیا ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- میں نے اس حدیث کا تذکرہ محمد بن اسماعیل بخاری سے کیا تو اس کو وہ پہچان نہ سکے اور انہوں نے اس حدیث کو غریب قرار دیا، ۴- محمد بن اسماعیل بخاری نے یہ بھی کہا کہ میں نہیں جانتا کہ مطلب بن عبداللہ کی کسی صحابی رسول سے سماع ثابت ہے، سوائے مطلب کے اس قول کے کہ مجھ سے اس شخص نے روایت کی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضرین میں موجود تھا، ۵- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن (دارمی) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہم مطلب کا سماع کسی صحابی رسول سے نہیں جانتے، ۶- عبداللہ (دارمی یہ بھی) کہتے ہیں: علی بن مدینی اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ مطلب نے انس سے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 16 (461) (تحفة الأشراف: 1592) (ضعیف) (سند میں مطلب اور ابن جریج دونوں مدلس راوی ہیں اور عنعنہ سے روایت ہے، نیز دونوں (مطلب اور انس) کے درمیان سند میں انقطاع بھی ہے، ملاحظہ ہو ضعیف أبی داود 1/164)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (720)، الروض النضير (72)، ضعيف أبي داود (71) // عندنا برقم (88 / 461)، ضعيف الجامع الصغير (3700) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2916) إسناده ضعيف / د 461
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2916
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں مطلب اور ابن جریج دونوں مدلس راوی ہیں اور عنعنہ سے روایت ہے، نیز دونوں (مطلب اور انس) کے درمیان سند میں انقطاع بھی ہے، ملاحظہ ہو ضعیف أبی داؤد: 1/ 164)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2916
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 461
´مسجد میں جھاڑو دینے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر میری امت کے ثواب پیش کئے گئے یہاں تک کہ وہ تنکا بھی جسے آدمی مسجد سے نکالتا ہے، اور مجھ پر میری امت کے گناہ پیش کئے گئے تو میں نے دیکھا کہ اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت یاد ہو پھر وہ اسے بھلا دے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 461]
461۔ اردو حاشیہ: ➊ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ”غریب“ مگر امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے ”صحیح“ کہا ہے۔ علامہ خطابی رحمہ اللہ ناقل ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر کہتے ہیں مطلب بن عبداللہ کو کسی صحابی سے سماع نہیں ہے۔ نیز عبدالمجید بن عبدالعزیز پر بھی کلام ہے، بہرحال دوسری صحیح روایات سے مسجد کی صفائی ستھرائی کی فضیلت ثابت ہے۔ جیسے کہ ایک صحابیہ نے مسجد کی صفائی کو اپنا معمول بنایا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جا کر اس کا جنازہ پڑھا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث: 458] ➋ اسی طرح قرآن مجید یاد کر کے بھلا دینا بھی مہجوری کی ذیل میں آ سکتا ہے، اس لیے یہ بھی قابل گرفت ہو سکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 461
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 208
´مساجد کا بیان` سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھ پر میری امت کے (اعمال کے) ثواب پیش کیے گئے، یہاں تک کہ اس تنکے کا ثواب بھی ان میں شامل تھا، جسے آدمی مسجد سے نکال کر باہر پھینکتا ہے۔“ اس حدیث کو ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے غریب کہا ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 208]
208 لغوی تشریح: «عُرِضَتْ» صیغہ غائب مجمول ہے۔ ظاہر کئے گئے، سامنے لائے گئے۔ «أُجُورُ أُمَّتِي» یہ «عُرِضَتْ» کا نائب فاعل ہے۔ میری امت کے نامہ اعمال۔ «عَلَيَّ»”یا“ پر تشدید ہے۔ حرف «جرعلى» کی ”یا“ کو یائے متکلم میں مدغم کر دیا گیا ہے۔ «اَلْقَذَاةُ» ”قاف“ پر فتحہ اور ”ذال“ مخفف ہے۔ تنکا وغیرہ، جو مشرو ب میں گر جاتا ہے یا آنکھ میں پڑ جاتا ہے یا گھروں کے اندر عموماً پڑا ہوتا ہے۔ «وَاسْتَغْرَبَهُ» اسے غریب کہا ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی سے معمولی کام بھی اجر و ثواب سے خالی نہیں۔ ➋ مساجد کی صفائی اور پاکیزگی کی اسلام نے بہت تاکید کی ہے۔ تنکا بھی مسجد میں رہنے نہ دیا جائے۔ جو شخص اتنا سا معمولی کام کرتا ہے (تنکا اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے) تو اس پر بھی اسے ضرور اجر ملے گا۔ ➌ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو غریب اس وجہ سے کہا ہے کہ اس کی سند میں مطلب بن عبداللہ راوی ہے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کرتا ہے، حالانکہ مطلب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ بلکہ کسی بھی صحابی سے سماع نہیں کیا۔ بہرحال دوسری صحیح روایات سے مسجد کی صفائی ستھرائی کی فضیلت ثابت ہے جیسے کہ ایک صحابیہ نے مسجد کی صفائی کو اپنا معمول بنایا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جا کر اس کا جنازہ پڑھا تھا۔ [صحيح بخاري/الصلاة: ح 458]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 208