الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
31. باب أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ:
31. باب: پنجگانہ اوقات نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 1379
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح، قال: وحدثنا ابن رمح ، اخبرنا الليث ، عن ابن شهاب ، " ان عمر بن عبد العزيز، اخر العصر شيئا، فقال له عروة : اما إن جبريل، قد نزل، فصلى إمام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له عمر: اعلم ما تقول يا عروة، فقال: سمعت بشير بن ابي مسعود ، يقول: سمعت ابا مسعود ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " نزل جبريل، فامني، فصليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، يحسب باصابعه خمس صلوات ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح، قَالَ: وحَدَّثَنَا ابْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، " أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ : أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ، قَدْ نَزَلَ، فَصَلَّى إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " نَزَلَ جِبْرِيلُ، فَأَمَّنِي، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ ".
) لیث نے ابن شہاب سے روایت کی کہ ایک دن عمر بن عبدالعزیز نےعصر کی نمازمیں کچھ تاخیر کردی تو عروہ نے ان سے کہا: بات یوں ہے کہ جبریل رضی اللہ عنہ نازل ہوئے اور امام بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے عروہ! جان لیں (سمجھ لیں) آپ کیا کہہ رہے ہیں! انھوں نے کہا: میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا، وہ کہتے تھے: میں نے ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرما رہے تھے: جبریل رضی اللہ عنہ اترے اور انھوں نے (نمازمیں) میری امامت کی، میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ وہ اپنی انگلیوں سے پانچ نمازیں شمار کرتے تھے۔
امام ابن شہاب رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز کچھ تاخیر سے پڑھی تو عروہ نے ان سے کہا، جبریل علیہ السلام نے نازل ہو کر، امام بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی تو عمر نے اس سے کہا، اے عروہ! سوچ سمجھ کر بات کرو تو اس نے کہا، میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا، اس نے ابو مسعود سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل اترے اور مجھے نماز پڑھائی، میں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی، پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی، پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی، پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی، وہ اپنی انگلیوں سے پانچ نمازیں شمار کرتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 610
   صحيح البخاري4007عقبة بن عمرونزل جبريل فصلى فصلى رسول الله خمس صلوات ثم قال هكذا أمرت
   صحيح البخاري3221عقبة بن عمرونزل جبريل فأمني فصليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه يحسب بأصابعه خمس صلوات
   صحيح مسلم1379عقبة بن عمرونزل جبريل فأمني فصليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه يحسب بأصابعه خمس صلوات
   صحيح مسلم1380عقبة بن عمروجبريل نزل فصلى فصلى رسول الله ثم صلى فصلى رسول الله ثم صلى فصلى رسول الله ثم صلى فصلى رسول الله ثم صلى فصلى رسول الله
   سنن النسائى الصغرى495عقبة بن عمرونزل جبريل فأمني فصليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه يحسب بأصابعه خمس صلوات
   سنن ابن ماجه668عقبة بن عمرونزل جبريل فأمني فصليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه يحسب بأصابعه خمس صلوات

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 495  
´جبرائیل علیہ السلام کی امامت کا بیان۔`
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے عصر میں کچھ تاخیر کر دی، تو عروہ نے ان سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے، اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی ۱؎ اس پر عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو تم کہہ رہے ہو اسے خوب سوچ سمجھ کر کہو، تو عروہ نے کہا: میں نے بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ابومسعود سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جبرائیل اترے، اور انہوں نے میری امامت کرائی، تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں نمازوں کو گن رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 495]
495 ۔ اردو حاشیہ:
➊حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے نماز عصر کو مستحب وقت سے کچھ مؤخر کیا تھا، نہ کہ کل وقت سے۔ اور یہ ولید بن عبدالملک کے دور کی بات ہے جبکہ آپ اس کی طرف سے مدینے کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ حضرت عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کا وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے حتیٰ کہ وقت بتلانے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام اترے تھے، لہٰذا نماز کی ادائیگی میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔
➋حضرت جبریل علیہ السلام نے دو دن نماز پڑھائی تھی۔ پہلے دن سب نمازیں اول وقت میں اور دوسرے دن آخر وقت میں۔ اس روایت میں اوقات ذکر نہیں کیے گئے کیونکہ مقصد صرف یہ بتلانا تھا کہ جبریل علیہ السلام نے اوقات بتلائے تھے، اوقات کا علم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو پہلے سے تھا۔ ان کے بارے میں منقول ہے کہ مذکورہ روایت سننے کے بعد انہوں نے کبھی نماز میں تاخیر نہیں کی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائي: 6؍241۔ 255]
➌امراء اگر کسی خلاف سنت کام کا ارتکاب کریں تو اہل علم کی ذمے داری ہے کہ ان کی اصلاح کریں اور گاہے گاہے انہیں تنبیہ کرتے رہیں۔
➍عالم دین سے مسئلے کی دلیل طلب کی جا سکتی ہے اور عالم کو چاہیے کہ وہ خالص کتاب و سنت کے دلائل سے سائل کی تشفی کرائے۔
➎اختلاف کے وقت قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
➏خبر واحد حجت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 495   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث668  
´اوقات نماز کا بیان۔`
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کے گدوں پہ بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت عمر بن عبدالعزیز مدینہ منورہ کے امیر تھے، اور ان کے ساتھ عروہ بن زبیر بھی تھے، عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز میں کچھ دیر کر دی تو ان سے عروہ نے کہا: سنیے! جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت فرمائی، تو ان سے عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو کچھ کہہ رہے ہو سوچ سمجھ کر کہو؟ اس پر عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا کہ میں نے اپنے والد ابی مسعود رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 668]
اردو حاشہ:
(1)
قرآن مجید میں نماز کو وقت پر پڑھنے کا حکم ہے جیسے کہ ارشاد ہے کہ ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾  (النساء: 4؍103)
 مومنون پر مقرره اوقات میں نماز ادا کرنا فرض ہے۔
اس کی وضاحت بھی وحی کے ساتھ عملی طور پر کی گئی۔

(2)
اوقات نماز کی تعیین کے لیے جبرئیل علیہ السلام کا ہر نماز کے وقت نازل ہونا نماز کی اور خصوصاً نماز با جماعت کی اہمیت بھی واضح كرتا ہے۔

(3)
اسلامی معاشرے میں بڑے سے بڑا عہدے دار تنقید سے بالا تر نہیں لیکن تنقید کرتے وقت ادب واحترام کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

(4)
اگرمسئلہ واضح نہ ہوتو مسئلہ بتانے والے سے وضاحت طلب کی جاسکتی ہے۔
یہ احترام کے منافی نہیں۔

(5)
اگر کوئی شخص حدیث سن کر کسی اشکال کی وجہ سے اسے تسلیم کرنے میں توقف کرے تو اسے حدیث کا منکر قرار نہیں دینا چاہیے بلکہ اس کے اشکال کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

(6)
حدیث کی سندیں بیان کرنے کا سلسلہ تابعین کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔
جس کے نتیجے میں صحیح اور ضعیف احا دیث میں امتیاز کرنا آسان ہوگیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 668   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.