صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
31. باب أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ:
31. باب: پنجگانہ اوقات نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 1393
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا بدر بن عثمان ، حدثنا ابو بكر بن ابي موسى ، عن ابيه ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه اتاه سائل، يساله عن مواقيت الصلاة، فلم يرد عليه شيئا، قال: " فاقام الفجر حين انشق الفجر، والناس لا يكاد يعرف بعضهم بعضا، ثم امره، فاقام بالظهر حين زالت الشمس، والقائل، يقول: قد انتصف النهار، وهو كان اعلم منهم، ثم امره، فاقام بالعصر والشمس مرتفعة، ثم امره، فاقام بالمغرب حين وقعت الشمس، ثم امره، فاقام العشاء حين غاب الشفق، ثم اخر الفجر من الغد حتى انصرف منها، والقائل يقول: قد طلعت الشمس او كادت، ثم اخر الظهر، حتى كان قريبا من وقت العصر بالامس، ثم اخر العصر، حتى انصرف منها، والقائل يقول: قد احمرت الشمس، ثم اخر المغرب حتى كان عند سقوط الشفق، ثم اخر العشاء حتى كان ثلث الليل الاول، ثم اصبح فدعا السائل، فقال: الوقت بين هذين ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ أَتَاهُ سَائِلٌ، يَسْأَلُهُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا، قَالَ: " فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ، وَالنَّاسُ لَا يَكَادُ يَعْرِفُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ بِالظُّهْرِ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، وَالْقَائِلُ، يَقُولُ: قَدِ انْتَصَفَ النَّهَارُ، وَهُوَ كَانَ أَعْلَمَ مِنْهُمْ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ بِالْعَصْرِ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ بِالْمَغْرِبِ حِينَ وَقَعَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْفَجْرَ مِنَ الْغَدِ حَتَّى انْصَرَفَ مِنْهَا، وَالْقَائِلُ يَقُولُ: قَدْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ أَوْ كَادَتْ، ثُمَّ أَخَّرَ الظُّهْرَ، حَتَّى كَانَ قَرِيبًا مِنْ وَقْتِ الْعَصْرِ بِالأَمْسِ، ثُمَّ أَخَّرَ الْعَصْرَ، حَتَّى انْصَرَفَ مِنْهَا، وَالْقَائِلُ يَقُولُ: قَدِ احْمَرَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى كَانَ عِنْدَ سُقُوطِ الشَّفَقِ، ثُمَّ أَخَّرَ الْعِشَاءَ حَتَّى كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الأَوَّلِ، ثُمَّ أَصْبَحَ فَدَعَا السَّائِلَ، فَقَالَ: الْوَقْتُ بَيْنَ هَذَيْنِ ".
‏‏‏‏ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک سائل حاضر ہوا اور نماز کے اوقات پوچھنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کچھ جواب نہ دیا (اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کر کے بتانا منظور تھا) پھر فجر ادا کی جب فجر نکلی اور لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے نہ تھے۔ (یعنی اندھیرے کے سبب سے) پھر حکم کیا اور ظہر ادا کی جب آفتاب ڈھل گیا اور کہنے والا کہتا تھا کہ دوپہر ہو گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر جانتے تھے۔ پھر ان کو حکم کیا اور عصر کی نماز ادا کی اور سورج بلند تھا۔ پھر ان کو حکم کیا اور ادا کی مغرب جب سورج ڈوب گیا۔ پھر حکم کیا ان کو اور ادا کی عشاء جب ڈوب گئی شفق پھر حکم کیا فجر کا دوسرے دن اور جب اس سے فارغ ہوئے تو کہنے والا کہتا تھا کہ سورج نکل آیا یا نکلنے کو ہے۔ پھر تاخیر کی ظہر میں یہاں تک کہ قریب ہو گیا کل کے عصر پڑھنے کا وقت۔ پھر تاخیر کی عصر میں یہاں تک کہ جب فارغ ہوئے کہنے والا کہتا تھا کہ آفتاب سرخ ہو گیا پھر تاخیر کی مغرب کی کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہو گئی۔ پھر تاخیر کی عشاء کی یہاں تک کہ تہائی رات ہوگئی اول کی۔ پھر صبح ہوئی اور سائل کو بلایا اور فرمایا: نماز کے اوقات ان دونوں وقتوں کے بیچ میں ہیں۔
10364 - D 1393 - U
ترقیم فوادعبدالباقی: 614
   سنن النسائى الصغرى524عبد الله بن قيسأمر بلالا فأقام بالفجر حين انشق
   صحيح مسلم1393عبد الله بن قيسأقام الفجر حين انشق الفجر والناس لا يكاد يعرف بعضهم بعضا
   سنن أبي داود395عبد الله بن قيسأقام الفجر حين انشق الفجر فصلى حين كان الرجل لا يعرف وجه صاحبه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 524  
´مغرب کے اخیر وقت کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سائل آیا وہ آپ سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جس وقت فجر کی پو پھٹ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی جب سورج ڈھل گیا، اور کہنے والے نے کہا: کیا دوپہر ہو گئی؟ حالانکہ وہ خوب جانتا ہوتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی جبکہ سورج بلند تھا، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی تکبیر کہی جب سورج ڈوب گیا، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت کہی جب شفق غائب ہو گئی، پھر دوسرے دن آپ نے فجر کو مؤخر کیا جس وقت پڑھ کر لوٹے تو کہنے والے نے کہا کہ سورج نکل آیا، پھر ظہر کو کل کے عصر کی وقت کے قریب وقت تک مؤخر کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کو دیر سے پڑھی یہاں تک کہ پڑھ کر لوٹے تو کہنے والے نے کہا سورج سرخ ہو گیا ہے، پھر آپ نے مغرب دیر سے پڑھی یہاں تک کہ شفق کے ڈوبنے کا وقت ہو گیا، پھر عشاء کو آپ نے تہائی رات تک مؤخر کیا، پھر فرمایا: نماز کا وقت ان دو وقتوں کے درمیان ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 524]
524 ۔ اردو حاشیہ:
سایہ تسمے کے برابر تھا۔ یعنی دیواروں کی مشرقی جانب ابھی معمولی سا سایہ آیا تھا، جیسے دیوار کے ساتھ ساتھ تسمہ بچھا دیا جائے، یعنی باریک سی لائن کی طرح، گویا سورج ڈھلتے ہی۔
➋عصر کی نماز کے وقت یہی تسمہ مثل اول سے زائد تھا، یعنی معمولی سا زائد سایہ جو تسمے کی موٹائی کے برابر تھا۔
➌مغرب کی نماز کا آخری وقت غروب شفق ہے جیسا کہ گزشتہ احادیث میں صراحت سے ذکر ہے مگر چونکہ مغرب کا وقت مختصر ہوتا ہے، اس لیے عموماً غروب شمس ہی کے ساتھ پڑھ لی جاتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں دوسرے دن بھی غروب شمس ہی کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، اس لیے بعض فقہاء نے کہہ دیا کہ مغرب کی نماز کا اول وآخر وقت ایک ہی ہے لیکن صحیح بات وہ ہے جو پیچھے بیان ہوئی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 524