الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جمعہ کے بیان میں
The Book of Al-Jumuah (Friday)
11. بَابُ الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى وَالْمُدْنِ:
11. باب: گاؤں اور شہر دونوں جگہ جمعہ درست ہے۔
(11) Chapter. To offer the Salat-ul-Jumuah [prayer and Khutba (religious talk)] in villages and towns.
حدیث نمبر: 893
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا بشر بن محمد، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا يونس، عن الزهري، قال: اخبرنا سالم بن عبد الله، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: كلكم راع وزاد الليث، قال: يونس كتب رزيق بن حكيم إلى ابن شهاب، وانا معه يومئذ بوادي القرى هل ترى ان اجمع ورزيق عامل على ارض يعملها وفيها جماعة من السودان وغيرهم ورزيق يومئذ على ايلة، فكتب ابن شهاب وانا اسمع يامره ان يجمع يخبره، ان سالما حدثه، ان عبد الله بن عمر يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته، الإمام راع ومسئول عن رعيته، والرجل راع في اهله وهو مسئول عن رعيته، والمراة راعية في بيت زوجها ومسئولة عن رعيتها، والخادم راع في مال سيده ومسئول عن رعيته"، قال: وحسبت ان قد قال والرجل راع في مال ابيه ومسئول عن رعيته، وكلكم راع ومسئول عن رعيته.حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: كُلُّكُمْ رَاعٍ وَزَادَ اللَّيْثُ، قَالَ: يُونُسُ كَتَبَ رُزَيْقُ بْنُ حُكَيْمٍ إِلَى ابْنِ شِهَابٍ، وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَئِذٍ بِوَادِي الْقُرَى هَلْ تَرَى أَنْ أُجَمِّعَ وَرُزَيْقٌ عَامِلٌ عَلَى أَرْضٍ يَعْمَلُهَا وَفِيهَا جَمَاعَةٌ مِنْ السُّودَانِ وَغَيْرِهِمْ وَرُزَيْقٌ يَوْمَئِذٍ عَلَى أَيْلَةَ، فَكَتَبَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَنَا أَسْمَعُ يَأْمُرُهُ أَنْ يُجَمِّعَ يُخْبِرُهُ، أَنَّ سَالِمًا حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"، قَالَ: وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ.
ہم سے بشر بن محمد مروزی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہیں سالم بن عبداللہ نے ابن عمر سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور لیث نے اس میں یہ زیادتی کی کہ یونس نے بیان کیا کہ رزیق بن حکیم نے ابن شہاب کو لکھا، ان دنوں میں بھی وادی القریٰ میں ابن شہاب کے پاس ہی تھا کہ کیا میں جمعہ پڑھا سکتا ہوں۔ رزیق (ایلہ کے اطراف میں) ایک زمین کاشت کروا رہے تھے۔ وہاں حبشہ وغیرہ کے کچھ لوگ موجود تھے۔ اس زمانہ میں رزیق ایلہ میں (عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے) حاکم تھے۔ ابن شہاب رحمہ اللہ نے انہیں لکھوایا، میں وہیں سن رہا تھا کہ رزیق جمعہ پڑھائیں۔ ابن شہاب رزیق کو یہ خبر دے رہے تھے کہ سالم نے ان سے حدیث بیان کی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہو گا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔

Narrated Ibn `Umar: I heard Allah's Apostle saying, "All of you are Guardians." Yunis said: Ruzaiq bin Hukaim wrote to Ibn Shihab while I was with him at Wadi-al-Qura saying, "Shall I lead the Jumua prayer?" Ruzaiq was working on the land (i.e. farming) and there was a group of Sudanese people and some others with him; Ruzaiq was then the Governor of Aila. Ibn Shihab wrote (to Ruzaiq) ordering him to lead the Jumua prayer and telling him that Salim told him that `Abdullah bin `Umar had said, "I heard Allah's Apostle saying, 'All of you are guardians and responsible for your wards and the things under your care. The Imam (i.e. ruler) is the guardian of his subjects and is responsible for them and a man is the guardian of his family and is responsible for them. A woman is the guardian of her husband's house and is responsible for it. A servant is the guardian of his master's belongings and is responsible for them.' I thought that he also said, 'A man is the guardian of his father's property and is responsible for it. All of you are guardians and responsible for your wards and the things under your care."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 18

   صحيح البخاري5200عبد الله بن عمركلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته الأمير راع الرجل راع على أهل بيته المرأة راعية على بيت زوجها وولده
   صحيح البخاري5188عبد الله بن عمركلكم راع وكلكم مسئول الإمام راع وهو مسئول الرجل راع على أهله وهو مسئول المرأة راعية على بيت زوجها وهي مسئولة العبد راع على مال سيده وهو مسئول
   صحيح البخاري2558عبد الله بن عمركلكم راع ومسئول عن رعيته الإمام راع ومسئول عن رعيته الرجل في أهله راع وهو مسئول عن رعيته المرأة في بيت زوجها راعية وهي مسئولة عن رعيتها الخادم في مال سيده راع وهو مسئول عن رعيته
   صحيح البخاري7138عبد الله بن عمركلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته الإمام الذي على الناس راع وهو مسئول عن رعيته الرجل راع على أهل بيته وهو مسئول عن رعيته المرأة راعية على أهل بيت زوجها وولده وهي مسئولة عنهم عبد الرجل راع على مال سيده وهو مسئول عنه كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته
   صحيح البخاري2409عبد الله بن عمركلكم راع ومسئول عن رعيته الإمام راع وهو مسئول عن رعيته الرجل في أهله راع وهو مسئول عن رعيته المرأة في بيت زوجها راعية وهي مسئولة عن رعيتها الخادم في مال سيده راع وهو مسئول عن رعيته
   صحيح البخاري2554عبد الله بن عمركلكم راع فمسئول عن رعيته الأمير الذي على الناس راع وهو مسئول عنهم الرجل راع على أهل بيته وهو مسئول عنهم المرأة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسئولة عنهم العبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه ألا فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته
   صحيح البخاري2751عبد الله بن عمركلكم راع ومسئول عن رعيته الإمام راع ومسئول عن رعيته الرجل راع في أهله ومسئول عن رعيته المرأة في بيت زوجها راعية ومسئولة عن رعيتها الخادم في مال سيده راع ومسئول عن رعيته الرجل راع في مال أبيه
   صحيح البخاري893عبد الله بن عمركلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته الإمام راع ومسئول عن رعيته الرجل راع في أهله وهو مسئول عن رعيته المرأة راعية في بيت زوجها ومسئولة عن رعيتها الخادم راع في مال سيده ومسئول عن رعيته
   صحيح مسلم4724عبد الله بن عمركلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته الأمير الذي على الناس راع وهو مسئول عن رعيته الرجل راع على أهل بيته وهو مسئول عنهم المرأة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسئولة عنهم العبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه
   جامع الترمذي1705عبد الله بن عمركلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته الأمير الذي على الناس راع ومسئول عن رعيته الرجل راع على أهل بيته وهو مسئول عنهم المرأة راعية على بيت بعلها وهي مسئولة عنه العبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه
   سنن أبي داود2928عبد الله بن عمركلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته الأمير الذي على الناس راع عليهم وهو مسئول عنهم الرجل راع على أهل بيته وهو مسئول عنهم المرأة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسئولة عنهم العبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه
   المعجم الصغير للطبراني1012عبد الله بن عمر كل راع مسئول عن رعيته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1705  
´امام اور حاکم کی ذمہ داریوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے، چنانچہ لوگوں کا امیر ان کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے، اسی طرح مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے، غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1705]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو جس چیز کا ذمہ دار ہے اس سے اس چیز کے متعلق باز پرس بھی ہوگی،
اب یہ ذمہ دار کا کام ہے کہ اپنے متعلق یہ احساس و خیال رکھے کہ اسے اس ذمہ دار ی کا حساب وکتاب بھی دینا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1705   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2928  
´امام (حکمراں) پر رعایا کے کون سے حقوق لازم ہیں؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہو گی ۱؎ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ۲؎ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا و مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2928]
فوائد ومسائل:
ہر فرد اپنے دائرہ اختیار میں اپنی حدود تک ان سب کا محافظ وذمہ دار ہے۔
لہذا کوئی بھی اپنے دینی و دنیاوی فرائض ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔
یہی احساس ذمہ داری ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔


بچوں کی تعلیم وتربیت میں ماں باپ دونوں شریک ہوتے ہیں۔
مگر ماں کی ذمہ داری ایک اعتبار سے زیادہ ہے کہ بچے فطرتا اسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اور زیادہ تر اسی کی رعیت اور نگرانی میں رہتے ہیں۔
اس لئے شریعت نے اس کو بچوں پر راعی (نگران) بنایا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2928   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 893  
893. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر شخص نگران ہے۔ راوی حدیث حضرت لیث نے اس حدیث کو کچھ اضافے کے ساتھ بیان کیا ہے: (میرے شیخ) یونس نے کہا کہ میں ان دنوں وادی القریٰ میں ابن شہاب زہری کے ساتھ تھا جب رُزیق بن حکیم نے امام ابن شہاب کو لکھ بھیجا کہ یہاں جمعہ قائم کرنے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ رزیق ان دنوں (حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کی طرف سے) ایلہ کے گورنر تھے اور اس کے اطراف میں ایک زمین کے فارم میں کاشت کاری کراتے تھے، وہاں حبشیوں اور دوسرے لوگوں کی ایک جماعت آباد تھی۔ اندریں حالات امام ابن شہاب زہری نے جواب لکھا کہ وہاں اقامت جمعہ کا اہتمام کریں۔ یونس کہتے ہیں کہ میں ان کا جواب سن رہا تھا، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ کی یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اپنی رعیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:893]
حدیث حاشیہ:
مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ نے ان لوگوں کا رد فرمایا ہے جو جمعہ کی صحت کے لیے شہر اور حاکم وغیرہ وغیرہ کی قیود لگاتے ہیں اور گاؤں میں جمعہ کے لیے انکار کرتے ہیں۔
حضرت مولانا وحید الزماں صاحب شارح بخاری فرماتے ہیں کہ اس سے امام بخاری نے ان لوگوں کا رد کیا جو جمعہ کے لیے شہر کی قید کرتے ہیں۔
اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ جمعہ کی شرطیں جو حنفیوں نے لگائی ہیں وہ سب بے دلیل ہیں اور جمعہ دوسری نمازوں کی طرح ہے صرف جماعت اس میں شرط ہے یعنی امام کے سوا ایک آدمی اور ہونا اور نماز سے پہلے دو خطبے پڑھنا سنت ہے باقی کوئی شرط نہیں ہے۔
دارالحرب اور کافروں کے ملک میں بھی حضرت امام نے باب میں لفظ قریٰ اور مدن استعمال فرمایا ہے قریٰ قریۃ کی جمع ہے جو عموماً گاؤں ہی پربولا جاتا ہے اور مدن مدینہ کی جمع ہے جس کا اطلاق شہر پر ہوتا ہے۔
علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں فی ھذہ الترجمۃ اشارۃ الی خلاف من خص الجمعۃ بالمدن دون القریٰ یعنی باب میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے خلاف اشارہ فرمایا ہے جو جمعہ کو شہروں کے ساتھ خاص کر کے دیہات میں اقامت جمعہ کا انکار کرتے ہیں۔
آپ نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ عبد القیس نامی قبیلہ کی مسجد میں قائم کیا گیا جو جواثی نامی گاؤں میں تھی اور وہ گاؤں علاقہ بحرین میں واقع تھا۔
ظاہر ہے کہ یہ جمعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ہی سے قائم کیا گیا۔
صحابہ رضی اللہ عنہ کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیروہ کوئی کام کر سکیں۔
جواثی اس وقت ایک گاؤں تھا۔
مگر حنفی حضرات فرماتے ہیں کہ وہ شہر تھا حالانکہ حدیث مذکورسے اس کا گاؤں ہونا ظاہر ہے جیسا کہ وکیع کی روایت میں صاف موجود ہے۔
انھا قریۃ من قریٰ البحرین یعنی جواثی بحرین کے دیہا ت میں ایک گاؤں تھا۔
بعض روایتوں میں قریٰ عبدالقیس بھی آیا ہے کہ وہ قبیلہ عبد القیس کا ایک گاؤں تھا (قسطلانی)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بعد میں اس کی آبادی بڑھ گئی ہو اوروہ شہر ہوگیا ہو مگر اقامت جمعہ کے وقت وہ گاؤں ہی تھا۔
حضرت امام رحمہ اللہ نے مزید وضاحت کے لیے حضرت ابن شہاب کا فرمان ذکر فرمایا کہ انہوں نے رزیق نامی ایک بزرگ کو جو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی طرف سے ایلہ کے گورنر تھے اور ایک گاؤں میں جہاں ان کی زمینداری تھی، سکونت پذیر تھے ان کو اس گاؤں میں جمعہ قائم کرنے کے لیے اجازت نامہ تحریر فرمایا۔
امام قسطلانی فرماتے ہیں واملاہ ابن شھاب من کاتبہ فسمعہ یونس منہ یعنی ابن شہاب زہری نے اپنے کاتب سے اس اجازت نامے کو لکھوایا اور یونس نے ان سے اس وقت اسے سنا۔
اور ابن شہاب نے یہ حدیث پیش کر کے ان کو بتلایا کہ وہ گاؤں اور دیہات ہی میں ہے لیکن ان کو جمعہ پڑھنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی رعایا کے جو وہاں رہتی ہے، اس طرح اپنے نوکر چاکروں کے نگہبان ہیں جیسے بادشاہ نگہبان ہوتا ہے تو بادشاہ کی طرح ان کو بھی احکام شرعیہ قائم کرناچاہیے جن میں سے ایک اقامت جمعہ بھی ہے۔
ابن شہاب زہری وادی قری میں تھے جو مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں ہے جسے آنحضرت ﷺ نے 7 ھ بماہ جمادی الاخریٰ میں فتح کیاتھا۔
فتح الباری میں ہے کہ زین بن منیر نے کہا کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ بادشاہ کی اجازت کے بغیر بھی منعقد ہوجاتا ہے۔
جب کوئی جمعہ قائم کے نے کے قابل امام خطیب وہاں ہو اور موجود ہو اور اس سے گاؤں میں بھی جمعہ کا صحیح ہونا ثابت ہوا۔
گاؤں میں جمعہ کی صحت کے لیے سب سے بڑی دلیل قرآن پاک کی آیت کریمہ ہے جس میں فرمایا:
﴿یٰا ٓیُّھَا الَّذِینَ اٰٰمَنُوا اِذَا نُودِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِن یَومِ الجُمُعَة فَاسعَوا اِلیٰ ذِکرِ اللّٰہِ وَذَرُوا البَیعَ، الآیة﴾ (الجمعة: 9)
یعنی اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کو یاد کرنے کے لیے چلو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔
اس آیت کریمہ میں ایمان والے عام ہیں وہ شہری ہوں یا دیہاتی سب اس میں داخل ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الااربعۃ عبد مملوک اوامراۃ اوصبی او مریض (رواہ أبو داود والحاکم)
یعنی جمعہ ہر مسلمان پر حق اور واجب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ ادا کرے مگر غلام، عورت، بچے اور مریض پر جمعہ فرض نہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے:
من کان یومن باللہ والیوم الآخر فعلیه الجمعة إلامریض أومسافر او امرأة أوصبي أو مملوك فمن استغنی بلھوا و تجارة اسغنی اللہ عنه واللہ غني حمید۔
(رواہ الدارقطني)
یعنی جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اس پر جمعہ فرض ہے مگر مریض مسافر غلام اوربچے اور عورت پر جمعہ فرض نہیں ہے پس جو کوئی کھیل تماشہ یا تجارت کی وجہ سے بے پروائی کرے تو اللہ پاک بھی اس سے بے پروائی کرے گا کیونکہ اللہ بے نیاز اور محمود ہے۔
آیت شریفہ میں خرید وفروخت کے ذکر سے بعض دماغوں نے جمعہ کے لیے شہر ہونا نکالا ہے حالانکہ یہ استدلال بالکل غلط ہے۔
آیت شریفہ میں خرید وفروخت کا اس لیے ذکر آیا کہ نزول آیت کے وقت ایسا واقعہ پیش آیا تھا کہ مسلمان ایک تجارتی قافلہ کے آ جانے سے جمعہ چھوڑ کر خرید وفروخت کے لیے دوڑ پڑے تھے۔
اس لیے آیت میں خرید وفروخت چھوڑ نے کا ذکر آ گیا اور اگر اس کو اسی طرح مان لیا جائے تو کون سا گاؤں آج ایسا ہے جہاں کم وبیش خرید وفروخت کا سلسلہ جاری نہ رہتا ہو پس اس آیت سے جمعہ کے لیے شہر کا خاص کرنا بالکل ایسا ہے جیسا کہ کوئی ڈوبنے والا تنکے کا سہارا حاصل کرے۔
ایک حدیث میں صاف گاؤں کا لفظ موجود ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
الجمعة واجبة علی کل قریة فیھا إمام وإن لم یکونوا الأربعة رواہ الدارقطني ص: 26۔
یعنی ہر ایسے گاؤں والوں پر جس میں نماز پڑھا نے والا امام موجود ہو جمعہ واجب ہے اگرچہ چار ہی آدمی ہوں۔
یہ روایت گو قدرے کمزور ہے مگر پہلی روایتوں کی تائید وتقویت اسے حاصل ہے۔
لہذا اس سے بھی استدلال درست ہے اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو صحت جمعہ کے لیے کم از کم چالیس آدمیوں کا ہونا شرط قرار دیتے ہیں۔
اکابرصحابہ سے بھی گاؤں میں جمعہ پڑھنا ثابت ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ تم جہاں کہیں ہو جمعہ پڑھ لیا کرو عطاءبن میمون ابو رافع سے روایت کرتے ہیں کہ أن أبا ھریرة کتب إلی عمر یساله عن الجمعة وھو بالبحرین فکتب إلیھم أن جمعوا حیث ما کنتم أخرجه ابن خزیمة وصححه وابن أبي شیبة والبیھقي وقال ھذا الأ ثر إسنادہ حسن فتح الباري، ص: 486 حضرت ابو ہریرہ رؓ نے بحرین سے حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس خط لکھ کر دریافت فرمایا تھا کہ بحرین میں جمعہ پڑھیں یا نہیں تو حضرت عمر ؓ نے جواب میں لکھا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو جمعہ پڑھ لیا کرو۔
اس کا مطلب حضرت امام شافعی ؒ بیان فرماتے ہیں:
قال الشافعي معناہ في أي قریة کنتم لأن مقامھم بالبحرین إنما کان في القریٰ (التعلیق المغني علی الدارقطني)
یعنی حیث ماکنتم کے یہ معنی ہیں کہ تم جس گاؤں میں بھی موجود ہو (جمعہ پڑھ لیا کرو)
کیونکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ (سوال کرنے والے)
گاؤں میں ہی مقیم تھے اور حافظ ابن حجر ؒ بیان فرماتے ہیں:
وھذا ما یشتمل المدن والقریٰ (فتح الباري، ص: 486)
فاروقی حکم شہروں اور دیہاتوں کو برابر شامل ہے۔
حضرت عمر ؓ خود گاؤں میں جمعہ پڑھنے کے نہ صرف قائل تھے بلکہ سب کو حکم دیتے تھے چنانچہ لیث بن سعد ؒ فرماتے ہیں۔
إن أهل الإسکندریة ومدآئن مصر سواحلھا کانوا یجمعون الجمعة علی عھد عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان بأمرھما وفیھا رجال من الصحابة۔
(التعلیق المغني علی الدار قطني، جلد: 1ص: 166)
اسکندریہ اور مصر کے آس پاس والے حضرت عمر وعثمان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں ان دونوں کے ارشاد سے جمعہ پڑھا کرتے تھے حالانکہ وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت بھی موجود تھی اور ولید بن مسلم فرماتے ہیں کہ:
سألت اللیث بن سعد (أي عن التجمیع في القریٰ)
فقال کل مدینة أو قریة فیھا جماعة أمروا بالجمعة فإن أهل مصر وسواحلھا کانوایجمعون الجمعة علی عھد عمر وعثمان بامرھما وفیھما رجال من الصحابة۔
(بیهقي والتعلیق المغني علی الدارقطني1ص: 166وفتح الباري، ص: 486)
نیز حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ گاؤں اور شہر کے باہر رہنے والوں پر جمعہ کی نماز فرض ہونے کے قائل تھے۔
چنانچہ عبد الرزاق ؒ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ إنة کان یری أھل المیاہ بین مکة والمدینة یجمعون فلا یعیب علیھم (فتح الباري، ج1ص: 486 والتعلیق المغني علی الدارقطني، ص: 166)
حضرت ابن عمر ؓ مکہ ومدینہ کے درمیان پانی کے پاس اترتے ہوئے وہاں کے دیہاتی لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو بھی ان کو نہ منع کرتے اور نہ ان کو بر ا کہتے۔
اور ولید بن مسلم روایت کر تے ہیں کہ یروی عن شیبان عن مولی لآل سعید بن العاص نه سأل ابن عمر عن القریٰ التي بین مکة والمدینة ما تری في الجمعة قال نعم إذاکان علیھم أمیر فلیجمع۔
(رواہ البیھقي والتعلیق،ص166)
سعید بن عاص کے مولیٰ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کے گاؤں کے بارے میں دریافت کیا جو مکہ ومدینہ کے درمیان میں ہیں کہ ان گاؤں میں جمعہ ہے یا نہیں؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں جب کوئی امیر (امام نماز پڑھانے والا)
ہو تو جمعہ ان کو پڑھائے۔
نیز حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ بھی دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم صادر فرمایا کرتے تھے۔
چنانچہ جعفر بن برقان رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ کتب عمربن عبد العزیز إلی عدي بن عدي الکندي انظر کل قریة أھل قرار لیسو ھم بأھل عمود ینتقلون فأمر علیھم أمیرا ثم مرہ فلیجمع بھم۔
(رواہ البیهقي في المعرفة والتعلیق المغني علی الدار قطني، ص: 166)
حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ نے عدی ابن عدی الکندی کے پاس لکھ کر بھیجا کہ ہر ایسے گاؤں کو دیکھو جہاں کے لوگ اسی جگہ مستقل طور پر رہتے ہیں۔
ستون والوں (خانہ بدوشوں)
کی طرح ادھر ادھر پھرتے ومنتقل نہیں ہوتے۔
اس گاؤں والوں پر ایک امیر (امام)
مقرر کردو کہ ان کو جمعہ پڑھاتا رہے۔
اور حضرت ابوذر ؓ (صحابی)
ربذہ گاؤں میں رہنے کے باوجود وہیں چند صحابہ کے ساتھ برابر جمعہ پڑھتے تھے۔
چنانچہ ابن حزم ؒ محلیٰ میں فرماتے ہیں کہ صح أنه کان لعثمان عبد أسود أمیر له علی الربد یصلي خلفه أبو ذر رضی اللہ عنہ من الصحابة الجمعة وغیرھا۔
(کبیری شرح منیہ ص: 512)
صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عثمان ؓ کا ایک سیاہ فام غلام ربذہ میں حکومت کی طرف سے امیر (امام)
تھا۔
حضرت ابو ذر ودیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے جمعہ وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔
نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ شہربصرہ کے قریب موضعزاویہ میں رہتے تھے۔
کبھی تو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے بصرہ آتے اور کبھی جمعہ کی نماز موضع زاویہ ہی میں پڑھ لیتے تھے۔
بخاری شریف، ج: 1 ص: 123 میں ہے:
وکان أنس في قصر أحیانا یجمع وأحیانا لا یجمع وھو بالزاویة علی فرسخین۔
اس عبارت کا مختصر مطلب یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز کبھی زاویہ ہی میں پڑھ لیتے اور کبھی زاویہ میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ بصرہ میں آکر جمعہ پڑھتے۔
حافظ ابن حجر ؒ فتح الباری میں یہی مطلب بیان فرماتے ہیں:
قوله یجمع أي یصلي الجمعة بمن معه أو یشھد الجمعة البصرة۔
یعنی کبھی جمعہ کی نماز (مقام زاویہ میں)
اپنے ساتھیوں کو پڑھاتے یا جمعہ کے لیے بصرہ تشریف لاتے۔
اور یہی مطلب علامہ عینی ؒ نے عمدۃ القاری، ص: 274 جلد: 3 میں بیان فرمایاہے۔
حضرت انس ؒ عید کی نماز بھی اسی زاویہ میں پڑھ لیا کرتے تھے۔
چنانچہ بخاری شریف، ص: 134 میں ہے کہ وأمر أنس بن مالك مولاہ ابن أبي عتبة بالزاویة فجمع أھله وبنیه وصلی کصلوة المصر وتکبیرھم۔
حضرت انس بن مالک ؓ نے اپنے آزاد کردہ غلام ابن ابی عتبہ کو زاویہ میں حکم دیا اور اپنے تمام گھر والوں بیٹوں وغیرہ کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح عید کی نماز پڑھی۔
علامہ عینی ؒ نے بھی عمدۃ القاری،ص: 400 جلد: 3 میں اسی طرح بیان فرمایا ہے۔
ان آثار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ اور عیدین کی نماز شہر والوں کی طرح گاؤں میں بھی پڑھا کرتے تھے۔
نبی کریم ﷺ نے خودگاؤں میں جمعہ پڑھا ہے:
رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تھے تو بنی مالک کے گاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھی تھی۔
ابن حزم ؒ محلیٰ میں فرماتے ہیں کہ ومن أعظم البرھان علی صحتھا في القری أن النبي صلی اللہ علیه وسلم أتی المدینة وإنما ھي قریة صغار متفرقة فبنی مسجدہ في بني مالك بن نجار وجمع فیه في قریة لیست بالکبیرۃ ولا مصرھنالك۔
(عون المعبود شرح أبي داود، ج: 1ص: 414)
دیہات وگاؤں میں جمعہ پڑھنے کی صحت پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ جب مدینہ میں تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کے چھوٹے چھوٹے الگ الگ گاؤں بسے ہوئے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مالک بن نجار میں مسجد بنائی اور اسی گاؤں میں جمعہ پڑھا جو نہ تو شہر تھا اور نہ بڑا گاؤں ہی تھا۔
اور حافظ ابن حجر ؒ تلخیص الحبیر،ص: 132 میں فرماتے ہیں کہ وروی البیھقي في المعرفة عن مغازی ابن إسحاق وموسیٰ ابن عقبة أن النبي صلی اللہ علیه وسلم حین رکب من بني عمرو بن عوف في ھجرته إلی المدینة فمر علی بني سالم وھي قریة بین قبا والمدینة فأدرکته الجمعة فصلی بھم الجمعة وکانت أول جمعة صلاھا حین قدم۔
امام بیہقی ؒ نے المعرفہ میں ابن اسحاق وموسی بن عقبہ ؒ کے مغازی سے روایت کیا ہے کہ ہجرت کے وقت رسول اللہ ﷺ جس وقت بنی عمروبن عوف (قبا)
سے سوار ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو بنی سالم کے پاس سے آپ کا گزر ہوا وہ قبا ومدینہ کے درمیان ایک گاؤں تھا تو اسی جگہ جمعہ نے آپ کو پالیا یعنی جمعہ کا وقت ہو گیا تو سب کے ساتھ (اسی گاؤں میں)
جمعہ کی نماز پڑھی۔
مدینہ تشریف لانے کے وقت سب سے پہلا یہی جمعہ آپ نے پڑھا ہے۔
خلاصۃ الوفاءص196 میں ہے ولابن إسحاق فأدرکته الجمعة في بني سالم بن عوف فصلا ھا في بطن الوادي وادي ذي رانونا فکانت أول جمعة صلاھا با لمدینة۔
اور سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ فأدرکت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الجمعة في بني سالم بن عوف فصلاھا في المسجد الذي في بطن الوادي وادي رانونا یعنی وادی (میدان)
رانونا کی مسجد میں آپ نے جمعہ کی نماز پڑھی۔
اورآپ کے ہجرت کرنے سے پہلے بعض وہ صحابہ کرام جو پہلے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لا چکے تھے وہ اپنے اجتہاد سے بعض گاؤں میں جمعہ پڑھتے تھے۔
پھر حضور ﷺ نے ان کو منع نہیں فرمایا جیسے اسعد بن زرارہ ؓ نے ہزم النبیت (گاؤں)
میں جمعہ پڑھایا۔
ابوداؤد شریف میں ہے۔
لأنه أول من جمع بنا في ھزم النبیت من حرة بني بیاضة في نقیع یقال نقیع الخضمات (الحدیث)
حرہ بنی بیاضہ ایک گاؤں کا نام تھا جو مدینہ طیبہ سے ایک میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ تلخیص الحبیر، ص: 133 میں فرماتے ہیں۔
حرة بني بیاضة قریة علی میل من المدینة اور خلاصۃ الوفاء میں ہے:
والصواب نه بھزم النبیت من حرة بني بیاضة وھي الحرة الغربیة التي بھا قریة بني بیاضة قبل بني سلمة ولذا قال النوووي إنه قریة بقرب المدینة علی میل من منازل بني سلمة قاله الإمام أحمد کما نقله الشیخ أبو حامد۔
اس عبارت کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ حرہ بنی بیاضہ مدینہ کے قریب ایک میل کے فاصلہ پر گاؤں ہے۔
اسی گاؤں میں اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تھی۔
اسی لیے امام خطابی رحمہ اللہ شرح ابی داؤد میں فرماتے ہیں:
وفي الحدیث من الفقه أن الجمعة جوازھا في القریٰ کجوازھا في المدن والأمصار۔
اس حدیث سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ دیہات میں جمعہ پڑھنا جائز ہے جیسے کہ شہروں میں جائز ہے۔
ان احادیث وآثار سے صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ دیہات میں ہمیشہ جمعہ پڑھا کر تے تھے اور از خود حضور ﷺ نے پڑھایااورپڑھنے کا حکم دیاہے کہ الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ (دارقطني،ص: 165)
ہر گاؤں والوں پر جمعہ فرض ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے بھی اپنی خلافت کے زمانہ میں دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کے زمانہ میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گاؤں میں جمعہ پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت عمربن عبد العزیز ؒ نے بھی دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا۔
ان تمام احادیث وآثار کے ہوتے ہوئے بعض لوگ دیہات میں جمعہ بندکرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں حالانکہ جمعہ تمام مسلمانوں کے لیے عید ہے خواہ شہری ہوں یا دیہاتی۔
ترغیب ترہیب، ص: 195ج: 1 میں ہے کہ عن أنس بن مالك رضي اللہ عنه قال عرضت الجمعة علی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم جاء بھا جبرئیل علیه السلام في کفة کالمرأة البیضاء في وسطھا کالنکتة السوداء فقال ما ھذا یا جبرئیل قال ھذہ الجمعة یعرضھا علیك ربك لتکون لك عیدا ولقومك من بعدك۔
(الحدیث رواہ الطبراني في الأوسط بإسناد جید، ترغیب، ص195ج: 1)
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ جبرائیل ؑ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس جمعہ کو سفید آئینہ کی طرح ایک پلہ میں لاکر پیش فرمایا۔
اس کے درمیان میں ایک سیاہ نکتہ سا تھا۔
نبی ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اے جبرائیل! یہ کیا ہے؟ حضرت جبرائیل ؑ نے جواب دیا کہ یہ وہ جمعہ ہے جس کو آپ کا رب آپ کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ آپ کے اور آپ کی امت کے واسطے یہ عید ہوکر رہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ تمام امت محمدیہ کے لیے عید ہے، اس میں شہری ودیہاتی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔
اب دیہاتیوں کو اس عید (جمعہ)
سے محروم رکھنا انصاف کے خلاف ہے۔
ایمان، نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ جیسے دیہاتی پر برابر فرض ہیں اسی طرح جمعہ بھی دیہاتی وغیر دیہاتی پر برابر فرض ہے۔
اگر گاؤں والوں پر جمعہ فرض نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیحدہ کر کے خارج کر دیتے۔
جیسے مسافر ومریض وغیرہ کو خارج کیا گیا ہے حالانکہ کسی آیت یا حدیث مرفوع صحیح میں اس کا استثناءنہیں کیا گیا۔
مانعین جمعہ کی دلیل! حضرت علی ؓ کا اثر (قول)
لا جمعة ولا تشریق إلا في مصر جامع۔
مانعین کی سب سے بڑی دلیل ہے مگر یہ قول مذکورہ بالااحادیث وآثار کے معارض ومخالف ہونے کے علاوہ ان کا ذاتی اجتہاد ہے اور حرمت ووجوب اجتہاد سے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ اس کے لیے نص قطعی ہونا شرط ہے۔
چنانچہ مجمع الانہار، ص: 109میں اس اثر کے بعد لکھا ہے۔
لکن ھذا مشکل جدا لأن الشرط ھو فرض لا یثبت إلا بقطعی۔
پھر مصرجامع کی تعریف میں اس قدر اختلاف ہے کہ اگر اس کو معتبر سمجھا جائے تو دیہات تو دیہات ہی ہے آج کل ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی جمعہ پڑھا جانانا جائز ہو جائے گا۔
کیونکہ مصر جامع کی تعریف میں امیر و قاضی واحکام شرعی کا نفاذ اور حدود کا جاری ہونا شرط ہے حالانکہ اس وقت ہندوستان میں نہ کوئی شرعی حاکم وقاضی ہے نہ حدود ہی کا اجراءہے اور نہ ہو سکتا ہے۔
بلکہ اکثر اسلامی ملکوں میں بھی حدود کا نفاذ نہیں ہے تو اس قول کے مطابق شہروں میں بھی جمعہ نہ ہونا چاہیے اور ان شرطوں کاثبوت نہ قرآن مجید سے ہے نہ صحیح حدیثوں سے ہے۔
اور لا جمعۃ الخ میں لا نفی کمال کا بھی ہو سکتا ہے یعنی کامل جمعہ شہر ہی میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں جماعت زیادہ ہوتی ہے اور شہر کے اعتبار سے دیہات میں جماعت کم ہوتی ہے۔
اس لیے شہر کی حیثیت سے دیہات میں ثواب کم ملے گا۔
جیسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے 27 درجے زیادہ ثواب ملتا ہے اور تنہا پڑھنے سے اتنا ثواب نہیں ملتا تو لا جمعۃ الخ میں کمال اور زیادتی ثواب کی نفی ہے فرضیت کی نفی نہیں ہے۔
اگر بالفرض اس توجیہ کو تسلیم نہ کیاجائے تو دیہاتیوں کے لیے قربانی اور بقرعید کے دنوں کی تکبیر یں وغیرہ بھی ناجائز ہونی چاہئیں کیونکہ قربانی نماز عید کے تابع وماتحت ہے اور جب متبوع (نماز عید)
ہی نہیں تو تابع (قربانی)
کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ جو لوگ دیہات میں جمعہ پڑھنے سے روکتے ہیں ان کو چاہیے کہ دیہاتیوں کو قربانی سے بھی روک دیں۔
اور اثر مذکور پر ان کا خود بھی عمل نہیں کیونکہ تمام فقہاءکا اس پر اتفاق ہے کہ اگر امام کے حکم سے گاؤں میں مسجد بنائی جائے تو اسی کے حکم سے گاؤں میں جمعہ بھی پڑھ سکتے ہیں چنانچہ رد المختار، جلد:
اول ص: 537 میں ہے۔
إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فھو أمر بالجمعة اتفاقا علی ما قاله السرخسي والرستاق القران کما في القاموس۔
جب گاؤں میں امام کے حکم سے مسجد بنائی جائے تو وہاں باتفاق فقہاءجمعہ کی نماز پڑھی جائے گی۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے لیے مصر (شہر)
ہونا ضروری نہیں بلکہ دیہات میں بھی جمعہ ہو سکتا ہے۔
امام محمد ؒ بھی اسی طرح فرماتے ہیں۔
حتی لو بعث الی قریۃ نائبا لا قامۃ الحدود والقصاص تصیر مصرا فاذا عزلہ تلحق بالقریٰ (عیني شرح بخاري، ص: 26 وکبیری شرح منیہ، ص: 514)
اگر کسی نائب کو حدود وقصاص جاری کرنے کے لیے کسی گاؤں میں بھیجے تو وہ گاؤں مصر (شہر)
ہو جائے گا۔
جب نائب کو معزول (علیحدہ)
کر دے گا تو وہ گاؤں کے ساتھ مل جائے گا یعنی پھر گاؤں ہو جائے گا۔
بہر کیف جمعہ کے لیے مصر ہونا (شرعاً)
شرط نہیں ہے۔
بلکہ آبادی وبستی وجماعت ہونا ضروری ہے اور ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول فی مصر جامع سے بستی ہی مراد ہو کیونکہ بستی شہر ودیہات دونوں کو شامل ہے اس لیے لفظ قریہ سے کبھی شہر اور کبھی گاؤں مراد لیتے ہیں۔
لیکن اس کے اصل معنی وہی بستی کے ہیں۔
علامہ قسطلانی ؒ شرح بخاری، جلد:
دوم ص: 138میں لکھتے ہیں:
والقرية:
واحدة القرى، كل مكان اتصلت فيه الأبنية واتخذ قرارًا، ويقع ذلك على المدن وغيرها۔
اور لسان العرب، ص: 637 ج 1 میں ہے۔
والقریة من المساکن والأبنیة والضیاع وقد تطلق علی المدن وفي الحدیث أمرت بقریة تأکل القریٰ وھي مدینة الرسول صلی اللہ علیه وسلم اہ أیضا وجاء في کل قار وبادي الذي ینزل القریة والبادي۔
ان عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قریہ کے معنی مطلق بستی کے ہیں اور مصر جامع کے معنی بھی بستی کے ہیں۔
کیونکہ اہل لغت نے قریہ کی تفسیر میں لفظ مصر جامع اختیار کیا ہے۔
چنانچہ اسی لسان العرب میں ہے:
قال ابن سیدة القریة والقریة لغتان المصر الجامع التھذیب الملسکورۃ یمانیة ومن ثم اجتمعوا في جمعھا علی القری۔
اور قاموس، ص: 285میں ہے القریۃ المصر الجامع اور المنجد، ص: 661 میں ہے:
القریة والقریة الضیعة المصرالجامع۔
ان عبارتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قریہ اور مصر جامع دونوں ایک ہی چیز ہیں۔
اور قریہ کے معنی بستی کے تو مصر جامع کے معنی بھی بستی کے ہیں اور بستی شہروگاؤں دونوں کا شامل ہے۔
پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کا مطلب یہ ہوا کہ جمعہ بستی میں ہونا چاہیے۔
یعنی شہرو دیہات دونوں جگہ ہونا چاہیے۔
مناسب ہوگا:
اس بحث کو ختم کرتے ہوئے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری ؒ کا فاضلانہ تبصرہ (آپ کی قابل قدر کتاب مرعاۃ، جلد: 2ص: 288سے)
شائقین کے سامنے پیش کر دیا جائے۔
حضرت موصوف فرماتے ہیں:
واختلفوا أيضاً في محل إقامة الجمعة، فقال أبوحنيفة وأصحابه:
لا تصح إلا في مصر جامع، وذهب الأئمة الثلاثة إلى جوازها وصحتها في المدن والقرى جميعاً. واستدل لأبي حنيفة بما روي عن علي مرفوعاً:
لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع. وقد ضعف أحمد، وغيره رفعه، وصحح ابن حزم، وغيره وقفه، وللاجتهاد فيه مسرح، فلا ينتهض للاحتجاج به فضلاً عن أن يخصص به عموم الآية أو يقيد به إطلاقها، مع أن الحنفية قد تخبطوا في تحديد المصر الجامع وضبطه على أقوال كثيرة متباينة متناقضة متخالفة جداً، كما لا يخفى على من طالع كتب فروعهم. وهذا يدل على أنه لم يتعين عندهم معنى الحديث. والراجح عندنا ما ذهب إليه الأئمة الثلاثة من عدم اشتراط المصر، وجوازها في القرى لعموم الآية وإطلاقها، وعدم وجود ما يدل على تخصيصها، ولا بد لمن يقيد ذلك بالمصر الجامع أن يأتي بدليل قاطع من كتاب أو سنة متواترة أو خبر مشهور بالمعنى المصطلح عند المحدثين، وعلى التنزل بخبر واحد مرفوع صريح صحيح يدل على التخصيص بالمصر الجامع۔
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ علماءنے محل اقامت جمعہ میں اختلاف کیا ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اور آپ کے اصحاب کا قول ہے کہ جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے اور ائمہ ثلاثہ حضرت امام شافعی، امام مالک،امام احمد حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شہروں کے علاوہ گاؤں بستیوں میں بھی جمعہ ہر جگہ صحیح اور جائز ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دلیل لی ہے جو مرفوعاً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جمعہ اور عید صحیح نہیں مگر مصر جامع میں۔
ا مام احمد وغیرہ نے اس روایت کے مرفوع ہونے کو ضعیف کہا ہے اور علامہ ابن حزم وغیرہ نے اس کا موقوف ہونا صحیح تسلیم کیا ہے چونکہ یہ موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کے لیے کافی گنجائش ہے لہذا یہ احتجاج کے قابل نہیں ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس سے قرآن پاک کی آیت:
﴿إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ﴾ جو مطلق ہے اس کا مقید ہونا لازم آتا ہے۔
پھر حنفیہ خود مصر کی تعریف میں بھی مختلف ہیں۔
جبکہ ان کے ہاں بہ سلسلہ تعریف مصر جامع اقوال بے حد متضاد اور متناقض نیز متبائن ہیں جیسا کہ ان کی کتب فروع کے مطالعہ کرنے والے حضرات پر مخفی نہیں ہے۔
یہ دلیل ہے کہ فی الحقیقت اس حدیث کے کوئی صحیح معنی ان کے ہاں بھی متعین نہیں ہیں پس ہمارے نزدیک یہی راجح ہے کہ تینوں امام جدھر گئے ہیں کہ جمعہ کے لیے مصر کی شرط نہیں ہے اور جمعہ شہر کی طرح گاؤں بستیوں میں بھی جائز ہے یہی فتوی صحیح ہے۔
کیونکہ قرآن مجید کی آیت مذکور جس سے جمعہ کی فرضیت ہر مسلمان پر ثابت ہوتی ہے (سوا ان کے جن کو شارع نے مستثنی کر دیا ہے)
یہ آیت عام ہے جو شہری اور دیہاتی جملہ مسلمانوں کو شامل ہے اور مصر جامع کی شرط کے لیے جو آیت کے عموم کو خاص کرے کوئی دلیل قاطع قرآن یا حدیث متواتر یا خبر مشہور جو محدثین کے نزدیک قابل قبول اور لائق استدلال ہو، نہیں ہے نیز کوئی خبر واحد مرفوع صریح صحیح بھی ایسی نہیں ہے جو آیت کو مصر جامع کے ساتھ خاص کر سکے۔
تعداد کے بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والراجح عندي ما ذهب إليه أهل الظاهر أنه تصح الجمعة باثنين؛ لأنه لم يقم دليل على اشتراط عدد مخصوص، وقد صحت الجماعة في سائر الصلوات باثنين، ولا فرق بينها وبين الجمعة في ذلك، ولم يأت نص من رسول الله صلى الله عليه وسلم بأن الجمعة لا تنعقد إلا بكذاالخ (مرعاة، ج: 2ص: 288)
یعنی اس بارے میں کہ جمعہ کے لیے نمازیوں کی کتنی تعداد ضروری ہے، میرے نزدیک اس کو ترجیح حاصل ہے جو اہل ظاہر کا فتوی ہے کہ بلا شک جمعہ دو نمازیوں کے ساتھ بھی صحیح ہے اس لیے کہ عدد مخصوص کے شرط ہونے کے بارے میں کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی اور دوسری نمازوں کی جماعت بھی دو نمازیوں کے ساتھ صحیح ہے اور پنج وقتہ نماز اور جمعہ میں اس بارے میں کوئی فرق نہیں ہے اور نہ کوئی نص صریح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں وارد ہوئی ہے کہ جمعہ کا انعقاد اتنی تعداد کے بغیر صحیح نہیں۔
اس بارے میں کوئی حدیث صحیح مرفوع رسول الله ﷺ سے منقول نہیں ہے۔
اس مقالہ کو اس لیے طول دیا گیا ہے کہ حالات موجودہ میں علماءکرام غور کریں اور جہاں بھی مسلمانوں کی جماعت موجود ہو وہ قصبہ ہو یا شہر یا گاؤں ہر جگہ جمعہ قائم کرائیں کیونکہ شان اسلام اس کے قائم کرنے میں ہے اور جمعہ ترک کرانے میں بہت سے نقصانات ہیں جبکہ امامان ہدایت میں سے تینوں امام امام شافعی وامام مالک وامام احمد بن حنبل بھی گاؤں میں جمعہ کے حق میں ہیں پھر اس کے ترک کرانے پر زور دیکر اپنی تقلید جامد کا ثبوت دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔
واللہ یھدي من یشاءإلی صراط مستقیم
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 893   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:893  
893. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر شخص نگران ہے۔ راوی حدیث حضرت لیث نے اس حدیث کو کچھ اضافے کے ساتھ بیان کیا ہے: (میرے شیخ) یونس نے کہا کہ میں ان دنوں وادی القریٰ میں ابن شہاب زہری کے ساتھ تھا جب رُزیق بن حکیم نے امام ابن شہاب کو لکھ بھیجا کہ یہاں جمعہ قائم کرنے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ رزیق ان دنوں (حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کی طرف سے) ایلہ کے گورنر تھے اور اس کے اطراف میں ایک زمین کے فارم میں کاشت کاری کراتے تھے، وہاں حبشیوں اور دوسرے لوگوں کی ایک جماعت آباد تھی۔ اندریں حالات امام ابن شہاب زہری نے جواب لکھا کہ وہاں اقامت جمعہ کا اہتمام کریں۔ یونس کہتے ہیں کہ میں ان کا جواب سن رہا تھا، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ کی یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اپنی رعیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:893]
حدیث حاشیہ:
(1)
وادئ قری، مدائن صالح کو کہتے ہیں جو ایک سو تیس گاؤں پر مشتمل تھی اور یہ آبادی مدینہ منورہ کے قریب پڑتی تھی۔
اور ایلہ ایک مشہور شہر ہے جو مدینہ اور مصر کے مابین بحر قلزم کے کنارے پر واقع تھا۔
حضرت رزیق، خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی طرف سے وہاں کے گورنر تھے اور وہ ایلہ کے اطراف میں ایک مقام پر اپنے نوکروں سے کاشت کاری کراتے تھے۔
چونکہ وہاں سوڈانیوں اور دیگر مزارعین کی جماعت آباد تھی، اس لیے انہوں نے امام زہری کی طرف خط لکھا کہ میں اس زرعی فارم پر اقامت جمعہ کا اہتمام کروں؟ امام زہری نے جواب دیا کہ وہاں جمعہ کا اہتمام کرنا تمہاری ذمہ داری میں شامل ہے کیونکہ تم اس علاقے کے حاکم ہو اور ہر حاکم سے اس کی رعایا کے مفاد کے متعلق باز پرس ہو گی۔
لوگوں کے لیے باعثِ اصلاح امور کی حفاظت تمہارے ذمے ہے اور اقامت جمعہ بھی لوگوں کی اصلاح کے لیے ہے، اس لیے جمعے کا اہتمام کرنا تمہارے فرائض میں شامل ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے یہیں سے گاؤں میں اقامت جمعہ پر استدلال کیا ہے جو اپنے مفہوم میں بہت واضح اور شفاف ہے۔
شارح بخاری علامہ زین بن منیر ؒ کہتے ہیں کہ اس واقعے سے اشارہ ملتا ہے کہ حاکم وقت کی اجازت کے بغیر بھی جمعہ ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہاں کوئی عوام الناس کی ضروریات کا خیال رکھنے والا موجود ہو۔
اور اس واقعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گاؤں میں اقامت جمعہ کا اہتمام ہو سکتا ہے۔
یہ موقف ان لوگوں کے خلاف ہے جو اقامت جمعہ کے لیے شہر ہونے کی شرط لگاتے ہیں۔
(فتح الباري: 490/2) (3)
راوئ حدیث یونس بن یزید ایلی سے بیان کرنے والے عبداللہ بن مبارک اور حضرت لیث بن سعد ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کی روایت میں ’‘پس منظر کا ذکر نہیں ہے جبکہ حضرت لیث نے اس واقعے کو بھی ذکر کیا ہے جس کے تناظر میں حضرت امام زہری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی۔
لیکن لیث کی روایت معلق ہے جسے امام ذہلی نے لیث بن سعد کے کاتب ابو صالح سے موصولاً بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 489/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 893   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.