الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Funerals
9. باب الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ:
9. باب: میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 2153
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا خلف بن هشام ، وابو الربيع الزهراني ، جميعا، عن حماد ، قال خلف، حدثنا حماد بن زيد ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، قال: ذكر عند عائشة قول ابن عمر: الميت يعذب ببكاء اهله عليه، فقالت: رحم الله ابا عبد الرحمن سمع شيئا فلم يحفظه، إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة يهودي، وهم يبكون عليه، فقال: " انتم تبكون وإنه ليعذب ".وحَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، جميعا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ خَلَفٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعَ شَيْئًا فَلَمْ يَحْفَظْهُ، إِنَّمَا مَرَّتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَنَازَةُ يَهُودِيٍّ، وَهُمْ يَبْكُونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: " أَنْتُمْ تَبْكُونَ وَإِنَّهُ لَيُعَذَّبُ ".
حماد بن زید نے ہشام بن عروہ سے انھوں نے اپنے والد سے روا یت کی انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا روایت کردہ قول بیان کیا گیا: میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جا تا ہے تو انھوں نے کہا: اللہ عبد الرحمٰن پر رحم فر ما ئے انھوں نے ایک چیز کو سنا لیکن (پوری طرح) محفوظ نہ رکھا (امرواقع یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یہودی کا جنا زہ گزرا اور وہ لو گ اس پر رو رہے تھے تو آپ نے فرمایا: "تم رو رہے ہو اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے۔
عروہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول بیان کیا گیا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جا تا ہے تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: اللہ ابوعبد الرحمٰن پر رحم فرمائے انھوں نے ایک چیز سنی لیکن پوری طرح محفوظ نہیں کی بات صرف اتنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک یہودی کا جنا زہ گزرا اور وہ رو رہے تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم رو رہے ہو اور اسے سزا مل رہی ہے عذاب دیا جا رہا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 931
   صحيح البخاري3978عائشة بنت عبد اللهليعذب بخطيئته وذنبه وإن أهله ليبكون عليه الآن
   صحيح البخاري1289عائشة بنت عبد اللهليبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها
   صحيح مسلم2153عائشة بنت عبد اللهتبكون وإنه ليعذب
   صحيح مسلم2154عائشة بنت عبد اللهالميت يعذب في قبره ببكاء أهله عليه
   صحيح مسلم2156عائشة بنت عبد اللهالميت ليعذب ببكاء الحي فقالت عائشة يغفر الله
   جامع الترمذي1006عائشة بنت عبد اللهليبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها
   سنن النسائى الصغرى1858عائشة بنت عبد اللهالله يزيد الكافر عذابا ببعض بكاء أهله عليه
   سنن النسائى الصغرى1857عائشة بنت عبد اللهليبكون عليها وإنها لتعذب
   سنن ابن ماجه1595عائشة بنت عبد اللهأهلها يبكون عليها وإنها تعذب في قبرها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1595  
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت کا انتقال ہو گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس پر روتے ہوئے سنا، تو فرمایا: اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں جب کہ اسے قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1595]
اردو حاشہ:
فائدہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ پس ماندگان کے رونے سے میت کو عذاب نہیں ہوتا۔
کیونکہ ایک کے عمل کی سزا دوسرے کو نہیں دی جا سکتی۔
رسول اللہ ﷺنے یہ بات ایک قانون کے طور پر نہیں فرمائی تھی۔
کہ ہر رونے والے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔
بلکہ یہودیوں کو اپنے مرنے والی پر روتے دیکھ کر فرمایا تھا کہ ان کے رونے کا اسے کیا فائدہ؟ وہ تو اپنے گناہوں کی سزا بھگت ہی رہی ہے۔
یہ رویئں یا نہ رویئں برابر ہے۔
ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ رائے اپنی جگہ درست ہے کہ رونے پیٹنے کا میت کو کیا فائدہ؟ تاہم حدیث کا وہ مفہوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
کہ ان کے رونے سے بھی اسے عذاب ہوتا ہے۔
جبکہ وہ اپنى زندگی میں اسے اچھا سمجھتا رہا ہواس کی تلقین کرتا رہا ہو یا ا س کی وصیت کی ہو اگر یہ صورت حال نہ ہو تو پھر ان کے رونے پیٹنے اور بین کرنے سے اسے افسوس تو ہوتا ہے۔
کہ جو موقع عبرت حاصل کرنے کا تھا۔
اس موقع پر بھی وہ گناہ میں ملوث ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ فرماتے ہیں۔ (باب قول النبي صلي الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء اهله عليه ...اذا كان النوح من سنته.......،) (صحیح البخاري، الجنائز، باب: 32)
نبی ﷺ کے اس فرمان کا بیان کہ میت کو اس کے بعض گھر والوں کے بعض رونے سے عذاب ہوتا ہے۔
یعنی جب رونا پیٹنا اس (کے خاندان)
کی رسم ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1595   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.