الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Funerals
9. باب الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ:
9. باب: میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
Chapter: The deceased is tormented because of his family's crying for him
حدیث نمبر: 2156
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس فيما قرئ عليه، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن ابيه ، عن عمرة بنت عبد الرحمن ، انها اخبرته، انها سمعت عائشة ، وذكر لها ان عبد الله بن عمر، يقول: " إن الميت ليعذب ببكاء الحي "، فقالت عائشة: يغفر الله لابي عبد الرحمن، اما إنه لم يكذب، ولكنه نسي او اخطا، إنما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على يهودية يبكى عليها، فقال: " إنهم ليبكون عليها، وإنها لتعذب في قبرها ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ ، وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ، وَلَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا، فَقَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا ".
عمرہ بنت عبد الرحمٰن نے خبردی کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا (اس موقع پر) ان کے سامنے بیان کیا گیا تھا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میت کو زندہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ ابو عبد الرحمٰن کو معاف فر ما ئے!یقیناً انھوں نے جھوٹ نہیں بو لا لیکن وہ بھول گئے ہیں یا ان سے غلطی ہو گئی ہے (امرواقع یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت (کے جنازے) کے پاس سے گزرے جس پر آہ و بکارکی جا رہی تھی تو آپ نے فرمایا: "یہ لو گ اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہاہے۔
عمرہ بنت عبدالرحمان بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنا، جبکہ انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کایہ قول بتایا گیا کہ میت کو زندہ کے رونے کے سبب عذاب دیا جاتا ہے۔ توعائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: اللہ ابوعبدالرحمان کو معاف فرمائے۔ یقیناً انہوں نے جھوٹ نہیں بولا، لیکن وہ بھول گئے یا چوک گئے،بات صرف اتنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت جس پر رویا جا رہا تھا، کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں، اور اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 932
   صحيح البخاري3978عائشة بنت عبد اللهليعذب بخطيئته وذنبه وإن أهله ليبكون عليه الآن
   صحيح البخاري1289عائشة بنت عبد اللهليبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها
   صحيح مسلم2153عائشة بنت عبد اللهتبكون وإنه ليعذب
   صحيح مسلم2154عائشة بنت عبد اللهالميت يعذب في قبره ببكاء أهله عليه
   صحيح مسلم2156عائشة بنت عبد اللهالميت ليعذب ببكاء الحي فقالت عائشة يغفر الله
   جامع الترمذي1006عائشة بنت عبد اللهليبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها
   سنن النسائى الصغرى1858عائشة بنت عبد اللهالله يزيد الكافر عذابا ببعض بكاء أهله عليه
   سنن النسائى الصغرى1857عائشة بنت عبد اللهليبكون عليها وإنها لتعذب
   سنن ابن ماجه1595عائشة بنت عبد اللهأهلها يبكون عليها وإنها تعذب في قبرها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1595  
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت کا انتقال ہو گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس پر روتے ہوئے سنا، تو فرمایا: اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں جب کہ اسے قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1595]
اردو حاشہ:
فائدہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ پس ماندگان کے رونے سے میت کو عذاب نہیں ہوتا۔
کیونکہ ایک کے عمل کی سزا دوسرے کو نہیں دی جا سکتی۔
رسول اللہ ﷺنے یہ بات ایک قانون کے طور پر نہیں فرمائی تھی۔
کہ ہر رونے والے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔
بلکہ یہودیوں کو اپنے مرنے والی پر روتے دیکھ کر فرمایا تھا کہ ان کے رونے کا اسے کیا فائدہ؟ وہ تو اپنے گناہوں کی سزا بھگت ہی رہی ہے۔
یہ رویئں یا نہ رویئں برابر ہے۔
ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ رائے اپنی جگہ درست ہے کہ رونے پیٹنے کا میت کو کیا فائدہ؟ تاہم حدیث کا وہ مفہوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
کہ ان کے رونے سے بھی اسے عذاب ہوتا ہے۔
جبکہ وہ اپنى زندگی میں اسے اچھا سمجھتا رہا ہواس کی تلقین کرتا رہا ہو یا ا س کی وصیت کی ہو اگر یہ صورت حال نہ ہو تو پھر ان کے رونے پیٹنے اور بین کرنے سے اسے افسوس تو ہوتا ہے۔
کہ جو موقع عبرت حاصل کرنے کا تھا۔
اس موقع پر بھی وہ گناہ میں ملوث ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ فرماتے ہیں۔ (باب قول النبي صلي الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء اهله عليه ...اذا كان النوح من سنته.......،) (صحیح البخاري، الجنائز، باب: 32)
نبی ﷺ کے اس فرمان کا بیان کہ میت کو اس کے بعض گھر والوں کے بعض رونے سے عذاب ہوتا ہے۔
یعنی جب رونا پیٹنا اس (کے خاندان)
کی رسم ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1595   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.