الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
25. باب أَجْرِ الْخَازِنِ الأَمِينِ وَالْمَرْأَةِ إِذَا تَصَدَّقَتْ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ بِإِذْنِهِ الصَّرِيحِ أَوِ الْعُرْفِيِّ.
25. باب: خازن امانتدار اور عورت کو صدقہ کا ثواب ملنا جب وہ اپنے شوہر کی اجازت سے خواہ صاف اجازت ہو یا دستور کی راہ سے اجازت ہو صدقہ دے۔
حدیث نمبر: 2363
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو عامر الاشعري ، وابن نمير ، وابو كريب كلهم، عن ابي اسامة ، قال ابو عامر: حدثنا ابو اسامة، حدثنا بريد ، عن جده ابي بردة ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الخازن المسلم الامين الذي ينفذ، وربما قال: يعطي ما امر به فيعطيه كاملا موفرا، طيبة به نفسه، فيدفعه إلى الذي امر له به احد المتصدقين ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ كُلُّهُمْ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْخَازِنَ الْمُسْلِمَ الْأَمِينَ الَّذِي يُنْفِذُ، وَرُبَّمَا قَالَ: يُعْطِي مَا أُمِرَ بِهِ فَيُعْطِيهِ كَامِلًا مُوَفَّرًا، طَيِّبَةً بِهِ نَفْسُهُ، فَيَدْفَعُهُ إِلَى الَّذِي أُمِرَ لَهُ بِهِ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقَيْنِ ".
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک ایک مسلمان امانت دار خازن (خزانچی) جو دیئے گئے حکم پر عمل کرتا ہے۔ (یا فرمایا: ادا کرتا ہے) اسے خوش دلی کے ساتھ پورے کا پورا (بلکہ) وافر، اس شخص کو ادا کردیتا ہے جس کے بارے میں اسے حکم دیا گیا ہے تو وہ (خازن بھی)۔۔۔دو صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔"
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان امانت دار خازن جو نافذ کرتا ہے یا جو دینے کا حکم دیا گیا ہے اسے کامل پورا پورا خوش دلی سے دیتا ہے اور اس کے حوالہ کرتا ہے جس کے بارے میں اسے حکم دیا گیا ہے تو وہ دو صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1023
   صحيح البخاري2319عبد الله بن قيسالخازن الأمين الذي ينفق وربما قال الذي يعطي ما أمر به كاملا موفرا طيبا نفسه إلى الذي أمر به أحد المتصدقين
   صحيح البخاري2260عبد الله بن قيسالخازن الأمين الذي يؤدي ما أمر به طيبة نفسه أحد المتصدقين
   صحيح البخاري1438عبد الله بن قيسالخازن المسلم الأمين الذي ينفذ ما أمر به كاملا موفرا طيب به نفسه فيدفعه إلى الذي أمر له به أحد المتصدقين
   صحيح مسلم2363عبد الله بن قيسالخازن المسلم الأمين الذي ينفذ ما أمر به فيعطيه كاملا موفرا طيبة به نفسه فيدفعه إلى الذي أمر له به أحد المتصدقين
   سنن أبي داود1684عبد الله بن قيسالخازن الأمين الذي يعطي ما أمر به كاملا موفرا طيبة به نفسه حتى يدفعه إلى الذي أمر له به أحد المتصدقين
   مسندالحميدي787عبد الله بن قيسالخازن الأمين الذي يعطي ما أمر به موتجرا أحد المتصدقين
   مسندالحميدي790عبد الله بن قيسالمؤمن للمؤمن كالبنيان، يشد بعضه بعضا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2260  
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب تین اجزاء پر قائم ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کسی نیک مرد کو مزدوری پر لگانے کے مسئلے پر قائم فرمایا ہے اور جو آیت مبارکہ پیش فرمائی ہے اس سے باب کی مناسبت ظاہر ہے، مگر حدیث جو پیش کی ہے اس میں اجارہ کا کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قال الاسماعیل: لیس فى الحدیثین جمیعا معنى الاجارۃ، وقال الداؤدی: لیس حدیث الخازن الأمین من ہذا الباب لأنہ لا ذکر للاجارۃ فیہ۔»
علامہ اسماعیلی اور داؤدی رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس باب اجارۃ میں یہ حدیث کیوں لائے؟ جب کہ حدیث مذکورہ میں اجارہ کا کوئی بھی ذکر نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ترجمۃ الباب تین اجزاء پر قائم ہے:
① نیک مرد کو مزدوری پر لگانا۔
② الخازن الامین یعنی خزانچی جو امین ہو۔
③ اس کو استعمال نہ کیا جائے جو خود ارادہ رکھتا ہو۔
پہلے جزء کے لیے قرآن مجید کی آیت پیش فرمائی جس سے مناسبت واضح ہے۔
دوسرے جزء کے لیے سیدنا ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش فرمائی، جس کے بارے میں امام اسماعیلی اور داؤدی نے اعتراض کیا ہے، ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کے لیے، اور ان دونوں بزرگوں کے اعتراض کو دور کرنے کے لیے علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«إنما أراد البخاری أن الخازن لا شیئ لہ فى المال وإنما ہو أجیر» [فتح الباری، ج 5، ص: 379]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد وہ خازن ہے کہ جمع شدہ مال میں اس کی اپنی کوئی چیز نہ ہو اور ظاہر ہے کہ وہ اجیر ہی ہوا کرتا ہے۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«ودخول ہذا الحدیث فى باب الإجارۃ للاشارۃ إلى أن خازن مال الغیر کالأجیر لصاحب المال۔» [الکواکب الدرادی، ج 10، ص: 97]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کا داخل کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خازن وہ ہوتا ہے جو غیر کے مال پر رکھا جاتا ہے، جیسے کہ مزدور صاحب مال کے لیے۔
بعین قریب قریب یہی مناسبت ابن بطال رحمہ اللہ نے بھی دی ہے، آپ رقمطراز ہیں:
«إنما أدخلہ فى ہذا الباب، لأن من المستوجر على شیئ فہو أمین فیہ، ولیس علیہ شیئ من ضمان أن فسد أو تلف، إلا إن کان بتضییعہ۔» [شرح ابن بطل، ج 6، ص: 385]
ان اقتباسات سے واضح طور پر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب کا تیسرا جزء جسے علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ نے لب اللباب میں ذکر فرمایا کہ:
تیسرے جزء کی مناسبت ترجمۃ الباب سے ان الفاظوں کے ساتھ ہے: «ومن لم یستعمل من أرادہ» [لب اللباب، ج 2، ص187]
ضروری وضاحت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث کے ذریعے یہ سمجھانے کی کو شش فرما رہے ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اجیر بننے کے لیے پیش کرے اور دوسرا شخص اس کو اجیر رکھنے سے انکار کرے تو اس کی اصل بھی سنت میں موجود ہے۔
لیکن یہ قانون نہیں ہے، بسا اوقات اگر کوئی شخص خود درخواست کرے تو اس کی درخواست قبول بھی کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
« ﴿اجْعَلْنِی عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ﴾ » [یوسف: 55] آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے، میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں۔
صاحب الابواب والتراجم لکھتے ہیں کہ:
«وقد سأل بعض أصحاب النبى صلى اللہ علیہ وسلم الامامۃ فقال: اجعلنی امام قومی، فقال أنت امامہم واقتد بأضعفہم» [سنن أبى داؤد، رقم الحدیث: 531]
یقیناً بعض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ ہمیں اپنی قوم کا امام مقرر کر دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ ان کے امام ہیں اور ان کے ضعیف ترین کی اقتدا (رعایت) کرنا۔ [الأبواب والتراجم، ج 3، ص: 665] واللہ اعلم
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 332   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1684  
´خازن (خزانچی) کے ثواب کا بیان۔`
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امانت دار خازن جو حکم کے مطابق پورا پورا خوشی خوشی اس شخص کو دیتا ہے جس کے لیے حکم دیا گیا ہے تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1684]
1684. اردو حاشیہ: ایسے خازن کےلئے مسلمان ہونے کے علاوہ چار شرطیں زکر کی گئی ہیں۔مالک کی اجازت خوشی سے دینا۔پورا پورا دینا اسے دینا جس کے بارے میں حکمدیا گیا۔نیز یہ بھی معلوم ہواکہ صدقہ کرنے والے کو اصل مالک کی ہدایات پر پورا پورا عمل کرنا چاہیے۔بغیر معقول عذر کے ان میں تبدیلی نہیں کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1684   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2363  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
خازن جو پوری دیانت و امانت سے مال کی حفاظت کرتا ہے اور مالک کے حکم کے مطابق خوش دلی سے اس کے کہنے کے مطابق لوگوں کو پورا پورا مال دیتا ہے وہ بھی اجرو ثواب کا حقدار ہے اور صدقہ کرنے والا شمار ہو گا۔
اور دونوں کو مستقل اجر ملے گا وہ ایک دوسرے کے اجر ملےگا۔
وہ ایک دوسرے کے کمی کا باعث نہیں ہوں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2363   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.