الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
1. باب مَا يُبَاحُ لِلْمُحْرِمِ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ وَمَا لاَ يُبَاحُ وَبَيَانِ تَحْرِيمِ الطِّيبِ عَلَيْهِ:
1. باب: اس بات کا بیان کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لئے کیا چیز جائز ہے اور کیا ناجائز ہے؟ اور اس پر خوشبو کے حرام ہونے کا بیان۔
Chapter: What one who has entered Ihram for Hajj or Umrah is permitted to wear, and what is not permissible, and perfume is forbidden for him
حدیث نمبر: 2798
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا همام ، حدثنا عطاء بن ابي رباح ، عن صفوان بن يعلى بن امية ، عن ابيه رضي الله عنه، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو بالجعرانة عليه جبة وعليها خلوق، او قال: اثر صفرة، فقال: كيف تامرني ان اصنع في عمرتي؟، قال: وانزل على النبي صلى الله عليه وسلم الوحي، فستر بثوب وكان يعلى، يقول: وددت اني ارى النبي صلى الله عليه وسلم وقد نزل عليه الوحي، قال: فقال: ايسرك ان تنظر إلى النبي صلى الله عليه وسلم وقد انزل عليه الوحي، قال: فرفع عمر طرف الثوب فنظرت إليه، له غطيط، قال: واحسبه قال: كغطيط البكر، قال: فلما سري عنه، قال: " اين السائل عن العمرة؟ اغسل عنك اثر الصفرة، او قال: اثر الخلوق، واخلع عنك جبتك، واصنع في عمرتك ما انت صانع في حجك ".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْجِعْرَانَةِ عَلَيْهِ جُبَّةٌ وَعَلَيْهَا خَلُوقٌ، أَوَ قَالَ: أَثَرُ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: كَيْفَ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصْنَعَ فِي عُمْرَتِي؟، قَالَ: وَأُنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ، فَسُتِرَ بِثَوْبٍ وَكَانَ يَعْلَى، يَقُولُ: وَدِدْتُ أَنِّي أَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، قَالَ: فَقَالَ: أَيَسُرُّكَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، قَالَ: فَرَفَعَ عُمَرُ طَرَفَ الثَّوْبِ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، لَهُ غَطِيطٌ، قَالَ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: كَغَطِيطِ الْبَكْرِ، قَالَ: فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ: " أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ الْعُمْرَةِ؟ اغْسِلْ عَنْكَ أَثَرَ الصُّفْرَةِ، أَوَ قَالَ: أَثَرَ الْخَلُوقِ، وَاخْلَعْ عَنْكَ جُبَّتَكَ، وَاصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ مَا أَنْتَ صَانِعٌ فِي حَجِّكَ ".
ہمام نے کہا: ہمیں عطا ابن ابی رباح نے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد (یعلیٰ بن امیہ تمیمی رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص حاضر ہوا۔ (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ (کے مقام) پر تھے، اس (کے بدن) پر جبہ تھا، اس پر زعفران ملی خوشبو (لگی ہوئی) تھی۔یاکہا: زردی کا نشان تھا۔اس نے کہا: آپ مجھے میرے عمرے میں کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ (یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے) کہا: (اتنے میں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرکپڑا تان دیا گیا۔یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (اس عالم میں) دیکھوں جب آپ پروحی اتر رہی ہو۔ (یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا:) (عمر رضی اللہ عنہ) کہنے لگے: کیاتمھیں پسند ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہوتو تم انھیں دیکھو؟ (یعلی رضی اللہ عنہ نے) کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے کپڑے کا ایک کنارا اٹھایا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سانس لینے کی بھاری آواز آرہی تھی۔صفوان نے کہا: میرا گمان ہے انھوں نے کہا:۔۔۔جس طرح جوان اونٹ کے سانس کی آواز ہوتی ہے۔ (یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے) کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت دو ر ہوئی (تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عمرے کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ (پھر اس نے فرمایا:) تم اپنے (کپڑوں) سے زردی (زعفران) کا نشان۔۔۔یا فرمایا: خوشبو کا اثر۔۔دھو ڈالو، اپنا جبہ اتار دو اور عمرے میں وہی کچھ کرو جو تم اپنے حج میں کرتے ہو۔"
حضرت صفوان بن لیلیٰ بن امیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے، وہ ایک جبہ (لمبا کوٹ) پہنے ہوئے تھا، جس پر ایک مخلوط خوشبو لگی ہوئی تھی یا اس پر زردی کا اثر تھا تو اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ مجھے میرے عمرے میں کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ راوی کہتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہونے لگا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا اور یعلیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میری خواہش تھی کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھوں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہو، یعلیٰ کہتے ہیں عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیا تجھے پسند ہے کہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہو؟ پھر حضرت عمر صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے کا کنارہ اٹھایا تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لے رہے تھے، صفوان کہتے ہیں، میرا خیال ہے انہوں نے کہا، جیسے جوان اونٹ خراٹے لیتا ہے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرہ کے بارے میں دریافت کرنے والا کہاں ہے؟ اپنے سے زردی کی چھاپ دور کر دے یا خُلوق مخلوط خوشبو کا اثر زائل کر دے اور اپنا جبہ اتار دے اور اپنے عمرہ میں اس طرح کرے جس طرح اپنے حج میں کرتے ہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1180
   صحيح البخاري4985يعلى بن أميةليتني أرى رسول الله حين ينزل عليه الوحي فجاءه الوحي فأشار عمر إلى يعلى أن تعال فجاء يعلى فأدخل رأسه فإذا هو محمر الوجه يغط كذلك ساعة ثم سري عنه أين الذي يسألني عن العمرة آنفا أما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات وأما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك كما تصنع
   صحيح البخاري4329يعلى بن أميةليتني أرى رسول الله حين ينزل عليه فأشار عمر إلى يعلى بيده أن تعال فجاء يعلى فأدخل رأسه فإذا النبي محمر الوجه يغط كذلك ساعة ثم سري عنه أين الذي يسألني عن العمرة آنفا أما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات وأما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك كما تصنع في حجك
   صحيح البخاري1789يعلى بن أميةأيسرك أن تنظر إلى النبي وقد أنزل الله عليه الوحي قلت نعم فرفع طرف الثوب فنظرت إليه له غطيط كغطيط البكر فلما سري عنه قال أين السائل عن العمرة اخلع عنك الجبة واغسل أثر الخلوق عنك وأنق الصفرة واصنع في عمرتك كما تصنع في حجك
   صحيح البخاري1847يعلى بن أميةاصنع في عمرتك ما تصنع في حجك وعض رجل يد رجل فانتزع ثنيته فأبطله النبي
   صحيح مسلم2800يعلى بن أميةليتني أرى نبي الله حين ينزل عليه فجاءه الوحي فأشار عمر بيده إلى يعلى بن أمية تعال فجاء يعلى فأدخل رأسه فإذا النبي محمر الوجه يغط ساعة ثم سري عنه أين الذي سألني عن العمرة آنفا أما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات وأما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك ما تصنع ف
   صحيح مسلم2798يعلى بن أميةأيسرك أن تنظر إلى النبي وقد أنزل عليه الوحي فرفع عمر طرف الثوب فنظرت إليه له غطيط كغطيط البكر فلما سري عنه قال أين السائل عن العمرة اغسل عنك أثر الصفرة واخلع عنك جبتك واصنع في عمرتك ما أنت صانع في حجك
   صحيح مسلم2802يعلى بن أميةانزع عنك جبتك واغسل أثر الخلوق الذي بك وافعل في عمرتك ما كنت فاعلا في حجك
   صحيح مسلم2801يعلى بن أميةانزع عنك الجبة واغسل عنك الصفرة وما كنت صانعا في حجك فاصنعه في عمرتك
   صحيح مسلم2799يعلى بن أميةأنزع عني هذه الثياب وأغسل عني هذا الخلوق ما كنت صانعا في حجك فاصنعه في عمرتك
   سنن أبي داود1819يعلى بن أميةرجلا أتى النبي وعليه أثر خلوق وعليه جبة قال كيف تأمرني أن أصنع في عمرتي فأنزل الله تبارك و على النبي الوحي فلما سري عنه قال أين السائل عن العمرة قال اغسل عنك أثر الخلوق واخلع الجبة عنك واصنع في عمرتك ما صنعت في حجتك
   سنن النسائى الصغرى2710يعلى بن أميةأتقي هذا وأغسله ما كنت صانعا في حجك فاصنعه في عمرتك
   سنن النسائى الصغرى2711يعلى بن أميةانزع عنك الجبة واغسل عنك الصفرة وما كنت صانعا في حجتك فاصنعه في عمرتك
   صحيح البخاري1790يعلى بن أميةإن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما
   مسندالحميدي808يعلى بن أميةما كنت تصنع في حجك؟
   مسندالحميدي809يعلى بن أميةأين السائل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4985  
´قرآن مجید قریش اور عرب کے محاورہ میں نازل ہوا`
«. . . أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ يَعْلَى، كَانَ يَقُولُ: لَيْتَنِي أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، فَلَمَّا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ وعَلَيْهِ ثَوْبٌ قَدْ أَظَلَّ عَلَيْهِ وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مُتَضَمِّخٌ بِطِيبٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ أَحْرَمَ فِي جُبَّةٍ بَعْدَ مَا تَضَمَّخَ بِطِيبٍ؟ فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، فَجَاءَهُ الْوَحْيُ، فَأَشَارَ عُمَرُ إِلَى يَعْلَى أَنْ تَعَالَ، فَجَاءَ يَعْلَى، فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ، فَإِذَا هُوَ مُحْمَرُّ الْوَجْهِ يَغِطُّ كَذَلِكَ سَاعَةً، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيْنَ الَّذِي يَسْأَلُنِي عَنِ الْعُمْرَةِ آنِفًا؟ فَالْتُمِسَ الرَّجُلُ، فَجِيءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَّا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزِعْهَا، ثُمَّ اصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ كَمَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ . . .»
. . . مجھے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے خبر دی کہ (میرے والد) یعلیٰ کہا کرتے تھے کہ کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی ہو۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کپڑے سے سایہ کر دیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ موجود تھے کہ ایک شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے۔ جس نے خوشبو میں بسا ہوا ایک جبہ پہن کر احرام باندھا ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنا شروع ہو گئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یعلیٰ کو اشارہ سے بلایا۔ یعلیٰ آئے اور اپنا سر (اس کپڑے کے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سایہ کیا گیا تھا) اندر کر لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اس وقت سرخ ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے سانس لے رہے تھے، تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی۔ پھر یہ کیفیت دور ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ جس نے ابھی مجھ سے عمرہ کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا وہ کہاں ہے؟ اس شخص کو تلاش کر کے آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جو خوشبو تمہارے بدن یا کپڑے پر لگی ہوئی ہے اس کو تین مرتبہ دھو لو اور جبہ کو اتار دو پھر عمرہ میں بھی اسی طرح کرو جس طرح حج میں کرتے ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ: 4985]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4985 کا باب: «بَابُ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ وَالْعَرَبِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیوں ترجمۃ الباب میں قرآن مجید کا قریشی اور عربی زبان میں نازل ہونے کی وضاحت کی جا رہی ہے، جس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اس کا تعلق قرآن مجید کے نزول سے نہیں ہے۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بین طور پر یہ اقرار کیا کہ:
«قد خفي دخول هذا الحديث فى هذا الباب على كثير من الائمة حتي قال ابن كثير فى تفسيره ذكر هذا الحديث فى الترجمة التى قبل هذه اظهر وابين» [فتح الباري لابن حجر: 9/10]
یقیناً کئی ائمہ پر یہ بات مخفی رہی کہ یہاں پر ترجمۃ الباب سے حدیث کی کیا مناسبت ہو گی یہاں تک کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں کہا کہ، اس حدیث کا تعلق اس باب کے ساتھ ہے جو اس سے قبل ہے، یہ زیادہ ظاہر اور واضح ہے۔

بعضے علماء نے یہاں تک کہا کہ اس حدیث کو درج کرنے میں اس جگہ پر کا تب سے غلطی ہو گئی ہے، کیوں کہ اس حدیث کا تعلق سابقہ باب سے ہے۔ لیکن جب غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث کو «نزل القرآن بلسان القريش العرب» میں لانے سے امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ کا بڑا مقصد ہے، جس کو وہ تحت الباب اور ترجمۃ الباب کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسی حل میں ترجمۃ الباب اور تحت الباب جو حدیث سیدنا لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اسی میں مناسبت موجود ہے۔

ابن المنیر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«كان ادخال هذا الحديث فى الباب الذى قبله اليق، لكن لعله قصة التنبيه على ان الوحي بالقرآن والسنة كان على صفة واحدة، وبلسان واحد .» [المتوري على ابواب البخاري: ص 387]
اس حدیث کا تعلق پچھلے باب سے ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا ارادہ اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کی وحی چاہے قرآن مجید کی ہو یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو، ان دونوں کا تعلق زبان کے اعتبار سے ایک ہی صفت کے ساتھ ہے۔
ابن منیر رحمہ اللہ کی وضاحت سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور حدیث رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں کا تعلق زبان عربی سے ہے اور صفت کے اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کا تعلق ایک شئی کے ساتھ ملحق ہے اور وہ شئی وحی ہے، جو من جانب اللہ ہوا کرتی ہے۔

ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مناسبة الحديث للترجمة: ان الوحي كله متلوا كان او غير متلو، انما نزل بلسان العرب» [شرح ابن بطال 218/10]
حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ وحی کا مکمل دارومدار متلو یا غیر متلو (حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) پر ہے اور یقیناً یہ دونوں وحی عربی زبان میں نازل ہوئیں۔

علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس حدیث کو تحت الباب میں لانے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اس بات پر تنبیہ کرنا کہ قرآن اور حدیث ان دونوں کا تعلق وحی کے ساتھ وابستہ ہے، جو کہ اس ایک ہی زبان میں نازل ہوئے۔ [عمدة القاري للعيني: 10/20]

امام قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی قریب قریب یہی مناسبت دی ہے۔ [ارشاد الساري: 8/9]

امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«ومناسبة حديثه للباب الاشارة الي ان القرآن نزل بلسان العرب مطلقاً قريش وغيرهم، لان السائل من غير قريش، وقد نزل الوحي فى جواب سؤاله بما يفهمه .» [التوشيح شرح الجامع الصحيح: 3199/7]
ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت اس اشارہ میں ہے کہ قرآن مجید مطلق طور پر عربی اور قریش وغیرھم کی زبان میں نازل ہوا، کیوں کہ سائل (جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا) وہ قریشی نہ تھا اور یقیناً وحی کے ذریعے اسے سوال کا جواب اس طرح دیا گیا کہ وہ (جواب) کو سمجھے۔
امام سیوطی رحمہ اللہ کے جواب سے مناسبت کچھ یوں ہوئی کہ قرآن مجید جس طرح قریشی زبان اور اس کے علاوہ دوسرے عرب لہجے کی زبان میں نازل ہوا ہے، بعین حدیث وحی کے ذریعے بھی غیر قریشی زبان کے ذریعے لوگوں کے سوالات کے جوابات نازل کئے جاتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر۔

مزید اگر غور کیا جائے تو ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت دوسرے پہلو سے بھی بنتی ہے، سیدنا صفوان بن یعلی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت کا ذکر ہے اور یہ کیفیت وحی کے نزول کی طرف دلالت کرتی ہے، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جس طرح قرآن نازل ہوتا تھا، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیث بھی نازل ہوا کرتی تھی، اگرچہ وحی کی مختلف کیفیات ہیں، تاہم ان تمام وحی کا تعلق من جانب اللہ ہوا کرتا ہے، چاہے وہ قرآنی وحی ہو، یا غیر قرآنی، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 73   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1819  
´آدمی سلے ہوئے کپڑے میں احرام باندھ لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ جعرانہ میں تھے، اس کے بدن پر خوشبو یا زردی کا نشان تھا اور وہ جبہ پہنے ہوئے تھا، پوچھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کس طرح عمرہ کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی، جب وحی اتر چکی تو آپ نے فرمایا: عمرے کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے؟ فرمایا: خلوق کا نشان، یا زردی کا نشان دھو ڈالو، جبہ اتار دو، اور عمرے میں وہ سب کرو جو حج میں کرتے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1819]
1819. اردو حاشیہ:
➊ جعرانہ جیم کےکسرہ اورعین کےسکون کےساتھ یاجیم اور عین دونوں کے کسرہ اور راء مشدد کےساتھ۔مکہ سے مدینہ آنے والےراستے سے دائیں جانب کچھ دور ہٹ کر ایک منزل کا نام ہے۔یہاں آپ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم فرمایت تھا یہیں سے احرام باندھ کر ایک عمرہ کیا تھا۔
➋ احرام باندھتے وقت خوشبو لگانا جائز ہے خواہ بعدازاں اس کا اثر بھی باقی رہے۔مگر زعفران اورز ردرنگ یک خوشبو عام حالات میں بھی ممنوع ہے تو احرام میں احرم میں زیادہ ہی منع ہے۔
➌ مرد کےلیے سلےہوئے لباس میں احرام نہیں صرف دو چادریں ہونی چاہئیں۔
➍ لباس اتارتے ہوئے یا اتفاقاً سر پر کپڑا آپڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
➎ حج اور عمرے کے احرم کے احکام ایک ہی ہیں۔مزید یہ بھی ثابت ہوا کہ ممنوعات سے بچنا بھی ایک عمل ہوتا ہے۔
➏ شریعت سراسر منزل من اللہ اور وحی شدہ ہے۔ <قرآن> ﴿ وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ* إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ﴾ (سورة النجم:3، 4)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1819   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2798  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ استدلا ل کیا ہے کہ اگر کوئی انسان جہالت وناواقفیت سے یا بھول کر خوشبودار کپڑا پہن لے تو اس پر کفارہ نہیں ہے علم ہوتے ہی اسے فوراً ایسا کپڑا اتار دینا چاہیے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر فدیہ ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دونوں اقوال منقول ہیں۔
امام ابن قدامہ نے عدم کفارہ کے قول کو ترجیح دی ہے۔
(خُلُوق)
اس خوشبو کو کہتے ہیں جس میں زعفران وغیرہ کی آمیزش ہو۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی قرآن کے علاوہ بھی اترتی تھی جو سنت میں محفوظ ہے،
فرق یہ ہے کہ اگر آپﷺ پر الفاظ اور معانی دونوں کا نزول ہوتا تو اس وحی کو قرآن کی صورت میں محفوظ کیا جاتا تھا اور یہ وحی متلو کہلاتی ہے کیونکہ اس کو نماز میں پڑھا جاتا ہے اگر صرف معانی اور مفاہیم ومطالب کا نزول ہوتا یا الفاظ کا نزول ہوتا لیکن ان کی تلاوت کا حکم نہ ہوتا اور نہ کہ قرآنی شکل ملتی تو وہ جی غیر متلو کہلاتی اور حدیث نبوی یا حدیث قدسی کی شکل میں محفوظ کی جاتی۔
جعرانہ میں آپﷺ غزوہ طائف سے واپسی کے وقت ٹھہری ہوئے تھے یہ آٹھ ہجری ذوالقعدہ کا واقعہ ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2798   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.