الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
28. باب مَا يَلْزَمُ مَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ ثُمَّ قَدِمَ مَكَّةَ مِنَ الطَّوَافِ وَالسَّعْيِ بعده:
28. باب: حاجی کے لئے طواف قدوم اور اس کے بعد سعی کرنے کا استحباب۔
حدیث نمبر: 2998
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جرير ، عن بيان ، عن وبرة ، قال: سال رجل ابن عمر رضي الله عنهما: اطوف بالبيت وقد احرمت بالحج؟، فقال: وما يمنعك؟، قال: إني رايت ابن فلان يكرهه، وانت احب إلينا منه، رايناه قد فتنته الدنيا، فقال: واينا او ايكم لم تفتنه الدنيا، ثم قال: " راينا رسول الله صلى الله عليه وسلم احرم بالحج، وطاف بالبيت وسعى بين الصفا والمروة، فسنة الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم احق ان تتبع من سنة فلان إن كنت صادقا ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ وَبَرَةَ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَقَدْ أَحْرَمْتُ بِالْحَجِّ؟، فَقَالَ: وَمَا يَمْنَعُكَ؟، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ ابْنَ فُلَانٍ يَكْرَهُهُ، وَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْهُ، رَأَيْنَاهُ قَدْ فَتَنَتْهُ الدُّنْيَا، فَقَالَ: وَأَيُّنَا أَوْ أَيُّكُمْ لَمْ تَفْتِنْهُ الدُّنْيَا، ثُمَّ قَالَ: " رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ، وَطَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَسُنَّةُ اللَّهِ وَسُنَّةُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ تَتَّبِعَ مِنْ سُنَّةِ فُلَانٍ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا ".
بیان نے وبرہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: میں نےحج کا احرام باندھا ہے، تو کیا میں بیت اللہ کاطواف کرلوں؟انھوں نے فرمایا: (ہاں) تمھیں کیا مانع ہے؟اس نے کہا: میں نے ابن فلاں (ابن عباس رضی اللہ عنہ) کو دیکھا ہے کہ وہ اسے ناپسندکرتے ہیں اور آپ ہمیں ان سے زیادہ محبوب ہیں ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا نے انھیں فتنے میں ڈال دیا ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم میں سے کون یاتم میں سے کون۔جسے دنیا نے فتنے میں نہیں ڈالا؟ (تم ان پر دنیا داری کا اعتراض نہ کرو،) پھر فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے حج کااحرام باندھا، بیت اللہ کاطواف کیا اور صفا مروہ کی سعی فرمائی، (اب سوچو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی کا زیادہ حق ہے۔یافلاں کے راستے کا کہ اس کی اتباع کی جائے؟اگر تم سچ کہہ رہے ہو۔
وبرہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، میں نے حج کا احرام باندھا ہے، تو کیا میں بیت اللہ کا طواف کروں؟ انہوں نے فرمایا: تیرے لیے کیا رکاوٹ ہے؟ اس نے کہا، میں نے فلاں کے بیٹے کو دیکھا ہے، وہ اسے ناپسند کرتا ہے، اور آپ ہمیں اس سے زیادہ محبوب ہیں۔ کیونکہ انہیں ہم نے دنیا کی آزمائش میں پڑتے دیکھا ہے، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ہم میں سے یا تم میں سے کون دنیا کے فتنہ میں مبتلا نہیں ہے؟ پھر فرمایا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا، اور بیت اللہ کا طواف کر کے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، اگر تم دعویٰ ایمان میں سچے ہو تو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ، فلاں کے طریقہ سے اتباع کے زیادہ لائق ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1233
   صحيح مسلم2994عبد الله بن عمرأهللنا مع رسول الله بالحج مفردا
   صحيح مسلم2992عبد الله بن عمرأشهدكم أني قد أوجبت عمرة
   صحيح مسلم2998عبد الله بن عمرأحرم بالحج طاف بالبيت سعى بين الصفا والمروة
   جامع الترمذي821عبد الله بن عمرأفرد الحج
   سنن أبي داود1805عبد الله بن عمرمن كان منكم أهدى فإنه لا يحل له من شيء حرم منه حتى يقضي حجه من لم يكن منكم أهدى فليطف بالبيت و بالصفا و المروة وليقصر وليحلل يهل بالحج وليهد فمن لم يجد هديا فليصم ثلاثة أيام في الحج وسبعة إذا رجع إلى أهله وطاف رسول الله حين قدم مكة
   سنن النسائى الصغرى2733عبد الله بن عمرمن كان منكم أهدى فإنه لا يحل من شيء حرم منه حتى يقضي حجه من لم يكن أهدى فليطف بالبيت وبالصفا والمروة وليقصر وليحلل يهل بالحج ثم ليهد ومن لم يجد هديا فليصم ثلاثة أيام في الحج وسبعة إذا رجع إلى أهله فطاف رسول الله حين قدم مكة واستلم
   سنن النسائى الصغرى2932عبد الله بن عمرأحرم بالحج طاف بالبيت سعى بين الصفا والمروة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1805  
´حج قران کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا تو آپ نے ہدی کے جانور تیار کئے، اور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے کر گئے تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کا تلبیہ پکارا پھر حج کا (یعنی پہلے «لبيك بعمرة» کہا پھر «لبيك بحجة» کہا) ۱؎ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی عمرے کو حج میں ملا کر تمتع کیا، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے ہدی تیار کیا اور اسے لے گئے، اور بعض نے ہدی نہیں بھیجا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا: تم میں سے جو ہدی لے کر آیا ہو تو اس کے لیے (احرام کی وجہ سے) حرام ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز حلال نہیں جب تک کہ وہ اپنا حج مکمل نہ کر لے، اور تم لوگوں میں سے جو ہدی لے کر نہ آیا ہو تو اسے چاہیئے کہ بیت اللہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کی سعی کرے، بال کتروائے اور حلال ہو جائے، پھر حج کا احرام باندھے اور ہدی دے جسے ہدی نہ مل سکے تو ایام حج میں تین روزے رکھے اور سات روزے اس وقت جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آ جائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے تو آپ نے طواف کیا، سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر پہلے تین پھیروں میں تیز چلے اور آخری چار پھیروں میں عام چال، بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم پر دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیرا اور پلٹے تو صفا پر آئے اور صفا و مروہ میں سات بار سعی کی، پھر (آپ کے لیے محرم ہونے کی وجہ سے) جو چیز حرام تھی وہ حلال نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حج پورا کر لیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنا ہدی نحر کر دیا، پھر لوٹے اور بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کیا پھر ہر حرام چیز آپ کے لیے حلال ہو گئی اور لوگوں میں سے جنہوں نے ہدی دی اور اسے ساتھ لے کر آئے تو انہوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1805]
1805. اردو حاشیہ:
➊ حج کے لیے قران (قاف کے کسرہ کے ساتھ) اور تمتع کی اصطلاحات شروع میں اس طرح مشہور و معروف نہ تھیں جس طرح کہ بعد میں ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ احادیث میں قران کے لیے تمتع کا لفظ بھی آیا ہے جیسے کہ مندرجہ ذیل بالاحدیث میں وارد ہوا ہے۔یہاں یہ لغوی معنی میں ہے۔یعنی فائدہ حاصل کرنا۔ چونکہ انہوں نے اپنے سفر حج میں عمرے کا فائدہ بھی حاصل کر لیا تھا اس لیے یہاں اسے لغوی طور پر تمتع سے تعبیر کر دیا ہے۔ ورنہ موجود اصطلاح کےاعتبار سے یہ حج تمتع نہیں ہے حج قران ہے۔
➋ مکہ پہنچ کر سب سے پہلا کام بیت اللہ کا طواف ہوتا ہے۔ اس طواف کو طواف قدوم کہتے ہیں۔
➌ طواف کی ابتدائی حجر اسود سے اور اس کے استلام سے ہوتی ہے اور اسی پر انتہا بھی۔ استلام کےمعنی ہیں ہاتھ لگانا یا چومنا ایک مکمل طواف میں سات چکر پورے کیے جاتے ہیں اور اس پہلے طواف (طواف قدوم)کے پہلے تین چکروں میں آہستہ آہستہ دو‎ڑنا مسنون ہے۔اسے «رمل» ‏‏‏‏ یا «خبب» کہتے ہیں۔مگر عورتیں اس سے مستثنی ہیں۔بعد والے کسی طواف میں رمل نہیں کیاجاتا۔
➍ طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھنا مسنون ہے۔مستحب یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جائیں۔ان کے بعد دوبارہ حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا بھی مسنون عمل ہے جو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ خیال رہے کہ حجراسود کو بوسہ دینے کے لیے دھکم پیل ایک قبیح اور ناجائز حرکت ہے اور خواتین کے اندر گھسیں۔چاہیے کہ باوقار انداز سے اپنی باری کا انتظار کیا جائے یا پھر صرف ہاتھ لگا کر اشارہ کر کے آگے گزر جائے۔
➎ حج تمتع یا قران والے کے لیے قربانی واجب ہے۔اگر قربانی کی استطاعت نہ ہو تو دس روزے رکھے۔تین روزے ایام حج میں اور باقی سات اپنے اہل میں واپس آکر۔ایام حج سےمراد 9ذوالحجہ (یوم عرفات) سے پہلے یا پھر ایام تشریق ہیں۔ (تفسیر فتح القدیر) ب
➏ حج تمتع والا یا عمرے والا بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد حجامت بنوا کر کامل طور پر حلال ہو جاتا ہے جبکہ حج افراد یا قران والا دسویں ذوالحج کو قربانی کرنے اور حجامت بنوانے کے بعد لباس تبدیل کر سکتا ہے اور خوشبو لگا سکتا ہے۔مگر بیوی سے قربت نہیں کر سکتا۔ہاں بیت اللہ کے طواف (طواف افاضہ یا طواف زیارت)کے بعد وہ کامل طورپر حلال ہو جاتا ہے۔
➐ شیخ البانی  نے اس روایت کے الفاظ ابتدا میں رسول اللہ ﷺ نے عمرے کا تلبیہ کہا پھر حج کا کو شاذ قرار دیا ہے۔گویا صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے پہلے حج کا تلبیہ کہا اور آ‎گے جاکر حج کے ساتھ عمرے کو بھی ملالیا۔ایسا ابتدا میں نہیں ہو ا بلکہ آگے جاکر ہوا۔ اس طرح دوسری روایات کے ساتھ مطابقت ہو جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:زاد المعاد فتح الباری عون المعبود وغیرہ۔]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1805   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2998  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حج افراد اور حج قران کرنے والے کے لیے طواف قدوم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واجب نہیں ہے،
اگر کوئی شخص ایسے تنگ وقت میں مکہ معظمہ پہنچتا ہے اگر وہ طواف قدوم کرنے لگے تو اس کا عرفات کا وقوف رہ جائے گا جو بالاجماع حج کارکن اعظم ہے جس کے بغیر حج کالعدم ہے تو وہ طواف قدوم کیے بغیر عرفات چلا جائے گا۔
اور اس پر دم لازم نہیں آئے گا۔
لیکن امام امالک رحمۃ اللہ علیہ،
ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ اور بعض شافعی آئمہ کے نزدیک طواف قدوم واجب ہے،
اگر یہ رہ جائے تو ایک جانور کی قربانی لازم آتی ہے،
قاضی شوکانی نے بھی طواف قدوم کو آپ کے فصل کی بنا پر لازم قرار دیا ہے لیکن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس ہدی نہیں ہے تو وہ وقوف عرفات سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہ کرے،
اگر وہ بیت اللہ کا طواف کرے گا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کے پاس قربانی نہیں تھی انہیں اس طواف کو عمرہ بنانے کا حکم دیا لہٰذا یہ متمتع ہو جائے گا مفرد یا قارن نہیں رہے گا،
لیکن اگر اس کے پاس قربانی ہو تو پھر طواف قدوم اور سعی کر سکتا ہے اس کے بارے میں یہ کہنا وہ مفرد کے لیے طواف قدوم کے قائل نہیں تھے درست نہیں ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فتنہ دنیا میں مبتلا اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بصرہ کے گورنر بن گئے تھے جبکہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی عہدہ یا منصب قبول نہیں کیا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2998   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.