الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: سورج گہن کے متعلق بیان
The Book of The Eclipses.
19. بَابُ الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِي الْكُسُوفِ:
19. باب: گرہن کی نماز میں بلند آواز سے قرآت کرنا۔
(19) Chapter. To recite (the Quran) aloud in the eclipse Salat (prayer).
حدیث نمبر: 1066
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
وقال الاوزاعي وغيره: سمعت الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، ان الشمس خسفت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فبعث مناديا بالصلاة جامعة، فتقدم، فصلى اربع ركعات في ركعتين واربع سجدات، واخبرني عبد الرحمن بن نمر، سمع ابن شهاب مثله، قال الزهري: فقلت: ما صنع اخوك ذلك عبد الله بن الزبير ما صلى إلا ركعتين مثل الصبح إذ صلى بالمدينة، قال: اجل إنه اخطا السنة، تابعه سفيان بن حسين، وسليمان بن كثير، عن الزهري في الجهر.وَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ وَغَيْرُهُ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ الشَّمْسَ خَسَفَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ مُنَادِيًا بِالصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، فَتَقَدَّمَ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ نَمِرٍ، سَمِعَ ابْنَ شِهَاب مِثْلَهُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقُلْتُ: مَا صَنَعَ أَخُوكَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ مَا صَلَّى إِلَّا رَكْعَتَيْنِ مِثْلَ الصُّبْحِ إِذْ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ، قَالَ: أَجَلْ إِنَّهُ أَخْطَأَ السُّنَّةَ، تَابَعَهُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ فِيِ الْجَهْر.
اور امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے اعلان کرا دیا کہ نماز ہونے والی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں۔ ولید بن مسلم نے بیان کیا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن نمر نے خبر دی اور انہوں نے ابن شہاب سے سنا، اسی حدیث کی طرح زہری (ابن شہاب) نے بیان کیا کہ اس پر میں نے (عروہ سے) پوچھا کہ پھر تمہارے بھائی عبداللہ بن زبیر نے جب مدینہ میں «کسوف» کی نماز پڑھائی تو کیوں ایسا کیا کہ جس طرح صبح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ نماز «کسوف» بھی انہوں نے پڑھائی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انہوں نے سنت کے خلاف کیا۔ عبدالرحمٰن بن نمر کے ساتھ اس حدیث کو سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی زہری سے روایت کیا، اس میں بھی جہری قرآت کرنے کا بیان ہے۔

Al-Auza'i and others said that they had heard Az-Zuhri from 'Urwa from `Aisha saying, "In the lifetime of Allah's Apostle the sun eclipsed, and he made a person to announce: 'Prayer in congregation.' He led the prayer and performed four bowing and four prostrations in two rak`at." Narrated Al-Walid that `Abdur-Rahman bin Namir had informed him that he had heard the same. Ibn Shihab heard the same. Az-Zuhri said, "I asked ('Urwa), 'What did your brother `Abdullah bin Az-Zubair do? He prayed two rak`at (of the eclipse prayer) like the morning prayer, when he offered the (eclipse) prayer in Medina.' 'Urwa replied that he had missed (i.e. did not pray according to) the Prophet's tradition." Sulaiman bin Kathir and Sufyan bin Husain narrated from Az-Zuhri that the prayer for the eclipse used to be offered with loud recitation.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 18, Number 172


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1066  
1066. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے ایک منادی کرنے والے کو تعینات کیا جو الصلاة جامعة کا اعلان کرتا تھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور دو رکعات میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ ولید کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن نمر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے بھی امام زہری سے اسی طرح سنا ہے۔ امام زہری ؓ کہتے ہیں: میں نے حضرت عروہ ؓ سے کہا: آپ کے بھائی عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو ایسا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے جب مدینہ طیبہ میں گرہن کے موقع پر نماز پڑھی تھی تو صبح کی نماز کی طرح صرف دو رکعت ہی ادا کی تھی۔ انہوں نے کہا: ہاں، لیکن ان سے سنت میں خطا سرزد ہو گئی۔ سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے امام زہری سے جہری قراءت کے سلسلے میں ابن نمر کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1066]
حدیث حاشیہ:
یعنی سنت یہ تھی کہ گرہن کی نماز میں ہر رکعت میں دو رکوع کرتے دو قیام، مگر عبد اللہ بن زبیرؓ نے جو صبح کی نماز کی طرح اس میں ہر رکعت میں ایک رکوع کیا اور ایک ہی قیام تو یہ ان کی غلطی ہے وہ چوک گئے طریقہ سنت کے خلاف کیا۔
عبد الرحمن بن نمر کے بارے میں لوگوں نے کلام کیا ہے گو زہری وغیرہ نے اس کوثقہ کہاہے، مگر یحییٰ بن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے توا مام بخاری نے اس روایت کا ضعف رفع کرنے کے لیے یہ بیان فرما کر کہ عبد الرحمن کی متابعت سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی کی ہے مگر متابعت سے حدیث قوی ہو جاتی ہے۔
حافظ نے کہا کہ ان کے سواعقیل اوراسحاق بن راشد نے بھی عبد الرحمن بن نمرکی متابعت کی ہے۔
سلیمان بن کثیر کی روایت کو امام احمد ؒ نے اور سفیان بن حسین کی روایت کو ترمذی اور طحاوی نے، عقیل کی روایت کو بھی طحاوی ؒ نے اور اسحاق بن راشد کی روایت کو دار قطنی نے وصل کیا ہے (مولانا وحید الزماں مرحوم)
وقد ورد الجھر فیھا عن علي مرفوعا أخرجه ابن خزیمة وغیرہ وبه قال صاحبا أبي حنیفة وأحمد وإسحاق وابن خزیمة وابن المنذر وغیرھما من الشافعیة وابن العربي۔
(فتح الباري)
یعنی کسوف میں جہری قرات کے بارے میں حضرت علیؓ سے بھی مرفوعا اور موقوفا ابن خزیمہ نے روایت کی ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے دونوں شاگرد امام محمد اور امام ابویوسف بھی اسی کے قائل ہیں اور احمد اور اسحاق اور ابن خزیمہ اورابن منذر اورابن عربی وغیرہ بھی جہر کے قائل ہیں۔
واللہ أعلم۔
حدیث عائشة رضي اللہ عنها:
جھر النبي صلی اللہ علیه وسلم في صلوة الخسوف بقرائته کے ذیل میں حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحديث ؒ فرماتے ہیں:
هذا نص في أن قراءته - صلى الله عليه وسلم - في صلاة كسوف الشمس كانت جهراً لا سراً، وهو يدل على أن السنة في صلاة الكسوف هي الجهر بالقراءة لا الإسرار، ويدل لذلك أيضاً حديث أسماء عند البخاري، قال الزيلعي في نصب الراية (ج2 ص232)
، والحافظ في الدراية (ص137)
، وابن الهمام في فتح القدير، والعيني في البناية:
وللبخاري من حديث أسماء بنت أبي بكر قالت:
جهر النبي - صلى الله عليه وسلم - في صلاة الكسوف - انتهى. ويدل له أيضاً ما روى ابن خزيمة والطحاوي عن علي مرفوعاً وموقوفاً من الجهر بالقراءة في صلاة الكسوف، قال الطحاوي بعد رواية الحديث عن علي موقوفاً:
ولو لم يجهر النبي - صلى الله عليه وسلم - حين صلى علي معه لما جهر علي أيضاً؛ لأنه علم أنه السنة فلم يترك الجهر، والله أعلم۔
(مرعاة ج: 2، ص: 375)
یعنی یہ حدیث اس امر پر نص ہے کہ کسوف شمس کی نماز میں آنحضرت ﷺ کی قراءت جہری تھی سری نہ تھی اور یہ دلیل ہے کہ صلوۃ کسوف میں جہری قرات سنت ہے نہ کہ سری اور اس پر حضرت اسماء کی حدیث بھی دلیل ہے۔
زیلعی نے اپنی کتاب نصب الرایہ، ج: 2ص: 232 پر اور حافظ نے درایہ، ص: 137 پر اور ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور عینی نے نہایہ میں لکھا ہے کہ امام بخاری کے لیے حدیث اسماء بنت ابی بکر بھی دلیل ہے جس میں ان کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسوف کی نماز میں جہری قراءت کی تھی اور ابن خزیمہ اور طحاوی میں بھی حضرت علی ؓ کی سند سے مرفوعا اور موقوفا ہر دو طرح سے نماز کسوف کی نماز میں قرات کی دلیل موجود ہے۔
حضرت علی ؓ کی اس روایت کوذکر فرما کر امام طحاوی ؒ نے فرمایا کہ جس وقت حضرت علی ؓ نے آنحضرت ﷺ کے ہمراہ کسوف کی نماز ادا کی تھی اس وقت اگر آنحضرت ﷺ جہری قراءت نہ فرماتے تو حضرت علی ؓ بھی اپنی نماز میں جہری قرات نہ کرتے۔
وہ بلا شک جانتے تھے کہ جہری سنت ہے، اس لیے انہوں نے اسے ترک نہیں کیا اورسنت نبوی کے مطابق جہری قراءت کے ساتھ اسے ادا فرمایا۔
اس بارے میں کچھ علماءمتقدمین نے اختلافات بھی کئے ہیں مگر دلائل قویہ کی رو سے ترجیح جہری قرات ہی کو حاصل ہے:
وقال في السيل الجرار:
رواية الجهر أصح وأكثر، وراوي الجهر مثبت وهو مقدم على النافي - انتهى. وسيأتي شيء من الكلام فيه في شرح حديث سمرة. وتأول بعض الحنفية حديث عائشة بأنه - صلى الله عليه وسلم - جهر بآية أو آيتين. قال في البدائع:
نحمل ذلك على أنه جهر ببعضها اتفاقاً، كما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يسمع الآية والآيتين في صلاة الظهر أحياناً - انتهى. وهذا تأويل باطل؛ لأن عائشة كانت تصلي في حجرتها قريباً من القبلة، وكذا أختها أسماء، ومن كان كذلك لا يخفى عليه قراءة النبي - صلى الله عليه وسلم -، فلو كانت قراءته في صلاة الكسوف سراً وكان يجهر بآية وآيتين أحياناً، كما فعل كذلك في صلاة الظهر، لما عبرت عن ذلك بأنه كان يجهر بالقراءة في صلاة الكسوف، كما لم يقل أحد ممن روى قراءته في صلاة الظهر أنه جهر فيها بالقراءة۔
حوالہ مذکورہ یعنی سیل جرار میں کہا کہ جہر کی روایت صحیح اوراکثر ہیں اور جہر کی روایت کرنے والا راوی مثبت ہے جو نفی کرنے والے پر اصولا مقدم ہے بعض حنفیہ نے یہ تاویل کی ہے کہ آپ نے بعض آیات کو جہر سے پڑھ دیا تھا جیسا کہ آپ بعض دفعہ ظہر کی نماز میں بھی بعض آیات جہر سے پڑھ دیا کرتے تھے پس حدیث عائشہ میں جہری سے یہی مراد ہے اور یہ تاویل بالکل باطل ہے، کیونکہ حضرت عائشہ اوران کی بہن اسماء قبلہ کے قریب اپنے حجروں میں نماز پڑھتی تھیں اور جو ایسا ہو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات مخفی رہ سکتی ہے پس اگر آپ کی قرات کسوف کی نماز میں سری ہوتی اور آپ کبھی کبھار کوئی آیت ظہر کی طرح پڑھ دیا کرتے تو عائشہ ؓ حضرت اسماء ؓ سے جہری قراءت سے نہ تعبیر کرتیں، جیسا کہ آپ کے نماز ظہر میں بعض آیات کو جہری پڑھ دینے سے کسی نے بھی اس کو جہری قراءت پر محمول نہیں کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1066   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1066  
1066. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے ایک منادی کرنے والے کو تعینات کیا جو الصلاة جامعة کا اعلان کرتا تھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور دو رکعات میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ ولید کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن نمر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے بھی امام زہری سے اسی طرح سنا ہے۔ امام زہری ؓ کہتے ہیں: میں نے حضرت عروہ ؓ سے کہا: آپ کے بھائی عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو ایسا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے جب مدینہ طیبہ میں گرہن کے موقع پر نماز پڑھی تھی تو صبح کی نماز کی طرح صرف دو رکعت ہی ادا کی تھی۔ انہوں نے کہا: ہاں، لیکن ان سے سنت میں خطا سرزد ہو گئی۔ سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے امام زہری سے جہری قراءت کے سلسلے میں ابن نمر کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1066]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات نے لفظ خسوف کی بنا پر موقف اختیار کیا ہے کہ جہری قراءت چاند گرہن کے وقت تھی، حالانکہ ایک روایت میں ہے کہ جہری قراءت کا اہتمام سورج گرہن کے وقت ہوا تھا۔
بہرحال گرہن کے وقت بآواز بلند قراءت کرنی چاہیے۔
(2)
سلیمان بن کثیر کی متابعت کو مسند ابوداود طیالسی میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کی نماز میں بآواز بلند قراءت کی تھی۔
سفیان بن حسین کی متابعت کو امام ترمذی اور علامہ طحاوی نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کسوف میں اونچی آواز سے قراءت کی تھی۔
حضرت علی ؓ سے بھی جہری قراءت کے متعلق مرفوع اور موقوف دونوں روایات مروی ہیں۔
چونکہ اس نماز کا باقاعدہ اعلان ہوتا ہے، پھر خطبہ بھی دیا جاتا ہے، اس لیے نماز عید کی طرح اس میں بآواز بلند قراءت کرنا ہی مستحب ہے۔
(فتح الباري: 709/2،710)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1066   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.