الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لعان کا بیان
The Book of Invoking Curses
حدیث نمبر: 3758
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن رمح بن المهاجر ، وعيسى بن حماد المصريان، واللفظ لابن رمح، قالا: اخبرنا الليث ، عن يحيي بن سعيد ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن القاسم بن محمد ، عن ابن عباس ، انه قال: ذكر التلاعن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: عاصم بن عدي في ذلك قولا ثم انصرف، فاتاه رجل من قومه يشكو إليه انه وجد مع اهله رجلا، فقال عاصم: ما ابتليت بهذا إلا لقولي، فذهب به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره بالذي وجد عليه امراته، وكان ذلك الرجل مصفرا قليل اللحم سبط الشعر، وكان الذي ادعى عليه انه وجد عند اهله خدلا آدم كثير اللحم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم بين، فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها انه وجده عندها، فلاعن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما "، فقال رجل لابن عباس في المجلس: اهي التي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو رجمت احدا بغير بينة رجمت هذه؟ فقال ابن عباس: لا تلك امراة كانت تظهر في الإسلام السوء.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، وَعِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيَّانِ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رُمْحٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ أَهْلِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبِطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ خَدْلًا آدَمَ كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا "، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ السُّوءَ.
3758. لیث نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے خبر دی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لعان کا تذکرہ کیا گیا تو عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں کوئی بات کہی، پھر وہ چلے گئے، تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک آدمی شکایت لے کر آیا کہ اس نے اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو پایا ہے۔ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں اس مسئلے میں محض اپنی بات کی وجہ سے مبتلا ہوا ہوں، چنانچہ وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اس نے آپ کو اس آدمی کے بارے میں بتایا جسے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ پایا تھا اور وہ (تہمت لگانے والا) آدمی زرد رنگت، کم گوشت اور سیدھے بالوں والا تھا، اور جس کے متعلق اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے وہ بھری پنڈلیوں، گندمی رنگ اور زیادہ گوشت والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! (معاملہ) واضح فرما۔ تو اس عورت نے (بعد ازاں جب بچے کو جنم دیا تو) اس آدمی کے مشابہ بچے کو جنم دیا جس کا اس کے خاوند نے ذکر کیا تھا کہ اسے اس نے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان لعان کروایا تھا۔ مجلس میں ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہسے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اگر میں کسی کو بغیر دلیل کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کرتا؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا: نہیں، وہ عورت اسلام میں (داخل ہو جانے کے باوجود) علانیہ برائی (زنا) کرتی تھی۔ (لیکن مکمل گواہیاں دستیاب نہ ہوتی تھیں-)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لعان کا ذکر چھڑا تو عاصم نے اس کے بارے میں گفتگو کی، پھر مجلس سے چلے گئے۔ تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک آدمی یہ شکایت لے کر آیا کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک مرد کو پایا ہے۔ تو عاصم نے کہا، میں اس معاملے سے اپنی بات کی بنا پر دو چار ہوا ہوں۔ تو وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ کو اس کی بیوی کی صورت حال کی خبر دی، اور وہ آدمی (عویمر) زرد اور دبلا پتلا اور کھلے بالوں والا تھا۔ اور جس آدمی کے بارے میں دعویٰ کیا کہ اسے اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے، وہ بھری پنڈلیوں والا، گندمی رنگ والا اور بہت موٹا تازہ تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! واضح فرما۔ تو اس نے اس مرد کے مشابہہ بچہ جنا، جس کے بارے میں اس کے خاوند نے بتایا تھا کہ وہ اس عورت کے پاس تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میں لعان کروایا تو مجلس میں سے ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، کیا اس عورت کے بارے میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: اگر میں کسی کو گواہوں کے بغیر رجم کرتا، تو اس کو رجم کر دیتا؟ ابن عباس نے جواب دیا۔ نہیں، وہ ایسی عورت تھی جو مسلمان ہو کر بے حیائی کے کام کرتی تھی۔ یعنی اس کی چال ڈھال اور ہیئیت سے اس کے فاحشہ ہونے کا پتہ چلتا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں گواہ موجود نہیں تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1497
   صحيح البخاري6856عبد الله بن عباساللهم بين فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها أنه وجده عندها فلاعن النبي بينهما فقال رجل لابن عباس في المجلس هي التي قال النبي لو رجمت أحدا بغير بينة رجمت هذه
   صحيح البخاري4747عبد الله بن عباسالبينة وإلا حد في ظهرك فقال هلال والذي بعثك بالحق إني لصادق فلينزلن الله ما يبرئ ظهري من الحد فنزل جبريل وأنزل عليه والذين يرمون أزو
   صحيح البخاري5316عبد الله بن عباساللهم بين فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها أنه وجد عندها فلاعن رسول الله بينهما
   صحيح البخاري5310عبد الله بن عباساللهم بين فجاءت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها أنه وجده فلاعن النبي بينهما
   صحيح البخاري5307عبد الله بن عباسيعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب ثم قامت فشهدت
   صحيح البخاري2671عبد الله بن عباسالبينة أو حد في ظهرك فقال يا رسول الله إذا رأى أحدنا على امرأته رجلا ينطلق يلتمس البينة فجعل يقول البينة وإلا حد في ظهرك فذكر حديث اللعان
   صحيح مسلم3758عبد الله بن عباساللهم بين فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها أنه وجده عندها فلاعن رسول الله بينهما
   جامع الترمذي3179عبد الله بن عباسالبينة وإلا فحد في ظهرك قال فقال هلال والذي بعثك بالحق إني لصادق ولينزلن في أمري ما يبرئ ظهري من الحد فنزل والذين يرمون أز
   سنن أبي داود2255عبد الله بن عباسأمر المتلاعنين أن يتلاعنا أن يضع يده على فيه عند الخامسة يقول إنها موجبة
   سنن النسائى الصغرى3497عبد الله بن عباسلاعن رسول الله بين العجلاني وامرأته وكانت حبلى
   سنن النسائى الصغرى3502عبد الله بن عباسأمر رجلا حين أمر المتلاعنين أن يتلاعنا أن يضع يده عند الخامسة على فيه وقال إنها موجبة
   سنن النسائى الصغرى3501عبد الله بن عباساللهم بين فوضعت شبيها بالذي ذكر زوجها أنه وجده عندها فلاعن رسول الله بينهما فقال رجل لابن عباس في المجلس أهي التي قال رسول الله لو رجمت أحدا بغير بينة رجمت هذه قال ابن عباس لا تلك امرأة كانت تظهر الشر في الإسلام
   سنن النسائى الصغرى3500عبد الله بن عباساللهم بين فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها أنه وجده عندها فلاعن رسول الله بينهما فقال رجل لابن عباس في المجلس أهي التي قال رسول الله لو رجمت أحدا بغير بينة رجمت هذه قال ابن عباس لا تلك امرأة كانت تظهر في الإسلام الشر
   سنن ابن ماجه2067عبد الله بن عباسالبينة أو حد في ظهرك فقال هلال بن أمية والذي بعثك بالحق إني لصادق ولينزلن الله في أمري ما يبرئ ظهري قال فنزلت والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم حتى بلغ والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين
   بلوغ المرام1050عبد الله بن عباس البينة وإلا فحد في ظهرك
   بلوغ المرام939عبد الله بن عباسامر رجلا ان يضع يده عند الخامسة على فيه وقال: ‏‏‏‏إنها موجبة
   مسندالحميدي528عبد الله بن عباسأن النبي صلى الله عليه وسلم أمر رجلا حين لاعن بين المتلاعنين أن يضع يده على فيه عند الخامسة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2067  
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شریک بن سحماء کے ساتھ (بدکاری کا) الزام لگایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگیں گے، ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں، اور اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کوئی ایسا حکم اتارے گا جس سے میری پیٹھ حد لگنے سے بچ جائے گی، راوی نے کہا: پھر یہ آیت اتری: «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2067]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  حضرت ہلال بن امیہ نے اللہ پر توکل کیا اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا تو اللہ نے ان کو بری کردیا۔
اس سے صحابہ کرام کا ایمان اور اللہ کی ذات پر اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔

(2)
  پانچویں گواہی کے الفاظ پہلی چارگواہیوں سے مختلف ہیں۔
اس کا مقصد ضمیر کو بیدار کرنا ہے تاکہ فریقین میں سے جو غلطی پر ہے، وہ اپنی غلطی کا اقرار کرلے اور دنیا کی سزا قبول کرکے آخرت کے عذاب سے بچ جائے۔

(3)
  پانچویں قسم واجب کرنے والی ہے، یعنی واقعی اللہ کی لعنت اوراس کے غضب کی موجب ہے، لہٰذا یہ سمجھ کر قسم کھائیں کہ جھوٹے پر واقعی اللہ کی لعنت اور اس کے غضب کا نزول ہوجائے گا۔

(4)
  قوم کی محبت و عصبیت انسان کو بڑے گناہ پر آمادہ کردیتی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس محبت کو شریعت کی حدود کے اندر رکھا جائے۔

(5)
  بعض اوقات انسان کسی دنیوی مفاد کے لیے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے جب کہ اس مفاد کا حصول یقینی نہیں۔
اس عورت نے خاندان کو بدنامی سے بچانے کےلیے جھوٹی قسم کھائی لیکن رسول اللہﷺ کی بیان کردہ علامت کے مطابق بچہ پیدا ہونے سے وہ غلطی ظاہر ہوگئی جس کو چھپانے کےلیے اس نے اللہ کی غضب کو قبول کیا تھا۔

(6)
  اس قسم کی صورت حال میں بچے کی شکل و شباہت جرم کو ثابت کرتی ہے لیکن اگر قانونی پوریشن ایسی ہوکہ سزا نہ مل سکتی ہو تو جج قانون کی حد سے تجاوز نہیں کرسکتا۔

(7)
ارشاد نبوی:
میرا اس عورت سے معاملہ (دوسرا)
ہوتا۔
یعنی اس عورت کا جرم دار ہونا تو یقینی ہے لیکن چونکہ لعان کے بعد سزا نہیں دی جا سکتی، اس لیے اسے چھوڑ دیا ہے، ورنہ اسے ضروررجم کروا دیا جاتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2067   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1050  
´تہمت زنا کی حد کا بیان`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسلام میں لعان کا پہلا واقعہ شریک بن سحماء کا تھا۔ ان پر ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ اس حدیث کی تخریج ابویعلٰی نے کی ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں اور بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1050»
تخریج:
«أخرجه أبو يعلي:5 /207، حديث:2824، وحديث ابن عباس، أخرجه البخاري، التفسير، حديث:4747.»
تشریح:
وضاحت: «حضرت شریک بن سحماء رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ انصار کے حلیف قبیلے بنو بَلي سے تھے۔
ہلال بن امیہ نے ان پر اپنی بیوی کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تھی۔
ایک قول کے مطابق یہ اپنے والد کے ہمراہ غزوۂ احد میں حاضر تھے اور یہ براء بن مالک کے مادری بھائی تھے۔
ان کے والد کا نام عبدہ بن مُعَتِّب تھا اور سحماء ان کی والدہ کا نام تھا۔
«حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا تعلق انصار کے قبیلۂاوس کی شاخ بنو واقف سے تھا۔
مشہور و معروف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔
قدیم الاسلام تھے۔
بنو واقف کے بتوں کو توڑا کرتے تھے۔
بدر و احد کے معرکوں میں شریک ہوئے۔
فتح مکہ کے دن بنو واقف کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔
یہ ان تین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک تھے جو معرکۂتبوک کے موقع پر پیچھے رہ گئے‘ پھر پچاس روز کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1050   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3179  
´سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی، ہلال نے کہا: جب ہم میں سے کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی سے ہمبستری کرتا ہوا دیکھے گا تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے کہ تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی۔ ہلال نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں سچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی میں اس پر حد جاری کر کے ہی رہتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3179   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2255  
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت دونوں کو لعان کا حکم فرمایا تو ایک شخص کو حکم دیا کہ پانچویں بار میں اپنا ہاتھ مرد کے منہ پر رکھ دے اور کہے: یہ (عذاب کو) واجب کرنے والا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2255]
فوائد ومسائل:
قاضی کو چاہیے کہ موقع بموقع فریقین کو قسم کے اقدام سے باز رہنے کی تلقین کرے کیونکہ دنیا کی عار اور یہاں کی سزا تو عارضی ہے مگر اللہ کی لعنت اور غضب دائمی ہے۔
لاحول ولا قوة إلا بالله۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2255   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3758  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ لعان بچہ جننے کے بعد ہوا۔
لیکن دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ لعان پہلے ہوا تھا۔

کسی عورت کو فحش گفتگو یا حرکات سے زنا کے ثبوت کے بغیر رجم نہیں کیا جا سکتا۔
اس لیے آپﷺ نے اس عورت پر محض قرائن اور تشہیر سے حد نافذ نہیں فرمائی۔

حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب پہلی مرتبہ حضرت عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا تھا،
اس وقت ان کو واقعہ کا پتا نہیں تھا،
آیات کے نزول کے بعد انہیں پتا چلا۔
کیونکہ عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتا دیا تھا۔
اور یہ تینوں افراد عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی بیوی اور جس سے اس نے زنا کیا تھا،
تینوں ان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
اس لیے کہا میں یہ مسئلہ پوچھنے پر اس واقعہ سے دوچار ہوا ہوں۔
معلوم ہوتا ہے ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کی بیویوں کے ساتھ شریک بن سحماء ہی ملوث تھا۔
(فتح الباری ج9ص555 مکتبہ دارالسلام)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3758   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.