الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: سجود قرآن کے مسائل
The Book of Prostration During The Recitation of The Quran.
9. بَابُ ازْدِحَامِ النَّاسِ إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ السَّجْدَةَ:
9. باب: امام جب سجدہ کی آیت پڑھے اور لوگ ہجوم کریں تو بہرحال سجدہ کرنا چاہیے۔
(9) Chapter. The overcrowding of the people when the Imam recites As-Sajda.
حدیث نمبر: 1076
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا بشر بن آدم، قال: حدثنا علي بن مسهر، قال: اخبرنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرا السجدة ونحن عنده فيسجد ونسجد معه، فنزدحم حتى ما يجد احدنا لجبهته موضعا يسجد عليه".حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ مَعَهُ، فَنَزْدَحِمُ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُنَا لِجَبْهَتِهِ مَوْضِعًا يَسْجُدُ عَلَيْهِ".
ہم سے بشر بن آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبیداللہ عمری نے خبر دی، انہیں نافع نے اور نافع کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آیت سجدہ کی تلاوت اگر ہماری موجودگی میں کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے تھے۔ اس وقت اتنا اژدھام ہو جاتا کہ سجدہ کے لیے پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی جس پر سجدہ کرنے والا سجدہ کر سکے۔

Narrated Ibn `Umar: When the Prophet recited Surat As-Sajda and we were with him, he would prostrate and we also would prostrate with him and some of us (because of the heavy rush) would not find a place (for our foreheads) to prostrate on.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 19, Number 182

   صحيح البخاري1079عبد الله بن عمريسجد ونسجد معه حتى ما يجد أحدنا مكانا لموضع جبهته
   صحيح البخاري1076عبد الله بن عمريسجد ونسجد معه فنزدحم حتى ما يجد أحدنا لجبهته موضعا يسجد عليه
   صحيح البخاري1075عبد الله بن عمريسجد ونسجد حتى ما يجد أحدنا موضع جبهته
   صحيح مسلم1295عبد الله بن عمريسجد ونسجد معه حتى ما يجد بعضنا موضعا لمكان جبهته
   سنن أبي داود1412عبد الله بن عمريسجد ونسجد معه حتى لا يجد أحدنا مكانا لموضع جبهته
   سنن أبي داود1413عبد الله بن عمريقرأ علينا القرآن فإذا مر بالسجدة كبر وسجد وسجدنا
   بلوغ المرام276عبد الله بن عمريقرا علينا القران فإذا مر بالسجدة كبر وسجد وسجدنا معه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 276  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
‏‎‍ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔ جب آیت سجدہ پر سے گزرتے تو اللہ اکبر کہ کر سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی سجدہ کرتے۔
ابوداؤد نے اسے کمزور سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 276»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في الرجل يسمع السجده وهو راكب، حديث:1413.* عبدالله بن عمر العمري ضعيف لكنه حسن الحديث عن نافع.»
تشریح:
1. امام حاکم نے اس روایت کو عبیداللہ عمری کے حوالے سے نقل کیا ہے جسے انھوں نے ثقہ کہا ہے‘ اور اس حدیث کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے۔
اور ابوداود کی روایت جسے متن میں بیان کیا گیا ہے عبداللہ اکبر کی ہے‘ وہ ضعیف راوی ہے۔
مستدرک حاکم کی روایت جسے امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث شیخین کی شرط پر ہے اس میں تکبیر کا ذکر نہیں ہے۔
غالباً اسی وجہ سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کی بابت لکھا ہے کہ اس میں تکبیر کا ذکر منکر ہے۔
تکبیر کے بغیر مذکورہ روایت صحیح ہے جیسا کہ امام حاکم نے بھی تکبیر کے بغیر والی روایت ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔
2. سجدۂ تلاوت بھی سجدۂ نماز ہی کی طرح ہے‘ لہٰذا افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے اور سات اعضاء پر سجدہ کرے۔
اور اگر اٹھ کر سیدھا کھڑے ہوئے بغیر‘ بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کر دے تو بھی جائز ہے۔
سجدے کو جاتے اور سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں ہر دفع نیچے جھکتے اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے‘ جب سجدے سے سر اٹھاتے تو بھی اللہ اکبر کہتے۔
(سنن النسائي‘ التطبیق‘ حدیث:۱۱۵۰‘ ۱۱۵۱) حضرت ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔
چونکہ سجدۂ تلاوت بھی نماز کی طرح ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے‘ لہٰذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کرنے کی صورت میں صرف سجدے کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے۔
نماز کے علاوہ سجدے سے سراٹھاتے وقت اللہ اکبر اور بعد میں سلام پھیرنا مروی نہیں۔
3.بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے کو جاتے ہوئے اللہ اکبرکہے اور فارغ ہو کر سلام پھیرے۔
لیکن اس موقف کے حاملین کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے‘ اس لیے سجدہ کو جاتے ہوئے اللہ اکبر اور فراغت کے بعد سلام کہنا ضروری نہیں‘ ہاں اگر کوئی دیگر عمومات سے استدلال کرتے ہوئے صرف جواز کو اپناتا ہے اور تکبیر وغیرہ کہہ لیتا ہے تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔
واللّٰہ أعلم۔
سجدۂ تلاوت قاری اور سامع (پڑھنے اور سننے والے) کے لیے سنت ہے۔
اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع میں سجدہ کرنا چاہیے۔
4.افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت باوضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔
5.سجدۂ تلاوت کی معروف دعا «سَجَدَ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ خَلَقَہُ وَ صَوَّرَہُ وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہُ‘ تَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ» (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۷۱) کا سجدۂ نماز میں پڑھنا تو صحیح ثابت ہے مگر سجدۂ قرآن میں اس کا پڑھنا صحیح سند سے ثابت نہیں۔
تاہم ایک دوسری دعا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے‘ وہ یہ ہے: «اَللّٰھُمَّ اکْتُبْ لِي بِھَا عِنْدَکَ أَجْرًا‘ وَضَعْ عَنِّي بِھَا وِزْرًا وَاجْعَلْھَا لِي عِنْدَکَ ذُخْرًا‘ وَتَقَبَّلْھَا مِنِّي کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ عَبْدِکَ دَاوُدَ» (جامع الترمذي‘ الجمعۃ‘ باب ماجاء مایقول في سجود القرآن‘ حدیث:۵۷۹‘ وسنن ابن ماجہ ‘ حدیث: ۱۰۵۳‘ وصحیح ابن خزیمۃ‘ حدیث:۵۶۲‘ ۵۶۳) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
(فتوحات ربانیہ: ۲ /۲۷۶) نیز امام ابن خزیمہ‘ حاکم‘ ابن حبان‘ شیخ احمد شاکر اور شیخ البانی رحمہم اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے‘ لہٰذا اس دعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا چاہیے۔
(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سنن ابوداود (اُردو) مطبوعہ دارالسلام) جلد دوم‘ حدیث:۱۴۱۴ کے فوائد۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 276   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1412  
´سوار یا وہ شخص جو نماز میں نہ ہو سجدے کی آیت سنے تو کیا کرے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سورۃ پڑھ کر سناتے (ابن نمیر کی روایت میں ہے) نماز کے علاوہ میں (آگے یحییٰ بن سعید اور ابن نمیر سیاق حدیث میں متفق ہیں)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سجدہ کی آیت آنے پر) سجدہ کرتے، ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ مل پاتی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1412]
1412. اردو حاشیہ:
➊ حافظ ابن حجر ؒنے فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ کہ اذدحام کی وجہ سے اگر کسی کو سجدہ کرنے کی جگہ نہ ملتی۔ تو وہ اپنے ساتھی کی کمر پر ہی سجدہ کرلیتا۔ [فتح الباري:723/2]
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب قاری اور سامع نماز میں نہ ہوں۔ تو ان دونوں کا آپس میں ربط ضروری نہیں۔ خواہ کوئی لمبا سجدہ کرے۔ اور دوسرا مختصر ایک پہلے اٹھ جائے۔ اور دوسرا بعد میں اس طرح اگر پڑھنے والا سجدہ نہ بھی کرے۔ تو سننے والا کرسکتا ہے۔ با وضو ہو یا بے وضو مرد ہو عورت یا بچہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1412   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1076  
1076. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ آیت سجدہ تلاوت فرماتے اور ہم آپ کے پاس ہوتے، آپ سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے۔ اس وقت اتنا رش ہو جاتا کہ ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ پاتا کہ وہاں سجدہ کر سکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1076]
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث سے بعضوں نے یہ نکالاکہ جب پڑھنے والا سجدہ کرے تو سننے والا بھی کرے گویا اس سجدے میں سننے والا مقتدی ہے اور پڑھنے والا امام ہے۔
بیہقی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا جب لوگوں کا بہت ہجوم ہوتو تم میں کوئی اپنے بھائی کی پشت پر بھی سجدہ کر سکتا ہے۔
قسطلانی نے کہا جب ہجوم کی حالت میں فرض نماز میں پیٹھ پر سجدہ کرنا جائز ہوا تو تلاوت قرآن پاک کا سجدہ ایسی حالت میں بطریق اولی جائز ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1076   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1076  
1076. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ آیت سجدہ تلاوت فرماتے اور ہم آپ کے پاس ہوتے، آپ سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے۔ اس وقت اتنا رش ہو جاتا کہ ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ پاتا کہ وہاں سجدہ کر سکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1076]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں حتمی طور پر کوئی حکم واضح نہیں کیا۔
شاید آپ کا مقصود یہ ہے کہ سجدۂ تلاوت حتمی ہے جسے کسی عذر کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے بعد اس سے ملتا جلتا ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب من لم يجد موضعا للسجود من الزحام)
جو شخص بوجۂ ہجوم سجدۂ تلاوت کے لیے جگہ نہ پائے۔
معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ باب میں ایسے حالات میں سجدے کا حکم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا شخص کیا کرے؟ آیا وہ کسی دوسرے وقت تک سجدے کو مؤخر کر دے یا دوسرے کی پیٹھ ہی پر سجدہ کر دے یا ایسے حالات میں سجدہ ساقط ہو جائے گا؟ ان مذکورہ بالا تینوں احتمالات میں سے کسی کو متعین نہیں کیا بلکہ اسے مبہم رکھا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کے عنوان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں بقدر استطاعت سجدہ کرے اگرچہ دوسرے کی پشت ہی پر کیوں نہ ہو۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1076   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.