الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
The Book of Musaqah
13. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالأَصْنَامِ:
13. باب: شراب اور مردار اور سور اور بتوں کی بیع حرام ہے۔
Chapter: The prohibition of selling wine, dead meat, pork and idols
حدیث نمبر: 4048
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن عطاء بن ابي رباح ، عن جابر بن عبد الله ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " عام الفتح وهو بمكة إن الله ورسوله حرم بيع الخمر، والميتة، والخنزير، والاصنام، فقيل: يا رسول الله، ارايت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس؟، فقال: لا هو حرام، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عند ذلك قاتل الله اليهود، إن الله عز وجل لما حرم عليهم شحومها اجملوه، ثم باعوه فاكلوا ثمنه "،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ، وَالْمَيْتَةِ، وَالْخِنْزِيرِ، وَالْأَصْنَامِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ فَإِنَّهُ يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ؟، فَقَالَ: لَا هُوَ حَرَامٌ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عِنْدَ ذَلِكَ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمَّا حَرَّمَ عَلَيْهِمْ شُحُومَهَا أَجْمَلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ "،
لیث نے ہمیں یزید بن ابی حبیب سے حدیث بیان کی، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے سال، جب آپ مکہ ہی میں تھے، فرماتے ہوئے سنا: "بلاشبہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع حرام قرار دی ہے۔" کہا گیا: اے اللہ کے رسول! مردار جانور کی چربی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، اس سے کشتیوں (کے تختے) کو روغن کیا جاتا ہے اور چمڑوں کو نرم کیا جاتا ہے اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، وہ حرام ہے۔" پھر اسی وقت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ یہود کو ہلاک کرے! اللہ نے جب ان لے لیے ان جانوروں کی چربی حرام کی تو انہوں نے اسے پھگلایا، پھر اسے فروخت کیا اور اس کی قیمت لے کر کھائی۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح مکہ کے سال مکہ میں سنا، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔ اللہ اور اس کے رسول نے، شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قرار دیا ہے، پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے بارے میں فرمائیں، اس کا کیا حکم ہے، کیونکہ اس سے کشتیوں کو روغن کیا جاتا ہے، اور اس سے چمڑوں کو چکنا کیا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ روشن کرتے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، وہ حرام ہے پھر اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے، جب اللہ تعالیٰ نے ان پر مردار کی چربی کو حرام کر دیا، تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کر دیا، اور اس کی قیمت استعمال کرنے لگے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1581
   صحيح البخاري4296جابر بن عبد اللهالله ورسوله حرم بيع الخمر
   صحيح البخاري2236جابر بن عبد اللهالله ورسوله حرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام
   صحيح مسلم4048جابر بن عبد اللهالله ورسوله حرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس فقال لا هو حرام
   جامع الترمذي1297جابر بن عبد اللهحرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام قيل يا رسول الله أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس قال لا هو حرام قاتل الله اليهود إن الله حرم عليهم الشحوم فأجملوه ثم باعوه
   سنن أبي داود3486جابر بن عبد اللهالله حرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس فقال لا هو حرام قاتل الله اليهود إن الله لما حرم عليهم شحومها أجملوه
   سنن النسائى الصغرى4261جابر بن عبد اللهالله ورسوله حرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس فقال لا هو حرام
   سنن النسائى الصغرى4673جابر بن عبد اللهحرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس فقال لا هو حرام قاتل الله اليهود إن الله لما حرم عليهم شحومها جملوه
   سنن ابن ماجه2167جابر بن عبد اللهالله ورسوله حرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام أرأيت شحوم الميتة فإنه يدهن بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس قال لا هن حرام قاتل الله اليهود إن الله
   بلوغ المرام649جابر بن عبد الله إن الله و رسوله حرم بيع الخمر ،‏‏‏‏ والميتة ،‏‏‏‏ والخنزير ،‏‏‏‏ والأصنام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2167  
´حرام اور ناجائز چیزوں کی خرید و فروخت حلال نہیں ہے۔`
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال جب کہ آپ مکہ میں تھے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے، اس وقت آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے بارے میں ہمیں بتائیے اس کا کیا حکم ہے؟ اس سے کشتیوں اور کھالوں کو چکنا کیا جاتا ہے، اور اس سے لوگ چراغ جلاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں (یہ بھی جائز نہیں) یہ سب چیزیں حرام ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2167]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  شراب، مردار اور خنزیر، ان کو جس طرح کھانا حرام ہے، اسی طرح ان کے دوسرے استعمال بھی حرام ہیں۔

(2)
  مردہ جانور کی چربی کھانے یا جلانے میں استعمال کرنا حرام ہے۔
اسی طرح اس کے دوسرے صنعتی استعمال بھی جائز نہیں۔

(3)
  غیر مسلم ممالک میں حلال جانور (مرغی، بکری، گائے وغیرہ)
بھی ذبح نہیں کیے جاتے بلکہ اللہ کا نام لیے بغیر مشینوں سے کاٹ دیے جاتے ہیں۔
ان ممالک سے آنے والی چربی یا چربی سے تیار شدہ اشیاء استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اور مسلمانوں کو ان ممالک میں جا کر ان کا ذبیحہ کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(4)
  حرام اشیاء کو بیچنا بھی منع ہے۔
اس طرح حاصل ہونے والی کمائی حرام ہے۔

(5)
  غیر مسلموں کی بری عادات اور ان کے رسو رواج سے اجتناب ضروری ہے۔

(6)
  حیلہ کرنے سے حرام چیز حلال نہیں ہو جاتی بلکہ گناہ زیادہ شنیع اور برا ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2167   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 649  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں فتح مکہ کے سال یہ فرماتے سنا کہ بیشک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے شراب کی خرید و فروخت، مردار اور خنزیر کی خرید و فروخت اور بتوں کی تجارت کو حرام کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے متعلق کیا حکم ہے؟ اس لئے کہ اس سے کشتیوں کو طلاء کیا جاتا ہے اور چمڑوں کو چکنا کیا جاتا ہے اور لوگ اسے جلا کر روشنی حاصل کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! وہ بھی حرام ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی فرمایا اللہ تعالیٰ یہود کو غارت کرے، کہ جب اللہ تعالیٰ نے چربیوں کو یہود کے لئے حرام کر دیا تو انہوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا اور اس کی قیمت کھائی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 649»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الميتة والأصنام، حديث:2236، ومسلم، المساقاة، باب تحريم بيع الخمر والميتة...، حديث:1581.»
تشریح:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس چیز کا ذکر ہوا اسے فروخت کرنا حرام ہے‘ بلکہ مردار کے تمام اجزاء کی فروخت حرام ہے‘ البتہ اس کا چمڑا جب رنگ دیا جائے تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ آغاز کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی گزر چکا ہے: «أَیُّمَا إِھَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَھُرَ» جو کچا چمڑا رنگ دیا جائے وہ پاک ہو جاتا ہے۔
جمہور نے مردار کے بالوں اور اون کو بھی مستثنیٰ قرار دیا ہے کیونکہ ان پر مردار کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ان پر زندگی وارد ہوتی ہے۔
اور مردار کے بارے میں جو چیزیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام نہیں کیں ان کا فائدہ حاصل کرنے اور نفع اٹھانے کے بارے میں اختلاف ہے‘ مثلاً: چراغ جلانا‘ شکرے اور باز کو کھلانا۔
ایک رائے یہ ہے کہ ان سے انتفاع مطلقاً حرام ہے۔
اور علامہ خطابی نے ان سے انتفاع کے جواز پراہل علم کے اس اجماع سے استدلال کیا ہے کہ جب کسی کا جانور مر جائے تو اسے شکاری کتوں کے کھانے کے لیے پیش کرنا جائز ہے تو اسی طرح مردار کی چربی سے کشتیوں کو طلا کرنا بھی جائز ہے۔
ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں جیسا کہ عون المعبود(:۳ /۲۹۸) میں فتح الباری کے حوالے سے منقول ہے۔
اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد (:۴ /۲۴۲) میں کہا ہے کہ یہ بات معلوم رہنی چاہیے کہ انتفاع کا باب‘ بیع سے زیادہ وسیع و کشادہ ہے۔
پس معلوم ہوا کہ ہر وہ چیز جسے فروخت کرنا حرام ہے‘ ضروری نہیں کہ اس سے انتفاع بھی حرام ہو۔
ان دونوں کے مابین تلازم نہیں ہے‘ لہٰذا جس چیز کا فروخت کرنا حرام ہے اس سے حرمت انتفاع اخذ نہیں کی جائے گی۔
اصنام (بتوں) کی خرید و فروخت تو صرف اس لیے حرام کی گئی ہے کہ یہ آلات شرک میں سے ایک آلہ ہیں اور اسی سے ہر آلہ ٔشرک کی حرمت مستفید ہوتی ہے،نیز اسی پر باجے اور گانے بجانے کے آلات کو قیاس کیا گیا ہے۔
اور تجارت شراب کی حرمت میں ہر نشہ آور چیز کی تجارت کی حرمت شامل ہوگئی‘ خواہ وہ چیز مائع (بہنے والی) ہو یا منجمدا ور جامد‘ کشید کی گئی ہو یا پکا کر تیار کی ہوئی۔
یہ حدیث تین قسم کی اجناس کی حرمت پر مشتمل ہے: مشروبات (پینے کی اشیاء) جو عقل کو فاسد کر دیتے ہیں‘ کھانے جو طبائع میں فساد پیدا کرتے اور خبیث غذا بنتے ہیں اور نقود (دولت) جو فساد ادیان کا باعث ہوتے اور فتنہ و شرک کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
(الھـدی) اس حدیث میں شدید تنبیہ ہے کہ ہر وہ حیلہ جو حرام کو حلال بنانے کے راستے کی طرف لے جاتا ہو‘ باطل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 649   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3486  
´شراب اور مردار کی قیمت لینا حرام ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا (آپ مکہ میں تھے): اللہ نے شراب، مردار، سور اور بتوں کے خریدنے اور بیچنے کو حرام کیا ہے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ (اس سے تو بہت سے کام لیے جاتے ہیں) اس سے کشتیوں پر روغن آمیزی کی جاتی ہے، اس سے کھال نرمائی جاتی ہے، لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں (ان سب کے باوجود بھی) وہ حرام ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر فرمایا: اللہ تعالی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3486]
فوائد ومسائل:

وہ اشیاء جن کا استعمال جائز نہ ہو۔
ان کی تجارت کس طرح جائز قرار دی جا سکتی ہے؟ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
کہ شراب حرام ہے۔
ادویات میں بھی استعمال حرام ہے۔
اوراس کی تجارت بھی حرام ہے۔


مردار جانور کا گوشت یا اس کی ہڈیاں فروخت کرنا حرام ہے۔
البتہ (حلال جانوروں کا) چمڑا رنگے جانے کے بعد پاک ہوجاتا ہے۔
اور اس کی بیع بھی جائز ہے۔


خنزیر زندہ ہو یا مردہ اس کے تمام اجزاء نجس اور حرام ہیں۔
مردار کی ہڈیوں سے حاصل ہونے والے مواد بھی حرام ہیں۔
ان حرام اشیاء کی خریدوفروخت نہیں ہوسکتی۔


مردار کی چربی کو چراغ میں جلانا جائز ہے۔
لیکن فروخت کرنا قطعاً درست نہیں۔


بت اور ذی روح اشیاء کی تماثیل (مجسمے) لکڑی لوہے مٹی پتھر یا پلاسٹک وغیرہ کی ہوں۔
خواہ بچوں کے کھلونے کیوں نہ ہوں۔
ان کا بنانا اور تجارت کرنا حرام ہے، چھوٹے بچے بچیاں گھروں مین اگر ازخود بنالیں اور ان کی آنکھیں ناک۔
کان۔
وغیرہ نہ ہوں محض ہیولے کی صورت ہوں۔
تو رخصت دی جا سکتی ہے۔
جیسے کہ حضرت عائشہ رضی للہ عنہا نے ایک گھوڑا بنایا تھا۔


ایسے تمام حیلے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کرنے کےلئے استعمال کئے جایئں حرا م ہیں۔
نام تبدیل کردینے سے حکم تبدیل نہیں ہوتا۔
اور حیلوں سے کام نکالنا یہودیوں کی صفت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3486   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4048  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مردار سے مراد وہ جانور ہیں،
جو اپنی موت آپ مر جائے،
یا شرعی طریقہ کے مطابق اس کو ذبح نہ کیا جائے،
مردار کا گوشت بالاتفاق حرام ہے،
اور مچھلی اور مکڑی حدیث کی روشنی میں اس سے مستثنیٰ ہیں۔
باقی اجزاء کے بارے میں اختلاف ہے،
امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک جن اجزاء میں زندگی نہیں ہوتی،
مثلا بال،
ناخن،
کھر اور سینگ وغیرہ،
ان سے فائدہ اٹھانا اور بیچنا جائز ہے،
لیکن امام شافعی اور احمد رحمہما اللہ کے نزدیک مردار کے تمام اجزاء نجس ہوتے ہیں،
اس لیے ان کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے۔
یہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے لکھا ہے،
لیکن حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے بقول،
جن اجزاء میں زندگی نہیں ہے،
وہ مردار نہیں ہیں،
اس لیے جمہور اہل علم کے نزدیک طاہر حیوان کے یہ اجزاء مردار ہونے کی صورت میں طاہر ہوں گے۔
امام ابو حنیفہ،
امام مالک،
امام احمد،
امام لیث،
امام داود وغیرہم رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے،
صرف امام شافعی،
ان کو نجس قرار دیتے ہیں۔
(زاد المعاد ج 5 ص 667)
ہڈیوں کے بارے میں اختلاف ہے،
جن حضرات کے نزدیک وہ نجس نہیں ہیں،
جیسے امام ابو حنیفہ،
بعض حنابلہ اور ابن وہب مالکی،
ان کے نزدیک ان کی تجارت (بیع)
جائز ہے،
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کو ترجیح دی ہے۔
(ج 5،
ص 674)

امام مالک ہڈیوں کو نجس سمجھتے ہیں،
اس لیے ان کے نزدیک مردار کی ہڈیوں کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے،
اس لیے وہ ہاتھی دانت (عاج و انیاب)
کی خرید و فروخت اور ان کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے۔
اس حدیث کی رو سے میت انسان کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں ہے،
وہ مسلمان ہو یا کافر،
اس لیے جب نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ،
خندق میں گرا اور مسلمانوں نے اس کو قتل کر کے،
اس پر قبضہ کر لیا،
اور کافروں نے اس کی لاش کے عوض دس ہزار درہم کی پیشکش کی،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا،
اور اس کی لاش ان کے حوالہ کر دی۔
(عمدۃ القاری،
ج 12،
ص 56،
مطبوعہ منیریہ،
شرح مسلم،
ج 2،
نووی،
ص 23)
(2)
خنزیر کی بیع کی حرمت پر اتفاق ہے،
اس کے کسی جزء کو بھی نہیں بیچا جا سکتا،
مردار،
شراب اور خنزیر کی حرمت کی علت قبول ابن حجر رحمہ اللہ،
جمہور علماء کے نزدیک نجاست ہے،
اس لیے ہر نجس چیز کی بیع حرام ہے،
فتح الباری،
ج 4،
ص 537۔
مکتبہ دارالسلام،
لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے اس قول کو شوافع کی طرف منسوب کیا ہے،
مسلم،
ج 2،
ص 23۔
اس لیے ائمہ ثلاثہ کے نزدیک،
ارڑی اور عزرہ گندگی کا بیچنا جائز نہیں ہے،
لیکن احناف کے نزدیک علت،
مردار،
خنزیر اور شراب سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت ہے،
اس لیے جن چیزوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے،
ان کی بیع بھی جائز ہے۔
(3)
صنم:
بت کی بیع کی حرمت کی علت،
اس سے جائز نفع کا نہ ہونا ہے،
اس اعتبار سے اگر اسے توڑ پھوڑ کر نفع اٹھانا ممکن ہو،
تو پھر اس کے اجزاء کا بیچنا،
بعض احناف اور بعض شوافع کے نزدیک جائز ہے،
اور صنم کی بیع کی حرمت سے معلوم ہوتا ہے،
وہ تمام آلات اور اشیاء جن کی پرستش ہوتی ہے،
ان کی بیع ناجائز ہے،
بلکہ بقول حافظ ابن قیم شرک کی پرچار کرنے والی کتابوں کی بیع بھی جائز نہیں ہے۔
(زاد المعاد،
ج 5،
ص 675)
(4)
لا،
هو،
حرام،
هو،
کا مرجع شوافع کے نزدیک اور حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہما اللہ کے نزدیک بیع ہے،
کہ چربی سے ان فوائد اور منافع کے حصول کے باوجود اس کی بیع حرام ہے،
اس لیے اس سے یہ منافع حاصل کرنا جائز ہے،
لیکن خرید و فروخت جائز نہیں ہے،
خلاصہ کلام کے طور پر حافظ ابن قیم لکھتے ہیں:
ليس كل ما حرم بيعه حرم الانتفاع به،
بل لا تلازم بينهما،
فلا يؤخذ تحريم الانتفاع من تحريم البيع (زاد المعاد،
ج 5،
ص 668)

ہر چیز جس کا بیچنا حرام ہے،
اس سے فائدہ اٹھانا حرام نہیں ہے،
بیع کی حرمت اور انتفاع کی حرمت آپس میں لازم و ملزوم نہیں ہیں،
اس لیے بیع کی حرمت سے انتفاع (فائدہ اٹھانا)
کی حرمت ثابت نہیں ہوتی،
لیکن جمہور علماء جن میں احناف بھی داخل ہیں،
ان کے نزدیک مردار کی چربی سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے،
گویا ضمیر کا مرجع بیع نہیں بلکہ نفع اٹھانا ہے،
اور بعض احادیث میں ضمیر هي یا هن ہے،
اس سے جمہور کی تائید ہوتی ہے،
اور شوافع کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے فرمایا:
"انہوں نے چربی کو بیچا اور اس کی قیمت کو استعمال کیا تو حرمت اس کی بیع ہے،
کیونکہ جس چیز کا کھانا حرام ہے،
اس کا بیچنا بھی حرام ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4048   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.