داود نے ہمیں ابونضرہ سے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سونا چاندی کے تبادلے کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے اس میں کوئی حرج نہ دیکھا۔ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے اس تبادلے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: (ایک ہی جنس کے تبادلے میں) جو اضافہ ہو گا وہ سود ہے۔ میں نے ان دونوں کے قول کی بنا پر (جس میں انہوں نے ایسی کوئی شرط نہ لگائی تھی) اس بات کا انکار کیا تو انہوں نے کہا: میں تمہیں وہی حدیث بیان کروں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔ آپ کے باغ کا نگران آپ کے پاس عمدہ کھجور کا ایک صاع لایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کھجور اس (عام) قسم کی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "یہ تمہارے پاس کہاں سے آئیں؟" اس نے کہا: میں (اس کے) دو صاع لے کر گیا اور ان کے عوض میں نے یہ ایک صاع خرید لی، بازار میں اِس کا نرخ اتنا ہے اور اُس کا اتنا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر افسوس! تم نے سود کا معاملہ کیا، جب تم یہ (عمدہ کھجور) لینا چاہو تو اپنی کھجور کسی (اور) تجارتی چیز کے عوض فروخت کر دو، پھر اپنی چیز سے جو کھجور چاہو، خرید لو۔" حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: کھجور کے عوض کھجور، زیادہ لائق ہے کہ سود ہو، یا چاندی کے عوض چاندی؟ (ابونضرہ نے) کہا: میں اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے اس سے منع کیا اور میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس نہیں آیا۔ کہا: مجھے ابوصبہاء نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے مکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بھی اسے ناپسند کیا تھا۔
ابو نضرہ رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے نقدی کے باہمی تبادلہ کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا، میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو میں نے ان سے بھی صرف (نقدی کا باہمی تبادلہ) کے بارے میں پوچھ لیا، تو انہوں نے کہا، ایک جنس کی صورت میں جو اضافہ ہے، وہ سود ہے، تو میں نے ان دونوں (ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہم) کے قول کی بناء پر اس کا انکار کیا، تو ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میں تو تمہیں وہی بات بتا رہا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کی کھجوروں کا نگران، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اچھی قسم کی کھجوروں کا ایک صاع لایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھجوریں (کم تر) قسم کی تھیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تم یہ کہاں سے لائے ہو؟“ اس نے جواب دیا، میں دو صاع لے کر گیا اور ان کے عوض یہ ایک صاع خرید لایا، کیونکہ ان کا بازار میں بھاؤ یہ ہے، اور ان کا نرخ یہ (یعنی اچھی کھجوروں کا نرخ زیادہ ہے اور نکمی کا کم ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر افسوس ہے، تم نے سودی معاملہ کیا ہے جب تم اچھی کھجوریں لینا چاہو، تو اپنی کھجوریں، ایک سودہ کی صورت میں فروخت کر دو، پھر اپنے سامان (قیمت) سے جونسی کھجوریں چاہو خرید لو، ابو سعید ؓ نے سوال کیا، کھجوروں کا کھجوروں سے تبادلہ پر سود زیادہ صادق آتا ہے یا چاندی کے چاندی سے تبادلہ پر؟“ (یعنی اگر کھجور کی کھجور سے تبادلہ میں کمی و بیشی سود ہے تو چاندی کے چاندی سے تبادلہ میں کمی و بیشی بالاولیٰ سود ہے) ابو نضرہ کہتے ہیں، میں بعد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کو ملا، تو انہوں نے مجھے اس سے منع کر دیا، لیکن میں ابن عباس ؓ کو نہیں ملا، لیکن مجھے ابو صبہاء نے بتایا کہ میں نے اس معاملہ کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مکہ مکرمہ میں سوال کیا، تو انہوں نے اس کو ناپسند قرار دیا۔