الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قسموں کا بیان
The Book of Oaths
10. باب إِطْعَامِ الْمَمْلُوكِ مِمَّا يَأْكُلُ وَإِلْبَاسِهِ مَمَّا يَلْبَسُ وَلاَ يُكَلِّفُهُ مَا يَغْلِبُهُ:
10. باب: غلام کو وہی کھلاؤ اور پہناؤ جو خود کھاتے اور پیتے ہو اور ان کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دو۔
حدیث نمبر: 4313
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، قال: مررنا بابي ذر بالربذة وعليه برد وعلى غلامه مثله، فقلنا يا ابا ذر: لو جمعت بينهما كانت حلة، فقال: إنه كان بيني وبين رجل من إخواني كلام وكانت امه اعجمية، فعيرته بامه فشكاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فلقيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " يا ابا ذر إنك امرؤ فيك جاهلية، قلت: يا رسول الله، من سب الرجال سبوا اباه وامه، قال: يا ابا ذر إنك امرؤ فيك جاهلية هم إخوانكم جعلهم الله تحت ايديكم، فاطعموهم مما تاكلون، والبسوهم مما تلبسون، ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فاعينوهم "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، قَالَ: مَرَرْنَا بِأَبِي ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ وَعَلَى غُلَامِهِ مِثْلُهُ، فَقُلْنَا يَا أَبَا ذَرٍّ: لَوْ جَمَعْتَ بَيْنَهُمَا كَانَتْ حُلَّةً، فَقَالَ: إِنَّهُ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْ إِخْوَانِي كَلَامٌ وَكَانَتْ أُمُّهُ أَعْجَمِيَّةً، فَعَيَّرْتُهُ بِأُمِّهِ فَشَكَانِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَقِيتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ سَبَّ الرِّجَالَ سَبُّوا أَبَاهُ وَأُمَّهُ، قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ هُمْ إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَأَلْبِسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ "،
وکیع نے کہا: ہمیں اعمش نے معرور بن سوید سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم زَبذہ (کے مقام) میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ہاں سے گزرے، ان (کے جسم) پر ایک چادر تھی اور ان کے غلام (کے جسم) پر بھی ویسی ہی چادر تھی۔ تو ہم نے کہا: ابوذر! اگر آپ ان دونوں (چادروں) کو اکٹھا کر لیتے تو یہ ایک حلہ بن جاتا۔ انہوں نے کہا: میرے اور میرے کسی (مسلمان) بھائی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، اس کی ماں عجمی تھی، میں نے اسے اس کی ماں کے حوالے سے عار دلائی تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری شکایت کر دی، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو آپ نے فرمایا: "ابوذر! تم ایسے آدمی ہو کہ تم میں جاہلیت (کی عادت موجود) ہے۔" میں نے کہا: اللہ کے رسول! جو دوسروں کو برا بھلا کہتا ہے وہ اس کے ماں اور باپ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "ابوذر! تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت ہے، وہ (چاہے کنیز زادے ہوں یا غلام یا غلام زادے) تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے، تم انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان پر ایسے کام کی ذمہ داری نہ ڈالو جو ان کے بس سے باہر ہو، اگر ان پر (مشکل کام کی) ذمہ داری ڈالو تو ان کی اعانت کرو
حضرت معرور بن سوید بیان کرتے ہیں کہ ہم ربذہ مقام پر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سے گزرے، انہوں نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی، اور ان کے غلام پر ویسی ہی چادر تھی، تو ہم نے کہا، اے ابوذر! اگر تم ان دونوں چادروں کو اکٹھا کر لیتے، تو یہ جوڑا بن جاتا، تو انہوں نے جواب دیا، واقعہ یہ ہے کہ میرے اور میرے ایک مسلمان بھائی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، اس کی والدہ عجمی تھی، میں نے اسے اس کی ماں کی عار دلائی، تو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری شکایت کی، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت کی بو ہے۔ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! جو لوگوں کو برا بھلا کہتا ہے، لوگ اس کے باپ اور ماں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! تو ایسا انسان ہے، جس میں جاہلیت کی عادت موجود ہے، وہ تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارا زیردست (محکوم) بنایا ہے، تو انہیں وہی کھلاؤ، جو خود کھاتے ہو، وہ پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور انہیں ایسے کام کا مکلف نہ ٹھہراؤ، جو ان کے لیے دشوار اور بھاری ہو، اور اگر انہیں ایسے کام کا مکلف ٹھہراؤ، تو ان کی مدد کرو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1661
   صحيح البخاري31جندب بن عبد اللهمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم
   صحيح البخاري2545جندب بن عبد اللهإخوانكم خولكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم ما يغلبهم فأعينوهم
   صحيح مسلم4313جندب بن عبد اللهيا أبا ذر إنك امرؤ فيك جاهلية قلت يا رسول الله من سب الرجال سبوا أباه وأمه قال يا أبا ذر إنك امرؤ فيك جاهلية هم إخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم فأطعموهم مما تأكلون وألبسوهم مما تلبسون ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم
   صحيح مسلم4315جندب بن عبد اللهإنك امرؤ فيك جاهلية إخوانكم وخولكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يديه فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم عليه
   جامع الترمذي1945جندب بن عبد اللهإخوانكم جعلهم الله فتية تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه من طعامه وليلبسه من لباسه ولا يكلفه ما يغلبه فإن كلفه ما يغلبه فليعنه
   سنن أبي داود5157جندب بن عبد اللهإخوانكم فضلكم الله عليهم فمن لم يلائمكم فبيعوه ولا تعذبوا خلق الله
   سنن أبي داود5158جندب بن عبد اللهإخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يديه فليطعمه مما يأكل وليكسه مما يلبس ولا يكلفه ما يغلبه فإن كلفه ما يغلبه فليعنه
   سنن أبي داود5161جندب بن عبد اللهمن لاءمكم من مملوكيكم فأطعموه مما تأكلون واكسوه مما تلبسون ومن لم يلائمكم منهم فبيعوه ولا تعذبوا خلق الله
   سنن ابن ماجه3690جندب بن عبد اللهإخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم فأطعموهم مما تأكلون وألبسوهم مما تلبسون ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم
   مسندالحميدي328جندب بن عبد اللهيخرج من ثقيف كذاب ومبير

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 31  
´معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا`
«. . . قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ حُلَّةٌ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا فَعَيَّرْتُهُ بِأُمِّهِ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ،" أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ، إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ . . .»
. . . میں ابوذر سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی (یعنی گالی دی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی، بیشک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 31]

تشریح:
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں بہت ہی بڑے زاہد عابد تھے۔ ربذہ مدینہ سے تین منازل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے، وہاں ان کا قیام تھا۔ بخاری شریف میں ان سے چودہ احادیث مروی ہیں۔ جس شخص کو انہوں نے عار دلائی تھی وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے اور ان کو انہوں نے ان کی والدہ کے سیاہ فام ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوذر ابھی تم میں جاہلیت کا فخر باقی رہ گیا۔ یہ سن کر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے رخسار کے بل خاک پر لیٹ گئے۔ اور کہنے لگے کہ جب تک بلال میرے رخسار پر اپنا قدم نہ رکھیں گے۔ مٹی سے نہ اٹھوں گا۔

«حله» دو چادروں کو کہتے ہیں۔ جو ایک تہمد کی جگہ اور دوسری بالائی حصہ جسم پر استعمال ہو۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی لیکن ایمان سے خارج نہیں بتلایا۔ ثابت ہوا کہ معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا۔ پس معتزلہ و خوارج کا مذہب باطل ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص معصیت کا ارتکاب کرے اور اسے حلال جان کر کرے تو اس کے کفر میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ حدود الٰہی کا توڑنا ہے، جس کے لیے ارشاد باری ہے: «وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ» [البقرة: 229] جو شخص حدود الٰہی کو توڑے وہ لوگ یقیناً ظالم ہیں۔ شیطان کو اس ذیل میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس نے اللہ کی نافرمانی کی اور اس پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے لگا اللہ نے اسی کی وجہ سے اسے مردود و مطرود قرار دیا۔ پس گنہگاروں کے بارے میں اس فرق کا ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 31   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3690  
´غلاموں کے ساتھ احسان (اچھے برتاؤ) کرنے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حقیقت میں لونڈی اور غلام) تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے، اس لیے جو تم کھاتے ہو وہ انہیں بھی کھلاؤ، اور جو تم پہنتے ہو وہ انہیں بھی پہناؤ، اور انہیں ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان کی قوت و طاقت سے باہر ہو، اور اگر کبھی ایسا کام ان پر ڈالو تو تم بھی اس میں شریک رہ کر ان کی مدد کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3690]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اسلام میں غلام بنانا ممنوع نہیں تاہم غلام کے حقوق اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ آزاد انسان کے بہت قریب ہو جاتا ہےاس کے علاوہ غلام کو آزاد کرنے کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔

(2)
بہت سی صورتوں میں غلام کوآزاد کرنا مسلمانوں کے لیے یا خود غلام کے لیے تکلیف یا نقصان کا باعث ہو سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالی ٰ نے فرمایا:
﴿وَالَّذينَ يَبتَغونَ الكِتابَ مِمّا مَلَكَت أَيمانُكُم فَكاتِبوهُم إِن عَلِمتُم فيهِم خَيرً‌ا﴾  (النور، 24: 33)
اور تمہارے جو لونڈی غلام مکاتبت (آزادی کا معاہدہ)
کرنا چاہیں تو ان سے آزادی کا معاہدہ کر لو اگر تمہیں ان کے اندر بھلائی معلوم ہو۔
اس لیے غیر مسلم یا بری عادتوں میں مبتلا غلام کو آزاد کرنے کی بجائے غلام ہی رکھنے میں اس کا اور معاشرے کا فائدہ ہے۔

(3)
غلام کے انسانی حقوق کا خیال رکھنا مالک کا فرض ہے۔

(4)
غلام کے لیے مناسب غذا، مناسب لباس اور رہائش مہیا کرنا آقا کی ذمہ داری ہے، اس کے عوض وہ آقا کی خدمت کرے گا اور روز مرہ معاملات میں اس سے تعاون کرے گا۔

(5)
اگر غلام کے ذمے ایسا کام لگایا جائے جو وہ اکیلا انجام نہ دے سکتا ہو تو مالک کا فرض ہے کہ خود اس کے ساتھ مل کر کام کرے یا اسے مدد کار غلام نہیں تاہم وہ حالات کی وجہ سے مالک کی سختی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کے حقوق غلاموں سے زیادہ ہیں۔
ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام لینا کم آرام کا موقع دینا ان کی عزت نفس مجروح کرنا اور تخواہ دینے میں بلاوجہ تاخیر کرنا یہ سب کام حرام ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3690   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5157  
´غلام اور لونڈی کے حقوق کا بیان۔`
معرور بن سوید کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر کو ربذہ (مدینہ کے قریب ایک گاؤں) میں دیکھا وہ ایک موٹی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور ان کے غلام کے بھی (جسم پر) اسی جیسی چادر تھی، معرور بن سوید کہتے ہیں: تو لوگوں نے کہا: ابوذر! اگر تم وہ (چادر) لے لیتے جو غلام کے جسم پر ہے اور اپنی چادر سے ملا لیتے تو پورا جوڑا بن جاتا اور غلام کو اس چادر کے بدلے کوئی اور کپڑا پہننے کو دے دیتے (تو زیادہ اچھا ہوتا) اس پر ابوذر نے کہا: میں نے ایک شخص کو گالی دی تھی، اس کی ماں عجمی تھی، میں نے اس کی ماں کے غیر عربی ہونے کا اسے طعنہ دیا، اس نے میری شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5157]
فوائد ومسائل:

اس میں حضرت ابو ذر کی فضیلت کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نصیحت کو ازحد پلے باندھ لیا تھا۔


کسی کو اس کے حسب نسب کا طعنہ دینا جاہلیت کی علامت ہے۔


جس مسلمان بھائی کے ساتھ نفسیاتی مناسبت نہ ہو تو اس کے ساتھ بلاوجہ الجھنا کسی طرح معقول نہیں، چاہیے کہ آدمی کسی اور سے معاملہ استوار کرلے۔


اللہ کی مخلوق انسان ہو یا حیوان اس کو بلاوجہ عذاب دینا ناجائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5157   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4313  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ربذة،
مدینہ منورہ سے تین دن کی مسافت پر ذات عرق کے پاس ایک بستی ہے،
جہاں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے آخری دور میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں،
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اجازت سے رہائش اختیار کر لی تھی،
اور وہیں 33ھ میں وفات پائی،
ان کی کسی دوسرے مسلمان صحابی کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی،
اور انہوں نے اسے یا ابن السوداء کہا،
یعنی حبشن کے بچے،
اس طرح ان کے نسب پر طعن کیا،
جس کا جاہلیت کے دور میں عام رواج تھا،
اس لیے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا،
کہ باہمی گالی گلوچ میں دوسرے کے والدین پر طعن کیا ہی جاتا ہے،
اس لیے اس کو ظلم و زیادتی تصور نہیں کیا جاتا،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ جاہلیت کے دور کا وطیرہ ہے،
اسلامی اخلاق کی رو سے کسی کے والدین کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا،
اگر ضرور جواب دینا ہے،
تو جس کے ساتھ جھگڑا ہو اس تک محدود رہے،
بہتر ہے درگزر سے کام لے،
بعض روایات سے جن کی سند متصل نہیں ہے،
معلوم ہوتا ہے،
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے مدمقابل،
حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے،
جو غلام رہ چکے تھے،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تمہارے غلام،
تمہارے بھائی ہیں،
جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے محکوم بنایا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ایک مظلوم طبقہ کے ساتھ حسن سلوک کی کس قدر مؤثر اور دل نشیں اپیل کی ہے،
غلام اور آقا کو اولاد آدم ہونے اور دین کے ناطہ سے بھائی بھائی قرار دیا ہے،
اور پھر اس تعلق اور رشتہ کی بنیاد پر یہ فرمایا ہے،
ان کے ساتھ وہی برتاؤ اور سلوک کرو،
جو بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے،
انہیں وہی کھلایا اور پہنایا جائے،
جو خود کھایا اور پہنا جائے،
اسلام کے ان سنہری اور زریں اصول و ہدایات کے مقابلہ میں آج مسلمان کہلانے والوں کو وہ سلوک اور وطیرہ دیکھیں،
جو ایک سرمایہ دار اور صنعت کار مزدور کے ساتھ،
ایک جاگیردار زمیندار مزارع اور کسان کے ساتھ،
ایک تاجر،
اپنے ملازم کے ساتھ،
اور ایک افسر اپنے ماتحت کے ساتھ،
بلکہ ایک امیر بھائی اپنے غریب بھائی کے ساتھ اختیار کرتا ہے،
اگر آج مسلمان ان تعلیمات و ہدایات کو اپنا کر،
اپنے ماتحتوں،
خادموں،
ملازموں اور محکوموں کی ضروریات زندگی کو پورا کرنا اپنا اولین فرض سمجھیں،
چاہے ان ضرورتوں کے پورا کرنے میں ان کو اپنے برابر کی سطح پر نہ لائیں،
تو آج ہماری بے شمار مشکلات اور مسائل حل ہو جائیں اور مسلمانوں میں اخوت و بھائی چارہ اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات امن و سلامتی کے ضامن بن جائیں،
کیونکہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرح اپنے خادم و غلام یا غلام یا ملازم کو برابر کی سطح پر لانا فرض نہیں ہے،
بلکہ ایک اعلیٰ اخلاق اور کریمانہ سنت ہے،
لیکن اس کی ضروریات زندگی کو پورا کرنا فرض ہے،
اور اس حدیث سے اور اس کی ہم معنی دوسری احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے،
کہ غلام،
خادم یا محکوم و ماتحت سے اتنا ہی کام لیا جا سکتا ہے،
جتنا وہ دشواری اور کلفت کے بغیر سرانجام دے سکے،
اس کی ہمت و طاقت سے بڑھ کر کام لینا جو اس کے لیے دشواری اور کلفت کا سبب بنے،
درست نہیں ہے،
اگر کبھی کام کا بوجھ زیادہ ہو تو پھر اس کا ہاتھ بٹانا چاہیے،
تاکہ ان کے لیے سہولت اور آسانی پیدا ہو سکے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4313   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.