الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
کسی کو ملنے والی چیز جس کے مالک کا پتہ نہ ہو
1ق. باب مَعْرِفَةِ الْعِفَاصِ وَالْوِكَاءِ وَحُكْمِ ضَالَّةِ الْغَنَمِ وَالإِبِلِ
1ق. باب: گمشدہ چیز کا اعلان کرنا اور بھٹکی ہوئی بکری اور اونٹ کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 4508
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جرير ، عن الاعمش . ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع . ح وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي جميعا، عن سفيان . ح وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا عبد الله بن جعفر الرقي ، حدثنا عبيد الله يعني ابن عمرو ، عن زيد بن ابي انيسة . ح وحدثني عبد الرحمن بن بشر ، حدثنا بهز ، حدثنا حماد بن سلمة كل هؤلاء، عن سلمة بن كهيل بهذا الإسناد نحو حديث شعبة، وفي حديثهم جميعا " ثلاثة احوال "، إلا حماد بن سلمة فإن في حديثه " عامين او ثلاثة "، وفي حديث سفيان، وزيد بن ابي انيسة، وحماد بن سلمة " فإن جاء احد يخبرك بعددها ووعائها ووكائها، فاعطها إياه " وزاد سفيان في رواية وكيع وإلا فهي كسبيل مالك، وفي رواية ابن نمير " وإلا فاستمتع بها ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ . ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ شُعْبَةَ، وَفِي حَدِيثِهِمْ جَمِيعًا " ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ "، إِلَّا حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ فَإِنَّ فِي حَدِيثِهِ " عَامَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً "، وَفِي حَدِيثِ سُفْيَانَ، وَزَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، وَحَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ " فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُخْبِرُكَ بِعَدَدِهَا وَوِعَائِهَا وَوِكَائِهَا، فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ " وَزَادَ سُفْيَانُ فِي رِوَايَةِ وَكِيعٍ وَإِلَّا فَهِيَ كَسَبِيلِ مَالِكَ، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ " وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا ".
قتیبہ بن سعید نے کہا: ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی۔ ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی۔ ابن نمیر نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی، وکیع اور عبداللہ بن نمیر نے سفیان سے روایت کی۔ محمد بن حاتم نے کہا: ہمیں عبداللہ بن جعفر رَقی نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبیداللہ بن عمر نے زید بن ابی انیسہ سے حدیث بیان کی۔ عبدالرحمٰن بن بشر نے کہا: ہمیں بہز نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی، ان سب (اعمش، سفیان، زید بن ابی انیسہ اور حماد بن سلمہ) نے سلمہ بن کہیل سے اسی سند کے ساتھ شعبہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔ حماد بن سلمہ کے سوا، ان سب کی حدیث میں تین سال ہیں اور ان (حماد) کی حدیث میں دو یا تین سال ہیں۔ سفیان، زید بن ابی انیسہ اور حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے: "اگر کوئی (تمہارے پاس) آ کر تمہیں اس کی تعداد، تھیلی اور بندھن کے بارے میں بتا دے تو وہ اسے دے دو۔" وکیع کی روایت میں سفیان نے یہ اضافہ کیا: "ورنہ وہ تمہارے مال کے طریقے پر ہے۔" اور ابن نمیر کی روایت میں ہے: "اور اگر نہیں (آیا) تو اسے فائدہ اٹھاؤ
امام صاحب اپنے پانچ اساتذہ کی سندوں سے سلمہ بن کہیل کی مذکورہ بالا سند سے شعبہ ہی کی طرح حدیث بیان کرتے ہیں اور سب کی حدیث میں تین سال کا ذکر ہے، مگر حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے دو یا تین سال اور سفیان، زید بن ابی انیسہ اور حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے، اگر تمہارے پاس ایسا آدمی آئے جو تمہیں ان کی تعداد، ان کی تھیلی اور ان کے بندھن کے بارے میں بتا دے تو اسے دے دو۔ اور سفیان نے وکیع کی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے، وگرنہ تمہارے مال کے حکم میں ہے۔ اور ابن نمیر کی روایت میں ہے، وگرنہ تو اس سے فائدہ اٹھا لے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1723

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4508  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عام روایات میں تشہیر کے لیے ایک سال کی تشہیر کی تعیین ہے اور اس روایت میں ایک،
دو،
تین سال میں شک ہے،
اس لیے قطعی اور یقینی ایک سال ہے،
اس لیے ایک سال تشہیر تو لازم ہے،
لیکن ایک سے زائد سال کی تشہیر میں مال کی مالیت اور قدروقیمت کے اعتبار سے اگر وہ یہ سمجھے کہ خرچ کرنے کے بعد،
اس کی ادائیگی مشکل ہو گی تو ایک سے زائد سال تشہیر کر سکتا ہے اور جب یہ سمجھے کہ اب اس کا مالک اس کو بھلا چکا ہے تو پھر استعمال کر لے،
بہرحال اگر کبھی اس کا مالک مل بھی جائے تو اس کو اس کی امانت ادا کرنی ہو گی،
اگر اپنے اوپر خرچ کر لی ہے اور اگر صدقہ کر دی ہے تو پھر اسے آگاہ کرنا ہو گا،
اگر وہ تسلیم کر لے تو ٹھیک ہے،
وگرنہ ادا کرنا ہو گا،
آج کل اخبارات گمشدہ چیز کا مفت اعلان کر دیتے ہیں،
اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4508   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.