حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا وهب بن جرير بن حازم ، حدثني ابي ، قال: سمعت قيسا يحدث، عن يزيد بن هرمز . ح وحدثني محمد بن حاتم واللفظ له، قال: حدثنا بهز ، حدثنا جرير بن حازم ، حدثني قيس بن سعد ، عن يزيد بن هرمز ، قال: كتب نجدة بن عامر إلى ابن عباس، قال: فشهدت ابن عباس حين قرا كتابه وحين كتب جوابه، وقال ابن عباس : والله لولا ان ارده عن نتن يقع فيه ما كتبت إليه ولا نعمة عين، قال: " فكتب إليه إنك سالت عن سهم ذي القربى الذي ذكر الله من هم؟، وإنا كنا نرى ان قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم هم نحن، فابى ذلك علينا قومنا، وسالت عن اليتيم متى ينقضي يتمه؟، وإنه إذا بلغ النكاح، واونس منه رشد ودفع إليه ماله فقد انقضى يتمه، وسالت هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقتل من صبيان المشركين احدا؟، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يقتل منهم احدا وانت فلا تقتل منهم احدا، إلا ان تكون تعلم منهم ما علم الخضر من الغلام حين قتله، وسالت عن المراة والعبد هل كان لهما سهم معلوم إذا حضروا الباس؟، فإنهم لم يكن لهم سهم معلوم، إلا ان يحذيا من غنائم القوم "،حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسًا يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَشَهِدْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ حِينَ قَرَأَ كِتَابَهُ وَحِينَ كَتَبَ جَوَابَهُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّهُ عَنْ نَتْنٍ يَقَعُ فِيهِ مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ وَلَا نُعْمَةَ عَيْنٍ، قَالَ: " فَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّكَ سَأَلْتَ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مَنْ هُمْ؟، وَإِنَّا كُنَّا نَرَى أَنَّ قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ نَحْنُ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا، وَسَأَلْتَ عَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُهُ؟، وَإِنَّهُ إِذَا بَلَغَ النِّكَاحَ، وَأُونِسَ مِنْهُ رُشْدٌ وَدُفِعَ إِلَيْهِ مَالُهُ فَقَدِ انْقَضَى يُتْمُهُ، وَسَأَلْتَ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ مِنْ صِبْيَانِ الْمُشْرِكِينَ أَحَدًا؟، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ مِنْهُمْ أَحَدًا وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْ مِنْهُمْ أَحَدًا، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الْغُلَامِ حِينَ قَتَلَهُ، وَسَأَلْتَ عَنِ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ هَلْ كَانَ لَهُمَا سَهْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ؟، فَإِنَّهُمْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ سَهْمٌ مَعْلُومٌ، إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا مِنْ غَنَائِمِ الْقَوْمِ "،
یزید بن ہرمز سے روایت ہے نجدہ بن عامر نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا جب انہوں نے نجدہ کی کتاب پڑھی اور جب اس کا جواب لکھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: قسم اللہ کی اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ وہ نجاست میں گر جائے گا (یعنی حماقت کی بات کر بیٹھے گا) تو میں اس کو جواب نہ لکھتا اور اللہ کرے اس کی آنکھ کبھی ٹھنڈی نہ ہو (یعنی اس کو خوشی نصیب نہ ہو) پھر یہ لکھا، تو نے مجھ سے پوچھا ذوالقربیٰ کا حصہ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے وہ کون ہیں؟ تو ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت والے ہم لوگ ہیں لیکن ہماری قوم نے نہ مانا۔ اور تو نے پوچھا: یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے تو جب وہ نکاح کے قابل ہو جائے اور اس کو عقل آ جائے اور اس کا مال اس کے سپرد ہو جائے اس کی یتیمی ختم ہو گئی اور تو نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے بچوں کو مارتے تھے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے کسی بچے کو نہیں مارتے تھے اور تو بھی مت مار۔ البتہ اگر تجھے اتنا علم ہو جیسے خضر علیہ السلام کو تھا اور جب انہوں نے لڑکے کو مارا تو خیر، اور تو نے پوچھا: عورت اور غلام کا کوئی حصہ لگے گا اگر وہ لڑائی میں شریک ہوں تو ان کو کوئی حصہ نہیں ملتا تھا مگر انعام کے طور پر غنیمت میں سے۔