الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
16. باب وُجُوبِ الإِنْكَارِ عَلَى الأُمَرَاءِ فِيمَا يُخَالِفُ الشَّرْعَ وَتَرْكِ قِتَالِهِمْ مَا صَلَّوْا وَنَحْوِ ذَلِكَ:
16. باب: اگر امیر شرع کے خلاف کوئی کام کرے تو اس کو برا جاننا چاہیئے۔
حدیث نمبر: 4801
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو غسان المسمعي ، ومحمد بن بشار جميعا، عن معاذ واللفظ لابي غسان، حدثنا معاذ وهو ابن هشام الدستوائي ، حدثني ابي ، عن قتادة ، حدثنا الحسن ، عن ضبة بن محصن العنزي ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إنه يستعمل عليكم امراء فتعرفون وتنكرون، فمن كره فقد برئ، ومن انكر فقد سلم، ولكن من رضي وتابع، قالوا: يا رسول الله، الا نقاتلهم، قال: لا ما صلوا، اي من كره بقلبه وانكر بقلبه "،وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ جميعا، عَنْ مُعَاذٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي غَسَّانَ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ الْعَنَزِيِّ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّهُ يُسْتَعْمَلُ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ كَرِهَ فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ فَقَدْ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نُقَاتِلُهُمْ، قَالَ: لَا مَا صَلَّوْا، أَيْ مَنْ كَرِهَ بِقَلْبِهِ وَأَنْكَرَ بِقَلْبِهِ "،
ہشام دستوائی نے قتادہ سے روایت کی، کہا: ہمیں حسن نے ضبہ بن محصب عنزی سے حدیث بیان کی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "تم پر ایسے امیر لگائے جائیں گے جن میں تم اچھائیاں بھی دیکھو گے اور برائیاں بھی، جس نے (برے کاموں کو) ناپسند کیا، وہ بری ہو گیا، جس نے انکار کیا وہ بچ گیا، مگر جس نے پسند کیا اور پیچھے لگا (وہ بری ہوا نہ بچ سکا۔) " صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں، آپ نے فرمایا: "نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا جس نے دل سے ناپسند کیا اور دل سے برا جانا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واقعہ یہ ہے، تم پر ایسے حکمران مقرر کیے جائیں گے، ان کی کچھ باتوں کو تم اچھا سمجھو گے اور کچھ کو برا خیال کرو گے، تو جس نے ان کی بری باتوں کو ناپسند سمجھا تو وہ (مؤاخذہ سے) بری ہو گیا اور جس نے ان کو ماننے سے انکار کر دیا، وہ (گناہ سے) سلامت رہا، لیکن جو ان پر راضی ہو گیا اور ان کو مانا (وہ بری اور سلامت نہ رہا) صحابہ کرام نے پوچھا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم ان سے جنگ نہ لڑیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ برا جاننے سے مراد دل سے برا جاننا ہے اور انکار سے مراد دل سے انکار ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1854
   صحيح مسلم4800هند بنت حذيفةستكون أمراء فتعرفون وتنكرون فمن عرف برئ ومن أنكر سلم ولكن من رضي وتابع قالوا أفلا نقاتلهم قال لا ما صلوا
   صحيح مسلم4801هند بنت حذيفةيستعمل عليكم أمراء فتعرفون وتنكرون فمن كره فقد برئ ومن أنكر فقد سلم ولكن من رضي وتابع قالوا يا رسول الله ألا نقاتلهم قال لا ما صلوا أي من كره بقلبه وأنكر بقلبه
   جامع الترمذي2265هند بنت حذيفةسيكون عليكم أئمة تعرفون وتنكرون فمن أنكر فقد بريء ومن كره فقد سلم ولكن من رضي وتابع فقيل يا رسول الله أفلا نقاتلهم قال لا ما صلوا
   سنن أبي داود4760هند بنت حذيفةستكون عليكم أئمة تعرفون منهم وتنكرون فمن أنكر بلسانه فقد برئ ومن كره بقلبه فقد سلم ولكن من رضي وتابع فقيل يا رسول الله أفلا نقتلهم قال لا ما صلوا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2265  
´حکمراں جب تک نماز کی پابندی کرے اس کی اطاعت کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تمہارے اوپر ایسے حکمراں ہوں گے جن کے بعض کاموں کو تم اچھا جانو گے اور بعض کاموں کو برا جانو گے، پس جو شخص ان کے برے اعمال پر نکیر کرے وہ مداہنت اور نفاق سے بری رہا اور جس نے دل سے برا جانا تو وہ محفوظ رہا، لیکن جو ان سے راضی ہو اور ان کی اتباع کرے (وہ ہلاک ہو گیا)، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2265]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
منکر کا انکار اگر زبان سے ہے تو ایسا شخص نفاق سے بری ہے،
اور دل سے ناپسند کرنے والا اس منکر کے شر اور وبال سے محفوظ رہے گا،
لیکن جو پسند کرے اور اس سے راضی ہو تو وہ منکر کرنے والوں کے ساتھ ہے،
یعنی جس سزاکے وہ مستحق ہوں گے اس سزا کا یہ بھی مستحق ہوگا،
منکر انجام دینے والے بادشاہوں سے اگر وہ نماز کے پابند ہوں،
قتال کرنے سے اس لیے منع کیاگیا تاکہ فتنہ سے محفوظ رہ سکیں،
اور امت اختلاف و انتشار کا شکار نہ ہو،
جب کہ نماز کی پابندی نہ کرنے والا تو کافر ہے،
اس لیے اس سے قتال جائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2265   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4760  
´خوارج سے قتال کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم پر ایسے حاکم ہوں گے جن سے تم معروف (نیک اعمال) ہوتے بھی دیکھو گے اور منکر (خلاف شرع امور) بھی دیکھو گے، تو جس نے منکر کا انکار کیا، (ابوداؤد کہتے ہیں: ہشام کی روایت میں «بلسانہ» کا لفظ بھی ہے (جس نے منکر کا) اپنی زبان سے انکار کیا) تو وہ بری ہو گیا اور جس نے دل سے برا جانا وہ بھی بچ گیا، البتہ جس نے اس کام کو پسند کیا اور اس کی پیروی کی تو وہ بچ نہ سکے گا عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم انہیں قتل نہ کر دیں؟ (سلیمان ابن داود طیالسی) کی روایت میں ہے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4760]
فوائد ومسائل:
1: نماز ایک ایسا عمل ہے، اس کی پابندی انسان کے لئے بڑے سے بڑے گناہ سے بھی قتل وقتال سےرکاوٹ بن جاتی ہے، سوائے اس کہ معروف حدود کا ارتکاب کرے۔

2: اور ایسے امراء جو نماز پڑھتے ہوں ان کے خلاف خروج (بغاوت) جائز نہیں۔
نماز ترک کر دیں تو مسئلہ اختلافی ہے۔

3: شرعی منکرات اور رعیت پرظلم کو آدمی قوت سے بدلنے پر قادر نہ ہو تو زبان سے یا کم از کم دل سے ان کو برا کہنا اور جاننا فرض ہے ورنہ ایمان نہیں۔

4: ظالموں کے ظلم پر راضی رہنا اور ان کا معاون بننا دنیا اور آخرت کی ہلاکت کا باعث ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4760   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.