الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مشروبات کا بیان
The Book of Drinks
32. باب إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَفَضْلِ إِيثَارِهِ:
32. باب: مہمان کی خاطرداری کرنا چاہئے۔
حدیث نمبر: 5365
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، وحامد بن عمر البكراوي ، ومحمد بن عبد الاعلى القيسي كلهم، عن المعتمر ، واللفظ لابن معاذ ، حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: قال ابي : حدثنا ابو عثمان ، انه حدثه عبد الرحمن بن ابي بكر ، ان اصحاب الصفة كانوا ناسا فقراء، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال مرة: " من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثلاثة، ومن كان عنده طعام اربعة فليذهب بخامس بسادس " او كما قال، وإن ابا بكر جاء بثلاثة، وانطلق نبي الله صلى الله عليه وسلم بعشرة وابو بكر بثلاثة، قال: فهو وانا وابي وامي، ولا ادري هل قال: وامراتي وخادم بين بيتنا وبيت ابي بكر؟، قال: وإن ابا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم، ثم لبث حتى صليت العشاء ثم رجع، فلبث حتى نعس رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء بعدما مضى من الليل ما شاء الله، قالت له امراته: ما حبسك عن اضيافك او قالت ضيفك؟ قال: او ما عشيتهم، قالت: ابوا حتى تجيء قد عرضوا عليهم فغلبوهم، قال: فذهبت انا فاختبات، وقال يا غنثر: فجدع وسب، وقال: كلوا لا هنيئا، وقال: والله لا اطعمه ابدا، قال: فايم الله ما كنا ناخذ من لقمة إلا ربا من اسفلها اكثر منها، قال: حتى شبعنا وصارت اكثر مما كانت قبل ذلك، فنظر إليها ابو بكر فإذا هي كما هي او اكثر، قال لامراته: يا اخت بني فراس ما هذا قالت؟ لا وقرة عيني لهي الآن اكثر منها قبل ذلك بثلاث مرار، قال: فاكل منها ابو بكر، وقال: إنما كان ذلك من الشيطان يعني يمينه ثم اكل منها لقمة ثم حملها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاصبحت عنده، قال: وكان بيننا وبين قوم عقد، فمضى الاجل فعرفنا اثنا عشر رجلا مع كل رجل منهم اناس الله اعلم كم مع كل رجل إلا انه بعث معهم، فاكلوا منها اجمعون او كما قال.حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ كُلُّهُمْ، عَنْ الْمُعْتَمِرِ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ مُعَاذ ٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: قَالَ أَبِي : حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا نَاسًا فُقَرَاءَ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً: " مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَلَاثَةٍ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ " أَوْ كَمَا قَالَ، وَإِنَّ أَبَا بَكْر ٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ، وَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَكْرٍ بِثَلَاثَةٍ، قَالَ: فَهُوَ وَأَنَا وَأَبِي وَأُمِّي، وَلَا أَدْرِي هَلْ قَالَ: وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَكْرٍ؟، قَالَ: وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صُلِّيَتِ الْعِشَاءُ ثُمَّ رَجَعَ، فَلَبِثَ حَتَّى نَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ بَعْدَمَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ؟ قَالَ: أَوَ مَا عَشَّيْتِهِمْ، قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ، قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ، وَقَالَ يَا غُنْثَرُ: فَجَدَّعَ وَسَبَّ، وَقَالَ: كُلُوا لَا هَنِيئًا، وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا، قَالَ: فَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا، قَالَ: حَتَّى شَبِعْنَا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ، قَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا قَالَتْ؟ لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلَاثِ مِرَارٍ، قَالَ: فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ، قَالَ: وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ، فَمَضَى الْأَجَلُ فَعَرَّفْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ إِلَّا أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ، فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا قَالَ.
معمبر بن سلیمان کے والد نے کہا: ہمیں ابو عثمان نے حدیث بیان کی کہ انھیں حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین (تیسرے: صحیح بخاری: 602) کولے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا ہو وہ پانچویں یا چھٹے کو بھی لے جائے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال بھی دس کے قریب تھے تو گویا آدھا کھانا مہمانوں کے لئے ہوا)۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمارے گھر میں کوئی نہیں تھا سوائے میرے باپ اور میری ماں کے۔ راوی نے کہا کہ شاید اپنی بیوی کا بھی کہا اور ایک خادم جو میرے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رات کا کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھایا، پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی گئی۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ گئے اور وہیں رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ غرض بڑی رات گزرنے کے بعد جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ گھر آئے اور ان کی بیوی نے کہا کہ تم اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا کہ مہمانوں نے تمہارے آنے تک نہیں کھایا اور انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا تھا لیکن مہمان ان پر نہ کھانے میں غالب ہوئے۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ناراضگی کے ڈر سے) چھپ گیا تو انہوں نے مجھے پکارا کہ اے سست مجہول یا احمق! تیری ناک کٹے اور مجھے برا کہا اور مہمانوں سے کہا کہ کھاؤ اگرچہ یہ کھانا خوشگوار نہیں ہے (کیونکہ بے وقت ہے)۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اللہ کی قسم میں اس کو کبھی بھی نہ کھاؤں گا۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے نیچے وہ کھانا اتنا ہی بڑھ جاتا، یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کھانے کو دیکھا کہ وہ اتنا ہی ہے یا زیادہ ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنی عورت سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن یہ کیا ہے؟ وہ بولی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) کہ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ (ہوگیا) ہے تین حصے زیادہ ہے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کھایا اور کہا کہ میں نے جو قسم کھائی تھی وہ (غصے میں) شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا، اس کے بعد وہ کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ میں بھی صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان عقد تھا (یعنی صلح کا اقرار تھا)، پس اقرار کی مدت گزر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ آدمی ہمارے افسر کئے اور ہر ایک کے ساتھ لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ پھر وہ کھانا ان کے ساتھ کر دیا اور سب لوگوں نے اس میں سے کھایا۔یا جس طرح انہوں نے بیان کیا۔
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہے، وہ تین کو لے اور جس کے پاس چار کا کھانا، وہ پانچواں چھٹا لے جائے۔ یا جو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین افراد کو لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو لے گئے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین افراد لائے، کیونکہ گھر میں میں، میرا باپ اور میری ماں تھے، (اور عبدالرحمٰن کے شاگرد کہتے ہیں) میں نہیں جانتا، کیا انہوں نے کہا، میری بیوی اور ہمارے دونوں گھروں کا مشترکہ خادم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کا کھانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھایا، پھر عشاء کی نماز پڑھنے تک وہیں ٹھہرے رہے، پھر دوبارہ وہیں آئے، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے لگے اور جس قدر اللہ کو منظور تھا، اتنی رات گزرنے کے بعد آئے، ان کی بیوی نے ان سے کہا، اپنے مہمانوں یا مہمان سے کیوں رکے رہے؟ انہوں نے پوچھا کہ یا تم نے ان کو شام کا کھانا نہیں کھلایا؟ اس نے کہا: انہوں نے آپ کی آمد تک انکار کیا، گھر والوں نے ان کے سامنے پیش کیا تھا اور وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے، عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں جا کر چھپ گیا، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے احمق، نادان، تیری ناک کٹے اور برا بھلا کہا اور مہمانوں کو کہا: کھاؤ، یہ تمہارے لیے خوش گوار نہ ہو اور کہا: اللہ کی قسم! میں کبھی بھی اس کو نہیں کھاؤں گا اور اللہ کی قسم! ہم جو لقمہ اٹھاتے، اس سے زیادہ نیچے سے ابھر آتا، حتی کہ ہم سیر ہو گئے اور وہ پہلے سے زیادہ ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر نظر دوڑائی تو وہ اتنا ہی یا اس سے زیادہ تھا، انہوں نے اپنی بیوی سے کہا: اے بنو فراس کے فرد! یہ کیا ہوا؟ اس نے کہا: نہیں، میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم! یہ اب پہلے سے تین گنا زیادہ ہے اور اس سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کھایا اور فرمایا: وہ قسم تو شیطانی کام تھا، پھر اس سے لقمہ اٹھایا، پھر اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے، وہ صبح تک آپ کے پاس رہا، ہمارے اور ایک قوم کے درمیان معاہدہ تھا، مدت گزر گئی اور ہم نے بارہ نگران مقرر کیے، ہر آدمی کے ماتحت لوگ تھے، اللہ ہی جانتا ہے، ہر ایک آدمی کے تحت کتنے لوگ تھے، اتنی بات ہے کہ آپ نے کھانا ان کے ساتھ بھیجا اور ان سب نے اس سے کھایا، یا جو الفاظ استاد نے کہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2057
   صحيح البخاري3581عبد الرحمن بن عبدمن كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث ومن كان عنده طعام أربعة فليذهب بخامس أو سادس
   صحيح البخاري602عبد الرحمن بن عبدمن كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث وإن أربع فخامس أو سادس
   صحيح مسلم5365عبد الرحمن بن عبدمن كان عنده طعام اثنين فليذهب بثلاثة ومن كان عنده طعام أربعة فليذهب بخامس بسادس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5365  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يا عنثر:
اے نادان،
جاہل،
کمینے،
کیونکہ انہوں نے سمجھا عبدالرحمٰن نے مہمانوں کو کھانا کھلانے میں کوتاہی کی ہے،
اس لیے،
انہیں برا بھلا کہا اور ناک کٹنے کی بات کی۔
(2)
لاهنئيا:
تم نے گھر والوں کو پریشان کیا اور بیٹے کی بجائے باپ کی حاضری پر اصرار کیا،
اس لیے کھانا تمہارے لیے خوش گوار نہ ہو،
یا کھانا پڑے پڑے ٹھنڈا ہوگیا،
اس لیے خوش گوار نہیں ہے۔
فوائد ومسائل:
اصحاب صفہ،
طالب علم تھے،
جو گھر بار چھوڑ کر تعلیم کے لیے آپ کے پاس آتے تھے اور مسجد کے چھپر میں ہی رہتے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کھانے کا انتظام فرماتے اور وہ خود بھی اس کے لیے کوشش کرتے اور آپ نے لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی اور خیرخواہی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ایک دن ساتھیوں سے فرمایا،
ہر آدمی اپنی وسعت و گنجائش کے مطابق ان میں سے ایک یا دو کو لے جائے اور دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے خود اپنے گھر کے افراد کی تعداد کے مطابق دس آدمیوں کو لے گئے،
اس طرح آپ نے آغاز اپنے گھر سے کیا اور سب سے زیادہ جودوسخا کا مظاہرہ فرمایا اور یہ اسوہ حسنہ ہی دراصل لوگوں کو حوصلہ دلاتا ہے اور ان کے اندر کام کرنے کی رغبت پیدا کرتا ہے،
جو بدقسمتی سے آج مفقود ہے،
کوئی دینی و دنیوی لیڈر دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بنتا صرف زبانی کلامی نعروں سے لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے،
آج یہ لوگ اپنی تجوریوں کا منہ کھول دیں تو لوگ بھی یقینا ان کی اقتدا میں اپنا مال فقراء اور مساکین کو دینے کے لیے تیار ہو جائیں اور غربت کا علاج ہو جائے اور اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق اور ربط بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے مہمان اپنے بیٹے کے سپرد کر کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے گئے اور رات گئے تک،
جب تک آپ سونے نہیں گئے،
گھر واپس نہیں آئے اور پھر مہمانوں کی خدمت میں کوتاہی کا مرتکب خیال کر کے اپنے شادی شدہ بیٹے کو بھی برا بھلا کہا اور وہ ڈر کے مارے چھپ گیا،
جس سے معلوم ہوا وہ دوسروں کے لیے تو بہت نرم اور شفیق تھے،
لیکن بیٹوں کا سخت محاسبہ کرتے تھے اور انہوں نے مہمانوں کے بیجا اصرار پر غصہ کا اظہار فرماتے ہوئے،
کھانا کھانے سے انکار کیا اور قسم اٹھا دی،
لیکن جب مہمانوں نے بھی قسم اٹھا دی تو اپنی قسم کو توڑ ڈالا تاکہ مہمان بھوکے نہ رہیں اور اس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ان کی کرامت ظاہر کر دی کہ کھانے میں برکت ڈال دی،
جس کو دیکھ کر انہوں نے دوبارہ لقمہ لیا اور پھر کھانا آپ کو پیش کر دیا،
جس میں آپ کی کرامت کا ظہور ہوا کہ وہ کھانا بارہ افراد کے ماتحت افراد کے لیے کافی ہو گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5365   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.